Breaking News
Home / کالمز / “معاشرتی برائیاں اور اصلاح کے پہلو”

“معاشرتی برائیاں اور اصلاح کے پہلو”

تحریر :سید عابد کاظمی برمنگھم یوکے

معاشرتی برائیوں کی روک تھام ایک اہم ذمہ داری ہے جو ہم سب پر عائد ہوتی ہے۔ معاشرے میں پائی جانے والی منفی عادات جیسے کہ غیبت، چغلی، منافقت، حرام خوری، بد دیانتی، کرپشن اور لوٹ مار نے ہمارے معاشرتی ڈھانچے کو کمزور کر دیا ہے۔ یہ تمام برائیاں ہمارے معاشرے کا حصہ بن چکی ہیں، اور بدقسمتی سے ہم بظاہر دیندار ہو کر بھی ان میں ملوث ہیں۔ آج نماز، حج اور عمرے کی ادائیگی، لمبی داڑھی اور چیریٹی کو محض دکھاوے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، جبکہ حقیقی دینداری سے ہم کوسوں دور ہیں۔
جب ہم دوسروں کی برائیاں کرتے ہیں، ان کی پیٹھ پیچھے چغلی کرتے ہیں یا دوسروں پر بلاوجہ تنقید کرتے ہیں تو یہ صرف دوسروں کو نقصان نہیں پہنچاتی بلکہ ہماری اپنی روح کو بھی خراب کرتی ہے۔ ہم معاشرتی معاملات میں دوسروں کی اصلاح پر زور دیتے ہیں، مگر خود اپنی اصلاح سے غافل رہتے ہیں۔ قرآنی تعلیمات سے ہدایت لینے کے بجائے، اسے محض ثواب کی نیت سے پڑھا جاتا ہے۔ ہم حلال غذا کا تو خیال کرتے ہیں مگر حلال روزگار کی طرف توجہ نہیں دیتے۔
برطانیہ میں موجود مساجد اور مذہبی ٹی وی چینلز نے دین کو محدود کر دیا ہے، جن کا مقصد صرف چندے جمع کرنا اور مالی مفاد حاصل کرنا ہے۔ لوگ دین کا نام لے کر اپنے مفاد کی باتیں کرتے ہیں اور فتنہ پھیلانے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں۔ جب ان کو روکا جائے تو اصلاح کا دعویٰ کرتے ہیں، مگر اصل مقصد لوگوں کو غلط راستے پر لے جانا ہوتا ہے۔
ان معاشرتی برائیوں کا خاتمہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب ہم اپنی اصلاح پر توجہ دیں اور خود کو دوسروں کے لیے مثال بنائیں۔ سب سے پہلے ہمیں اپنی نیتوں کو درست کرنا ہو گا اور اپنی عبادات کو دکھاوے کے بجائے اخلاص کے ساتھ ادا کرنا ہو گا۔ قرآن پاک کو ہدایت کے لیے پڑھیں اور اس کی تعلیمات کو اپنی زندگیوں میں لاگو کریں۔
1. خود احتسابی: ہمیں سب سے پہلے اپنی ذات کا محاسبہ کرنا چاہیے۔ ہر شخص کو اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہیے کہ کیا وہ واقعی اسلامی تعلیمات پر عمل کر رہا ہے؟
2. سچی عبادت اور اخلاص: ہماری عبادت، چاہے وہ نماز ہو، روزہ ہو یا حج، اس کا مقصد اللہ کی رضا ہونا چاہیے، نہ کہ دوسروں کو دکھانا۔ جب عبادات اخلاص کے ساتھ ہوں گی تو ہمارے کردار میں بھی خود بخود تبدیلی آئے گی۔
3. سچائی اور دیانتداری: حلال کمانے کی کوشش کریں اور دوسروں کے حقوق کا خیال رکھیں۔ دیانتداری اور حلال روزی ہمارے ایمان کا حصہ ہیں، اور اسی سے معاشرے میں امانت اور انصاف کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔
4. مثبت سوشل میڈیا کا استعمال: سوشل میڈیا کو مثبت استعمال کریں اور دوسروں کو اچھائی کی دعوت دیں۔ فتنہ پھیلانے کے بجائے، مفید اور ہدایت انگیز پیغامات شیئر کریں۔
5. قرآن کی تعلیمات کو عام کرنا: ہمیں قرآن کو محض ثواب کے لیے نہیں بلکہ ہدایت کے لیے پڑھنا چاہیے اور اس کی تعلیمات کو دوسروں تک پہنچانا چاہیے۔ قرآن سے محبت اور اس کی تعلیمات کو عملی زندگی میں شامل کرنا ہماری کامیابی کا ذریعہ ہے۔
اس وقت بھی معاشرے سے برائیوں کا خاتمہ ممکن ہے، لیکن اس کے لیے ہمیں اپنی ذات سے اصلاح کا آغاز کرنا ہو گا۔ ہم دوسروں کی برائیوں کو چھوڑ کر اپنی اصلاح پر توجہ دیں، سچے مسلمان بنیں اور اسلام کی حقیقی روح کو اپنے عمل سے ثابت کریں۔ جب ہم اخلاص، دیانت اور سچائی کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں گے تو معاشرہ خود بخود ان برائیوں سے پاک ہو جائے گا۔

Check Also

ایک بالکل فرضی مکالمہ!!

تحریر: سہیل وڑائچ چودھری ریاست علی:یہ عدالتیں کیا کر رہی ہیں،9 مئی کے کرداروں کو …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے