پاکستان میں حالیہ دنوں میں وی پی این (ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک) کے استعمال کو غیر شرعی قرار دینے کی خبر نے نہ صرف عوام کو حیرت میں مبتلا کیا بلکہ کئی سوالات بھی اٹھائے ہیں۔ یہ فیصلہ، جو مبینہ طور پر اسلامی نظریاتی کونسل کے ذریعے پیش کیا گیا، ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب دنیا ڈیجیٹل آزادی کی طرف گامزن ہے۔میں نے اوورسیز میں بسنے والے مہذہبی اور سیاسی شخصیات سے اس فتوے کے بارے میں رائے دریافت کی جس دوران انہوں نے کچھ سوالات پوچھے اور کچھ نے اپنی رائے دی جسکو میں اپنی تحریر میں آپ کے سامنے پیش کر نے جا رہا ہوں۔سوال نمبر ایک
اسلامی نظریاتی کونسل یا حکومتی آلہ کار؟
اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام ایک آئینی ادارے کے طور پر ہوا تھا، جس کا مقصد اسلامی تعلیمات کی روشنی میں قوانین کی تشکیل میں رہنمائی فراہم کرنا تھا۔ تاہم، ماضی میں کئی مواقع پر یہ سوال اٹھا ہے کہ آیا یہ ادارہ اپنے اصل مقصد کے مطابق آزادانہ طور پر کام کر رہا ہے یا حکومتی مفادات کے تحت فیصلے کر رہا ہے۔
وی پی این جیسے تکنیکی موضوع پر کونسل کی رائے طلب کرنے کے بجائے، ماہرینِ قانون اور ٹیکنالوجی سے مشورہ کیا جانا چاہیے تھا۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نے اپنی سوچ کے مطابق اسلام کو استعمال کرتے ہوئے یہ فیصلہ لیا ہے تاکہ سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر کنٹرول بڑھایا جا سکے۔
نمبر ۲-وی پی این کو غیر شرعی قرار دینے کی منطق؟
وی پی این ایک تکنیکی ذریعہ ہے جو صارفین کو انٹرنیٹ پر اپنی شناخت کو محفوظ رکھنے اور جغرافیائی پابندیوں کو عبور کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
غلط استعمال کا پہلو: حکومت کا مؤقف شاید یہ ہو کہ وی پی این کا استعمال غیر قانونی سرگرمیوں، جیسے غیر اخلاقی مواد تک رسائی یا حکومت مخالف بیانیے کو فروغ دینے کے لیے کیا جا سکتا ہے۔
کنٹرول کا مقصد: حکومت کی جانب سے وی پی این کو غیر شرعی قرار دینے کا اصل مقصد شاید ڈیجیٹل آزادیوں کو محدود کرنا اور عوام کو ریاستی کنٹرول کے دائرے میں رکھنا ہے۔
نمبر ۳-کیا یہ اسلامی جمہوری ملک کے اصولوں کے مطابق ہے؟
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایسا فیصلہ نہ صرف عوامی حقوق بلکہ اسلامی تعلیمات کے بنیادی اصولوں سے بھی متصادم نظر آتا ہے:
اسلامی اصولوں کی روشنی میں آزادی؛اسلام میں علم، معلومات، اور آزادی رائے کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ وی پی این ایک ایسا ٹول ہے جو انٹرنیٹ تک آزادانہ رسائی فراہم کرتا ہے اور لوگوں کو اپنی پرائیویسی کا تحفظ کرنے کا حق دیتا ہے۔
ناانصافی کے خلاف جدوجہد: اسلامی تعلیمات میں ظلم اور جبر کے خلاف جدوجہد کی تلقین کی گئی ہے۔ اگر وی پی این پر پابندی عوام کو معلومات تک رسائی سے محروم کرنے کے لیے لگائی گئی ہے تو یہ اسلامی اصولوں کے خلاف ہے۔
ایک مہذہبی شخصیت نے تواس فتوے کو یزیدی دور سے موازنہ کر ڈالا:
تاریخی طور پر، یزیدی دور کو ظلم و جبر کی علامت سمجھا جاتا ہے، جہاں مذہب کو اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے استعمال کیا گیا۔
آج کے حالات: وی پی این کو غیر شرعی قرار دینے جیسے فیصلے بھی اسی رویے کی عکاسی کرتے ہیں، جہاں مذہب کا استعمال عوامی آزادیوں کو محدود کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
فرق: یزید کے دور میں طاقت کے استحکام کے لیے جو حربے استعمال ہوئے، وہی حربے آج کے ڈیجیٹل دور میں نظر آتے ہیں، جہاں آزادی رائے اور معلومات تک رسائی کو دبانے کے لیے فتویٰ اور قانون کا سہارا لیا جا رہا ہے۔
سوال نمبر ۴-وی پی این: ایک ضرورت یا خطرہ؟
وی پی این کے مثبت پہلوؤں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا:
1. پرائیویسی کا تحفظ: وی پی این صارفین کی ڈیجیٹل شناخت کو محفوظ رکھتا ہے۔
2. علم تک رسائی: وی پی این تعلیمی مواد، تحقیقی مواد اور دیگر پابندی شدہ معلومات تک رسائی کا ذریعہ ہے۔
3. حکومتی نگرانی سے بچاؤ: جہاں حکومت انٹرنیٹ پر نگرانی کو بڑھا رہی ہو، وی پی این ایک محفوظ راستہ فراہم کرتا ہے۔
میری ذاتی رائے کے مطابق
وی پی این کو غیر شرعی قرار دینے کا فیصلہ تکنیکی اور اسلامی دونوں حوالوں سے کمزور نظر آتا ہے۔ یہ اقدام آزادی اظہار، معلومات تک رسائی، اور پرائیویسی کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ اسلامی جمہوری معاشرے میں ایسے فیصلے اسلامی اصولوں کی روح سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مذہب کو ریاستی کنٹرول کے لیے استعمال کرنے کے بجائے حقیقی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں عوامی حقوق اور آزادیوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔
تحریر:سید عابد کاظمی برمنگھم برطانیہ
Check Also
ایک بالکل فرضی مکالمہ!!
تحریر: سہیل وڑائچ چودھری ریاست علی:یہ عدالتیں کیا کر رہی ہیں،9 مئی کے کرداروں کو …