انڈیا کو رواں سال بین الاقوامی سطح پر متعدد بڑے فورموں کے اجلاسوں کی سربراہی کی ذمہ داری دی جا رہی ہے جس سے بین الاقوامی سطح پر اس کے قد میں اضافے کا امکان نظر آتا ہے۔
انڈیا کو رواں سال دسمبر میں جی 20 کی سربراہی ملنے والی ہے جبکہ اس کا سربراہی اجلاس اگلے سال نئی دہلی میں ہوگا۔شنگھائی تعاون تنظیم کی صدارت بھی انڈیا کے پاس آچکی ہے اور اس کا سربراہی اجلاس بھی اگلے سال انڈیا میں ہونے والا ہے۔
انڈیا کو رواں سال دسمبر میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی صدارت بھی مل جائے گی۔انڈیا کے G-7 میں شامل ہونے کی بات بھی کی جا رہی ہے اور اگر ایسا ہوا تو یہ گروپ G-8 بن جائے گا۔رواں ماہ ستمبر میں ہی برطانیہ کو پیچھے چھوڑ کر انڈیا دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن گئی ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کا سربراہی اجلاس جمعے کو ازبکستان کے شہر سمرقند میں اختتام پذیر ہوا۔ اس اجلاس میں انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے بھی شرکت کی۔ اس دوران وزیر اعظم مودی نے روسی صدر ولادیمیر پوتن سے ملاقات بھی کی۔
ایس سی او انڈیا کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اگلے سال انڈیا کو ایس سی او کی صدارت ملنے والی ہے اور اس نسبت سے اس کا سربراہی اجلاس بھی انڈیا میں ہی منعقد ہونے والا ہے۔
انڈیا کی صدارت کے بارے میں چین کا بیان آیا ہے اور اس نے اس کی حمایت کی ہے۔ چینی صدر شی جن پنگ نے بھی شنگھائی تعاون تنظیم میں شرکت کی لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ انڈین وزیر اعظم اور چینی صدر کے درمیان کوئی باضابطہ ملاقات بھی ہوئی ہو۔
تاہم چینی صدر شی جن پنگ نے کہا ہے کہ وہ ایس سی او کی صدارت کے لیے انڈیا کی حمایت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ شی جن پنگ نے اپنی تقریر میں زور دیا کہ عالمی رہنماؤں کو ‘بین الاقوامی نظام کے مطابق ترقی کو فروغ دینے کے لیے منطقی سمت میں مل کر کام کرنا چاہیے۔’ان کے علاوہ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے بھی انڈیا کو ایس سی او کی صدارت کے لیے مبارکباد دی ہے۔
بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ دنیا میں سفارت کاری کی سطح پر انڈیا کا قد بڑھتا نظر آ رہا ہے۔ انڈیا جہاں اگلے سال شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کی میزبانی کرنے جا رہا ہے وہیں وہ کئی بین الاقوامی تنظیموں اور دھڑوں کی صدارت بھی کرے گا۔
کیا ذمہ داریاں مل رہی ہیں؟
ایس سی او کے علاوہ انڈیا کو رواں سال دنیا کے 20 طاقتور ممالک کے G-20 گروپ کی صدارت کا عہدہ بھی ملنے والا ہے۔ اس کا سربراہی اجلاس اگلے سال انڈیا میں ہو رہا ہے۔ اسے سفارت کاری کے میدان میں ایک اہم پیش رفت کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔
انڈیا یکم دسمبر سنہ 2022 کو دنیا کی 20 بڑی معیشتوں کے اس گروپ کی سربراہی کرے گا، جو آئندہ سال 30 نومبر تک اس کے پاس رہے گی۔ اگر کوئی ملک G-20 کی صدارت کر رہا ہے تو اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی ملک کو بطور مہمان اس میں شرکت کی اجازت دے۔
انڈیا کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ انڈیا جی-20 کے اجلاس میں بنگلہ دیش، مصر، ماریشس، نیدرلینڈز، نائجیریا، عمان، سنگاپور، سپین اور متحدہ عرب امارات کو مہمان ممالک کے طور پر مدعو کرے گا۔
اگر دنیا کے نقشے پر ان ممالک کی جغرافیائی موجودگی کو دیکھا جائے تو انڈیا نے یہ فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے۔ بنگلہ دیش اگر انڈیا کا پڑوسی ملک ہے لیکن اس فہرست میں عرب، یورپ، افریقہ اور مشرقی ایشیا کے ممالک بھی شامل ہیں۔ایس سی او اور جی-20 کے علاوہ انڈیا کی اقوام متحدہ میں موجودگی بھی اہم ہو گی۔
اقوام متحدہ ایک معروف نام اور عالمی ادارہ ہے اور ہر ملک سلامتی کونسل کی طاقت کو بخوبی سمجھتا ہے۔ انڈیا کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کی چیئرمین شپ بھی ملنے جا رہی ہے۔
یہ ذمہ داری رواں سال کے آخر میں انڈیا کو دی جا رہی ہے۔ انڈیا دسمبر سنہ 2022 میں سلامتی کونسل کی صدارت کی ذمہ داری سنبھالے گا۔واضح رہے کہ انڈیا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن ہے۔
کیا چین، سعودی عرب اور ترکی، انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں جی 20 سربراہی اجلاس پر اعتراض کر سکتے ہیں؟
اس کے علاوہ دنیا کے سات طاقتور ممالک کی تنظیم جی-سیون میں انڈیا کو شامل کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں، لیکن فی الحال اسے کوئی بڑی کامیابی ملتی نظر نہیں آ رہی۔ لیکن رواں سال انڈیا نے اس تنظیم میں اپنی اہم موجودگی درج کرائی ہے۔
رواں سال جون میں جرمنی میں منعقدہ جی-سیون کے سربراہی اجلاس میں انڈیا نے مہمان ملک کا کردار ادا کیا تھا۔ جرمنی نے جی -سیون کے اجلاس میں انڈیا کو مہمان ملک کے طور پر مدعو کیا تھا۔
عالمی سفارت کاری میں انڈیا کا کردار
کئی بین الاقوامی اداروں میں انڈیا کی صدارت حاصل کرنے کو ایک بڑی سفارتی فتح کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ انڈیا اس کے ذریعے دنیا پر ایک بڑا سفارتی نشان قائم کرے گا۔
خبر رساں ایجنسی اے این آئی کے مطابق سابق سکریٹری خارجہ ہرش وردھن شرنگلا نے کہا تھا کہ گذشتہ چند برسوں میں دنیا میں انڈیا کا کردار بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہوا ہے اور ایس سی او، جی 20 اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی صدارت حاصل کرنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ انڈیا مستقبل میں کس طرح کا کردار ادا کرنے جا رہا ہے؟
شرنگلا نے انڈیا کے عالمی سطح پر بڑھتے ہوئے کردار کی کئی وجوہات بتائی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انڈیا میں 150 ارب ڈالر کی ریکارڈ ایف ڈی آئی ہوئی ہے، ملک کی 60 فیصد آبادی نوجوان ہے، زرمبادلہ کے ذخائر 600 بلین ڈالر تک پہنچ چکے ہیں اور مالی سال میں ترقی کی شرح کا تخمینہ نو فیصد تک ہے، جس کی وجہ سے انڈیا مسلسل ترقی کرتا چلا جا رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’انڈیا کو اس سال کے آخر میں جی 20 کی صدارت ملے گی۔ جی 20 ممالک دنیا کی جی ڈی پی کا 80 فیصد ہے، جبکہ یہ ممالک بین الاقوامی تجارت کے 75 فیصد اور آبادی کے 60 فیصد کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ اہم سماجی، اقتصادی اور عصری مسائل پر عالمی گفتگو کو تشکیل دیتے ہیں۔ انڈیا کو سال کے آخر میں جی 20، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور ایس سی او کی صدارت ملنے والی ہے جو اس بات کا اشارہ ہے کہ انڈیا مستقبل میں کیا کردار ادا کرے گا۔‘
انڈیا میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عبدالباسط کا بھی ماننا ہے کہ انڈیا کی سفارتی طاقت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ انڈیا کو خود کو ترقی یافتہ ملک قرار دینے میں کئی دہائیاں درکار ہوں گی کیونکہ انڈیا میں کروڑوں لوگ اب بھی غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔
عبدالباسط نے اپنی یوٹیوب ویڈیو میں انڈیا کے پانچویں سب سے بڑی معیشت بننے کا بھی ذکر کیا۔ غور طلب ہے کہ ستمبر کے آغاز میں برطانیہ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے انڈیا مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کے لحاظ سے دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن گیا۔
بلومبرگ کے اعداد و شمار میں بتایا گیا تھا کہ مارچ سنہ 2022 کے آخر میں انڈیا نے برطانیہ کو پیچھے چھوڑ دیا۔ بلومبرگ نے یہ نتیجہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے ڈیٹا کی بنیاد پر نکالا ہے۔
بلومبرگ کے مطابق انڈیا کی معیشت رواں سال مارچ کے آخر میں 854.7 بلین ڈالر کی تھی جبکہ برطانیہ کی معیشت 816 بلین ڈالر تھی۔انڈیا میں ایک بڑی آبادی ابھی بھی خط افلاس سے نيچے زندگی بسر کر رہی ہے
پاکستان کے سابق ہائی کمشنر نے مزید کیا کہا؟
عبدالباسط نے اپنی یوٹیوب ویڈیو میں کہا کہ پانچویں بڑی معیشت بننا اور عالمی اداروں میں جگہ حاصل کرنا انڈیا کی طاقت کو ظاہر کرتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ‘میں آنے والے مہینوں اور برسوں میں دیکھ رہا ہوں کہ اس طاقت کی وجہ سے انڈیا کا بین الاقوامی قد بڑھے گا، اگر انڈیا کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک ماہ کی صدارت ملنے والی ہے، تو ہمیں (پاکستان) اس بات کو قریب سے دیکھنا ہوگا کہ انڈیا اس ایک مہینے میں کیا کرے گا؟
‘اس کے بعد، یو این ایس سی کی انڈیا کی دو سالہ عارضی رکنیت بھی ختم ہو جائے گی۔ امکان ہے کہ انڈیا کلبھوشن جادھو کے حوالے سے کوئی نہ کوئی چیز وہاں لے جائے گا۔ انڈیا کو رواں سال جی 20 کی چیئرمین شپ بھی ملنے والی ہے۔`
عبدالباسط کا کہنا ہے کہ G-20 ایک بہت اہم تنظیم ہے، جس کا اجلاس اگلے سال انڈیا میں ہو گا۔ اور اس کا مطلب ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن اور چینی صدر شی جن پنگ سمیت دنیا کے کئی بڑے ممالک کے سربراہان انڈیا میں ہوں گے۔ . اس کے ساتھ ہی ایس سی او کا اجلاس بھی اگلے سال انڈیا میں ہونے جا رہا ہے۔
انڈیا کے پاس اب ایسی بہت سی جگہیں ہیں جہاں وہ خود کو اس طرح سے کھڑا کر رہا ہے کہ اب اس کا علاقائی کے ساتھ اور عالمی کردار بھی ہے۔ جی 20 کے سلسلے میں انڈیا بھر میں تقریباً 200 میٹنگز ہوں گی، جن میں سے کچھ مشاورتی اجلاس جموں و کشمیر میں بھی ہو سکتی ہیں۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ وہاں کون سے اجلاس ہونے جا رہے ہیں اور کون سے ممالک وہاں جا رہے ہیں۔
اس کے علاوہ عبدالباسط نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ کسی وقت بھی انڈیا کو جی سیون کی رکنیت کے لیے مدعو کیا جا سکتا ہے اور اس کے بعد یہ تنظیم جی ایٹ بن جائے گی، اس بار اس میں روس نہیں بلکہ انڈیا ہوگا کیونکہ وہ دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے۔بشکریہ بی بی سی