حکومت پاکستان اور پنجاب کی صوبائی حکومت ان دنوں ایک پولیس افسر کے تبادلے کے حوالے سے ایک دوسرے سے پنجہ آزامائی میں مصروف ہیں۔ وفاقی حکومت نے منگل کی شب کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر (سی سی پی او) لاہور غلام محمود ڈوگر کی خدمات ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے واپس لے لی تھیں تاہم وزیراعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے سی سی پی او لاہور کو چارج چھوڑنے سے روک دیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ وزیراعلٰی پنجاب نے ایک پریس ریلیز کے ذریعے وفاقی حکومت پر انتقامی کارروائی کا الزام بھی عائد کیا ہے۔
ایک آفیسر کے تبادلے کے معاملے پر وفاق اور پنجاب کے درمیان بدھ کو صورت حال اور بھی بگڑ گئی جب چوہدری پرویز الٰہی نے سی سی پی او غلام محمود ڈوگر کو اپنے دفتر بلایا اور ان کو ’ڈٹ‘ جانے پر شاباش دیتے ہوئے اس کی ویڈیو بھی جاری کی۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سی سی پی او لاہور جھُک کر وزیراعلیٰ سے گلے مل رہے ہیں اور سابق وفاقی وزیر مونس الٰہی بھی ساتھ کھڑے ہیں جبکہ تینوں کے چہروں پر مسکراہٹ ہے۔
قانونی طور پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پولیس چیف وفاقی حکومت کے تبادلے کے احکامات کو نظر انداز کر کے اپنا کام جاری رکھ سکتے ہیں؟ سروسز معاملات پر نظر رکھنے والے قانون دان شہزاد شوکت نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے بتایا کہ ’اگر کوئی وفاقی افسر وفاقی حکومت کے احکامات کی حکم عدولی کرتا ہے تو حکومت اس کے خلاف تادیبی کارروائی کا اختیار رکھتی ہے۔‘ انہوں نے بتایا کہ ’سی سی پی او لاہور بنیادی طور پر پولیس سروسز پاکستان یعنی پی ایس پی کے گروپ میں سے ہیں۔
انہوں نے افسر کی حیثیت سے نوکری حکومت پاکستان کے ملازم کی حیثیت سے شروع کی تھی۔ تو حکومت پاکستان اپنے ماتحت افسر کو کسی بھی وقت کہیں بھی تعینات یا تبادلہ کر سکتی ہے۔‘ قانون دان شہزاد شوکت نے مزید کہا کہ ’اگر کسی افسر کی خدمات کسی صوبے کے سپرد کی گئی ہیں تو حکومت وہ بھی واپس لے سکتی ہے۔ کسی افسر کے پاس چارہ نہیں کہ وہ اس سے روگردانی کرے۔ یہ سب سروسز رولز میں لکھا ہے۔ میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہہ رہا۔‘ خیال رہے کہ غلام محمود ڈوگر اکیسویں گریڈ کے آفیسر ہیں اور ان کا رینک ڈی آئی جی کا ہے۔ اگلے سال مارچ کے مہینے میں وہ ریٹائر ہو رہے ہیں اور ان کی سروس کے یہ آخری چھ ماہ ہیں۔
مشیر اطلاعات پنجاب عمر چیمہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’پوری حکومت سی سی پی او لاہور کے پیچھے کھڑی ہے۔ اور ان کی خدمات تب تک پنجاب حکومت کے پاس رہیں گی جب تک وزیر اعلٰی نہیں چاہیں گے۔ اس وقت ن لیگ کو اس بات کی تکلیف ہے کہ ایک ایماندار افسر کیوں لاہور میں تعینات کیا گیا ہے۔‘ دوسری طرف وفاقی حکومت کے وزیر مملکت برائے داخلہ عطااللہ تارڑ نے اس معاملے پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’قانونی طور پر سی سی پی او لاہور کی خدمات وفاق نے واپس لے لی ہیں۔ وہ وفاق کے ملازم ہیں۔
اگر وہ سروس ہدایات پر عمل نہیں کریں گے تو ظاہر ہے وہ خود ہی بات کے لیے جواب دہ ہوں گے۔ تحریک انصاف ایک سرٹیفائیڈ قانون شکن جماعت ہے اور پولیس کو بھی سیاسی بنانا چاہ رہے ہیں اور ان کی یہ کوشش کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دی جائے گی۔‘ عام طور پر پاکستان کے چاروں صوبوں میں ڈی ایم جی گروپ یا پی ایس پی گروپ کے افسران صوبوں کی ڈیمانڈ پر یا پھر وفاقی حکومت کی منشا سے ان کی خدمات صوبوں کے سپرد کی جاتی ہیں۔ التبہ صوبے کے پولیس چیف کی تعیناتی کے لیے صوبائی حکومت کے ساتھ مشاورت کی جاتی ہے۔ صوبے کا وزیر اعلٰی تین افسران کے نام وفاق کو بھیجتا ہے .
جن میں سے کسی ایک کی تعیناتی کر دی جاتی ہے۔ ملک میں اس سے پہلے کسی بڑے افسر کی تعیناتی پر جھگڑا 2016 میں اس وقت سامنے آیا تھا جب پیپلز پارٹی کی حکومت نے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو ہٹانے کے لیے وفاق کو لکھا تھا تاہم مسلم لیگ ن کی حکومت نے آئی جی کو ہٹانے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کے بعد سندھ حکومت نے آئی جی کو 15 دن کی جبری رخصت پر بھیج دیا گیا تھا جس کے بعد معاملہ عدالت تک پہنچا تھا۔