(تحریر: سید رحیم نعمتی)
گذشتہ ہفتے سعودی عرب کے فرمانروا ملک سلمان بن عبدالعزیز نے بعض اہم عہدوں پر فائز افراد کے عہدوں میں ردوبدل کے احکام جاری کئے ہیں۔ ان میں سرفہرست شہزادہ محمد بن سلمان ہیں جو پہلے صرف ولیعہد تھے لیکن اب ولیعہد ہونے کے ساتھ ساتھ وزراء کونسل کے سربراہ یا دوسرے الفاظ میں وزیراعظم کے عہدے پر بھی فائز کر دیے گئے ہیں۔ اسی طرح سعودی فرمانروا نے اپنے دوسرے بیٹے شہزادہ خالد بن سلمان کو سلطنتی وزیر دفاع کے عہدے پر مقرر کر دیا ہے۔ دوسرے اہم عہدے جیسے وزارت خارجہ، وزارت انرجی اور وزارت اقتصاد کسی تبدیلی کے بغیر جوں کی توں باقی ہیں۔ وزارت انرجی کا قلمدان بھی ملک سلمان بن عبدالعزیز کے تیسرے بیٹے شہزادہ عبدالعزیز بن سلمان کے ہاتھ میں ہے۔
اگرچہ ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کو وزراء کونسل کا سربراہ مقرر کئے جانے کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ان کیلئے بادشاہت تک پہنچنے کا راستہ ہموار کیا گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان پہلے سے ہی تمام حکومتی امور اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے تھے لہذا انہیں اپنی طاقت اور اثرورسوخ بروئے کار لانے کیلئے وزیراعظم یا وزراء کونسل کی سربراہی جیسے عہدے کی ضرورت نہیں تھی۔ لہذا فرانس کے خبررساں ادارے نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان کیلئے وزیراعظم جیسا نیا عہدہ متعارف کرنے کی زیادہ اہمیت عالمی سطح پر ہے اور ملک کے اندر اس نئے عہدے کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی سطح پر بعض ایسے ایشوز پائے جاتے ہیں جن پر اثرانداز ہونے کیلئے یہ سیاسی اقدام انجام پایا ہے۔
اس وقت امریکہ میں سعودی ولیعہد شہزادہ محمد سلمان کے خلاف کئی عدالتی کیس چل رہے ہیں جن میں سارا لی وٹسن یا غادہ اویس سے متعلق کیسز قابل ذکر ہیں۔ ان کیسز سے بچنے کیلئے شہزادہ محمد بن سلمان کے پاس ایک ہی راستہ ہے اور وہ سیاسی تحفظ حاصل ہونا ہے۔ فرانس کے خبررساں ادارے نے اپنی رپورٹ میں ایک امریکی جج کی جانب اشارہ کیا ہے جس نے امریکی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شہزادہ محمد بن سلمان کو حاصل سیاسی تحفظ کی صورتحال واضح کرے۔ اس کام کیلئے امریکی حکومت کو اگلے ہفتے پیر کے دن تک مہلت دی گئی ہے۔ لہذا یوں محسوس ہوتا ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان کو وزیراعظم کا عہدہ دے کر جو بائیڈن کی سربراہی میں امریکی حکومت پر دباو ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔
سعودی فرمانروا اپنے ولیعہد بیٹے شہزادہ محمد بن سلمان کو وزیراعظم کا عہدہ دے کر امریکی حکومت سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ محمد بن سلمان کو سیاسی تحفظ کا حامل قرار دے گی۔ دوسری طرف شہزادہ محمد بن سلمان کے چھوٹے بھائی شہزادہ خالد بن سلمان کو وزارت دفاع کا قلمدان عطا کرنا سعودی سلطنتی خاندان میں رونما ہونے والی کچھ تبدیلیوں کو ظاہر کرتا ہے۔ البتہ یہ تبدیلیاں بھی براہ راست شہزادہ محمد بن سلمان سے مربوط ہیں۔ ہمیں اس بات پر توجہ رکھنی چاہئے کہ یمن کے خلاف جنگ کا آغاز کرنے والے شہزادہ محمد بن سلمان ہیں۔ وہ ایسے حالات میں وزارت دفاع کا قلمدان اپنے چھوٹے بھائی کے سپرد کر رہے ہیں جب یمن جنگ کی صورتحال انتہائی مبہم ہے اور جنگ بندی میں محض دو ماہ کیلئے توسیع کی گئی ہے۔
لہذا یمن جنگ کی صورتحال ایسی ہے کہ نہ اسے جنگ کی حالت قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی صلح کہا جا سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شہزادہ خالد بن سلمان یمن جنگ کے مسئلے میں نہ صرف اپنے بڑے بھائی شہزادہ محمد بن سلمان سے مشورہ کریں گے بلکہ ان کے حکم کی تعمیل کریں گے۔ لیکن عہدے میں تبدیلی کا اہم ترین نتیجہ یہ نکلے گا کہ یمن جنگ کی ذمہ داری کم از کم ظاہری طور پر شہزادہ محمد بن سلمان کے کاندھوں سے اتر جائے گی لہذا وہ اپنا دامن اس مشکل مسئلے سے چھڑا پائیں گے جس کا آغاز خود انہوں نے ہی سات سال پہلے کیا تھا۔ پس سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کو وزراء کونسل کی سربراہی یا وزیراعظم کا عہدہ عطا ہونا ان کیلئے ترقی قرار نہیں دیا جا سکتا اور اس اقدام سے ان کی طاقت اور اثرورسوخ میں کوئی اضافہ نہیں ہو گا۔
بین الاقوامی سطح، خاص طور پر امریکہ میں شہزادہ محمد بن سلمان کا امیج بہتر بنانا، آل سعود رژیم کی پہلی ترجیح ہے لہذا سعودی فرمانروا نے انہیں وزیراعظم کا عہدہ سونپ کر یہ مقصد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ دوسری طرف اندرونی سطح پر بھی یمن جنگ جیسے سنگین مسئلے کا وزن ان کے کاندھوں سے اٹھا لیا گیا ہے۔ اب آگے یمن جنگ جو بھی رخ اختیار کرے گی اس کا ذمہ دار محمد بن سلمان کو نہیں بلکہ ان کے بھائی خالد بن سلمان کو ٹھہرایا جائے گا۔ عالمی سطح پر اس سیاسی ردوبدل کا فائدہ اسی وقت واضح ہو سکتا ہے جب امریکی حکومت شہزادہ محمد بن سلمان کے سیاسی تحفظ کے بارے میں اپنی حتمی رائے کا اظہار کرے گی۔ مزید برآں، فرانس سمیت دیگر مغربی ممالک میں بھی سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کے خلاف عدالتی مقدمات پائے جاتے ہیں جن پر اس تبدیلی کے اثرانداز ہونے کی بہت کم امید پائی جاتی ہے۔بشکریہ اسلام ٹائمز
نوٹ:سی این آئی کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔