Breaking News
Home / کالمز / امریکہ تیل کے کھیل میں پیچھے، کیا سعودی عرب اس محاذ پر روس کے ساتھ ہے؟

امریکہ تیل کے کھیل میں پیچھے، کیا سعودی عرب اس محاذ پر روس کے ساتھ ہے؟

دنیا کے تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک پلس نے بدھ کے روز تیل کی پیدوار میں یومیہ 20 لاکھ بیرل کمی کا اعلان کیا ہے۔ویانا میں اوپیک پلس کے مرکزی دفتری میں صرف آدھ گھنٹہ جاری رہنے والی میٹنگ میں فیصلہ ہوا کہ تیل کی پیداوار میں روزانہ 20 لاکھ بیرل کی کمی کی جائے گی۔

اوپیک کا کہنا ہے کہ خام تیل کی پیدوار میں کمی کا فیصلہ تیل کی قیمت کو مستحکم رکھنے کی غرض سے اٹھایا گیا ہے کیونکہ حالیہ مہینوں میں عالمی کساد بازاری کا خطرہ مزید گہرا ہوا ہے اور تیل کی قیمت میں کمی واقع ہوئی ہے۔

سنہ 2020 کے بعد اوپیک اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے خام تیل کی پیداوار میں یومیہ بنیادوں پر یہ سب سے بڑی کٹوتی ہے۔

ظاہر ہے کہ جب مارکیٹ میں خام تیل کی پیداوار کم ہو گی تو دنیا میں اس قلت ہو گی اور پھر قیمت بھی بڑھے گی۔ یعنی آنے والے دنوں میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کا امکان ہے۔

امریکی کوششیں ناکام
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اوپیک کے اس اعلان کو صرف خام تیل کی قیمتوں میں اُتار چڑھاؤ کے تناظر میں نہیں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کو عالمی سیاست کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس فیصلے کی بنیادی وجہ عالمی سیاست ہی ہے۔

اس فیصلے سے امریکی صدر جو بائیڈن کو بھی دھچکا لگا ہے جو کئی ماہ سے تیل کی قیمتیں کم کروانے کی کوششیں کر رہے تھے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ خلیجی ممالک بالخصوص سعودی عرب کے ساتھ بائیڈن انتظامیہ کی سفارتکاری کس طرح ناکام ہو رہی ہے۔

اوپیک پلس کا یہ فیصلہ اس لیے بھی اہم ہے کہ روس یوکرین جنگ میں توانائی یعنی تیل اور گیس کا ایک اہم کردار بتایا جا رہا ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بائیڈن کو اپنی خارجہ اور اقتصادی پالیسی کے محاذ پر کس قدر مشکلات کا سامنا ہے۔

جو بائیڈن نے تین ماہ قبل جولائی میں سعودی عرب کا دورہ کیا تھا اور اس دورے کا بنیادی مقصد سعودی عرب کو تیل کی پیداوار بڑھانے پر آمادہ کرنا تھا۔

بائیڈن نے سعودی عرب سے پیداوار بڑھانے کو کہا تھا لیکن سعودی قیادت میں چلنے والی تنظیم اوپیک کے حالیہ فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بائیڈن کے دورے کا سعودی عرب پر کوئی اثر نہیں ہوا۔

بی بی سی کے مشرق وسطیٰ کے کاروباری نامہ نگار سمیر ہاشمی کا کہنا ہے کہ ’جو بائیڈن نے سعودی شہزادے سے تیل کی پیداوار بڑھانے کے لیے کہا۔ لیکن اوپیک کا نیا فیصلہ امریکہ کی توقع کے بالکل برعکس ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس اقدام سے دنیا میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔ یہ مغربی ممالک کی ان تمام کوششوں کے لیے بھی دھچکا ہے، جن کے تحت وہ روس کی تیل کی آمدن کو کم کرنا چاہتے تھے۔روس اس رقم کو یوکرین کے ساتھ جنگ ​​لڑنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔‘

’جہاں تک تیل کی قیمت کا تعلق ہے، پیداوار میں اتنی بڑی کمی کے باوجود، اس کا عالمی سپلائی پر بہت کم اثر پڑے گا کیونکہ اوپیک اور اس کے اتحادی پہلے ہی اپنے مخصوص کوٹے کا تیل پیدا نہیں کر رہے ہیں۔لیکن آنے والے دنوں میں اس فیصلے کا اثر بین الاقوامی مارکیٹ پر ضرور نظر آئے گا۔‘

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اوپیک کے اس اقدام کے امریکہ پر اثرات کے بارے میں ایک تجزیہ شائع کیا ہے۔

اس کے مطابق ویانا میں اوپیک اور اس کے اتحادیوں کا اجلاس سعودی عرب اور روس کی قیادت میں ہوا۔ روس کے نائب وزیر اعظم الیگزینڈر نوواک جس پر امریکہ نے پابندی عائد کر رکھی ہے وہ اس میں سرگرم تھے۔

اوپیک کے اس فیصلے نے ایک تیر سے تین شکار کیے ہیں۔ اس سے امریکہ کی ملکی سیاست، خارجہ اقتصادی پالیسی اور یوکرین کی جنگ متاثر ہو گی۔

چند روز قبل بائیڈن انتظامیہ نے تیل کی پیداوار میں دو ملین بیرل کمی کے اوپیک کے فیصلے کو رکوانے کی کوشش کی تھی۔ گذشتہ کئی ماہ سے بائیڈن عالمی منڈی میں تیل کی پیداوار بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

جولائی میں صدر جو بائیڈن کے سعودی دورے کے بعد یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ سعودی عرب اپنی پیداوار میں یومیہ 750,000 بیرل اضافہ کرے گا۔ سعودی عرب نے جولائی اور اگست میں بھی تیل کی پیداوار میں اضافہ کیا بھی تھا لیکن اب وہ اس سے پیچھے ہٹ گیا ہے۔

سعودی عرب کا کہنا ہے کہ عالمی کساد بازاری کے خدشات تیل کی قیمتوں میں کمی کر رہے تھے جس کے باعث کچھ عرصے میں خام تیل کی قیمت 120 ڈالر فی بیرل سے گر کر 80 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی۔ جس کی وجہ سے تیل پیدا کرنے والے ممالک کو مالی طور پر نقصان اٹھانا پڑا، اس لیے سعودی عرب کو یہ فیصلہ کرنا پڑا۔

پیداوار میں کمی کے باعث عالمی منڈی میں تیل کی دستیابی میں دو فیصد کمی ہو گی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس فیصلے سے پمپ تک پہنچنے والے تیل کی قیمت 15 سے 30 فیصد تک بڑھ سکتی ہے۔

بائیڈن کی مشکلات
امریکی تھنک ٹینک کارنیگی اینڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس نے رواں سال اگست میں ایک تجزیہ شائع کیا تھا جس میں جو بائیڈن کے سعودی دورے کی اہمیت اور مجبوری پر تفصیل سے بات کی گئی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ جب امریکہ نے روس پر پابندیاں عائد کیں تو خلیجی ممالک کی اہمیت مزید بڑھ گئی۔ امریکہ کی طرف سے روس پر توانائی کی پابندیوں نے امریکہ اور یورپ میں گیس اور تیل کی قیمتوں کو آگ لگا دی ہے۔

اس سے امریکہ میں صدر جو بائیڈن کی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ نومبر میں ہونے والے وسط مدتی انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے اور ڈیموکریٹس کو امریکی کانگریس میں اکثریت حاصل کرنا مشکل ہو جائے۔

پچھلے چند مہینوں میں، بائیڈن نے وینزویلا سے رابطہ کیا، سعودی عرب کا دورہ کیا اور تیل کے متبادل کی تلاش میں ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کی۔

ولی عہد پر الزام ہے کہ انھوں نے 2018 میں واشنگٹن پوسٹ کے صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی منصوبہ بندی کی تھی، اس لیے بائیڈن کی ولی عہد سے ملاقات کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

بائیڈن نے متحدہ عرب امارات کے صدر محمد بن زاید سے بھی تیل کی پیداوار بڑھانے کے حوالے سے بات کی لیکن امریکہ کو کسی طرف سے کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔

اس طرح بائیڈن اپنے ملک میں تیل کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں ناکام ثابت ہو رہے ہیں۔

اوپیک کے اس اقدام کے بعد وائٹ ہاؤس نے بدھ کو کہا کہ صدر جو بائیڈن نے اپنی انتظامیہ اور کانگریس سے کہا ہے کہ وہ توانائی کی پیداوار کو بڑھانے اور قیمتوں پر اوپیک کے کنٹرول کو کم کرنے کے طریقوں پر غور کریں۔

امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے کہا کہ صدر ’اوپیک پلس کے پیداوار میں کمی کے فیصلے سے مایوس ہوئے، کیونکہ عالمی معیشت یوکرین پر پوتن کے حملے کے منفی اثرات سے دوچار ہے۔‘

الجزیرہ نے مشہور مارکیٹ فرم جے پی مورگن چیز کے حوالے سے کہا کہ امریکہ تیل کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے نو پیک یعنی نو آل پروڈیوسنگ اینڈ ایکسپورٹنگ کارٹل کے ذریعے تیل کی بلند قیمتوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔

کیا سعودی عرب روس کے ساتھ کھڑا ہے؟
نیویارک ٹائمز لکھتا ہے کہ ویانا میں اوپیک کے اجلاس میں جو کچھ ہوا اس سے اس سوال کا جواب بھی مل گیا ہے کہ یوکرین روس جنگ میں عرب ممالک کہاں کھڑے ہیں؟

روس نے نہ صرف اوپیک پلس اجلاس میں شرکت کی بلکہ وہ اجلاس کی قیادت کرنے والے ممالک میں سے ایک تھا۔ روس کی ایران سے قربت ڈھکی چھپی نہیں۔ ایران اوپیک کا رکن ہے، حال ہی میں ایران نے روس کو بھی ڈرون فروخت کیے ہیں اور یہ ڈرون یوکرین کی جنگ میں استعمال ہو رہے ہیں۔.

روس کے نائب وزیر اعظم الیگزینڈر نوواک تیل پیدا کرنے والے ممالک کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں اور امریکہ روس کی تیل کی کمائی کو روکنے کی مسلسل کوشش کر رہا ہے۔

اوپیک کے تازہ ترین فیصلے سے پتہ چلتا ہے کہ روس کے لیے تیل کی قیمتوں کو محدود کرنے کی کوششوں میں امریکہ کو نقصان ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔اوپیک کے اس فیصلے سے روس کو تیل کی مزید قیمتیں ملیں گی۔بشکریہ بی بی سی

نوٹ:سی این آئی تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Check Also

حزب اللہ کے نصراللہ اسرائیل کے خلاف کب تک اپنے آپ کو روکے رکھیں گے؟

(شہاب الدین صدیقی) غزہ پر اسرائیلی حملے کے پہلے چار ہفتوں تک سید حسن نصراللہ …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے