سوئٹزرلینڈ کی حکومت نے چہرے کے حجاب پر عائد پابندی پر سختی سے عمل درآمد کی خلاف ورزی کرنے والوں پر ایک ہزار سوئس فرانک (ایک ہزار 5 ڈالر) جرمانے کا بل پارلیمنٹ کو بھیج دیا۔ خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق کابینہ کی جانب سے برقعے پر پابندی کی خلاف ورزی کرنے والوں پر جرمانے کی تجویز کابینہ نے بھیجی ہے تاہم براہ راست اسلام کا نام نہیں لیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس تجویز کا ایک مقصد ماسک پہنے افراد کو پرتشدد احتجاج سے روکنا ہے تاہم مقامی سیاست دانوں، میڈیا اور کارکنان نے اس اقدام کو برقعے پر پابندی سے متعلق تعبیر کیا۔کابینہ نے مشاورت کے بعد اس تجویز کو مجرمانہ فعل سے جوڑنے اور 10 ہزار فرینکس تک جرمانے کی سفارش کی۔ بیان میں کہا گیا کہ چہرہ چھپانے پر پابندی کا مقصد عوام کی سلامتی اور امن و امان یقینی بنانا ہے اور سزا دینا ترجیح نہیں ہے۔ رپورٹ کے مطابق قانونی ڈرافٹ میں قانون سے استثنیٰ بھی دے دیا گیا ہے۔ سوئٹزرلینڈ کی حکومت نے جہاز میں سفر کے دوران، سفارتی اور عبادت کے مقامات میں استثنیٰ دینے کی تجویز دی ہے، اسی طرح صحت، سلامتی، موسمی صورت حال اور مقامی رسوم کے تحت چہرہ ڈھانپنا بدستور قابل عمل ہوگا۔ ڈرافٹ میں اپنےفن کے مظاہرے اور اشتہارات کے لیے فن کاروں کو بھی اس پابندی سے استثنیٰ دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ کسی شہری کو اظہار رائے اور اجتماع کا حق استعمال کرتے ہوئے ماسک پہننا ضروری ہوا تو حکام کی منظوری سے اجازت ہوگی اور امن و امان یقینی بنایا جائے گا۔یاد رہے کہ سوئٹزرلینڈ میں چہرے کے نقاب پر پابندی گزشتہ برس بائیں بازو کی تنظیم کی تجویز پر عائد کی گئی تھی اور اس کے لیے ریفرنڈم کیا گیا تھا جبکہ اس سے قبل اسی گروپ نے 2009 میں میناروں پر پابندی کی مہم شروع کی تھی۔ پابندی کی تجویز دینے والے افراد نے چہرے کے نقاب کو انتہاپسندی اور سیاسی اسلام کا نشان قرار دیا تھا جبکہ مسلمان تنظیموں نے اس کی مذمت کرتےہوئے اس حوالے سے ووٹنگ کو امتیازی سلوک سے تعبیر کیا تھا اور قانونی کارروائی پر زور دیا تھا۔
اس سے قبل عوامی مقامات پر چہرے کے نقاب پر فرانس میں 2011 میں پابندی لگائی گئی تھی، ڈنمارک، آسٹریا، نیدرلینڈز اور بلغاریہ میں عوامی مقامات میں نقاب پر مکمل یا جزوی پابندی ہے۔ سوئٹزرلینڈ میں مسلمانوں کی تعداد ملک کی مجموعی آبادی کا تقریباً 5 فیصد ہے، جن میں سے اکثر کی جڑیں ترک، بوسنیا اور کوسوو سے ملتی ہیں۔ سوئٹزرلینڈ کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت سوئس پیپلز پارٹی (ایس وی پی) اس مہم کا حصہ تھی جو چاہتی تھی کہ ملک میں عوامی مقامات پر نقاب کرنے پر پابندی عائد کی جائے۔ ایس وی پی سے تعلق رکھنے والے رکنِ پارلیمنٹ اور ریفرنڈم کمیٹی کے چیئرمین والٹر ووبمین نے کہا تھا کہ ‘سوئٹزرلینڈ میں، ہماری روایت ہے کہ آپ اپنا چہرہ دکھائیں، یہ بنیادی آزادی کی علامت ہے’۔