چین کے صدر شی جن پنگ نے پارٹی میٹنگ کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ تائیوان کے تنازع کا حل چینی عوام پر منحصر ہے اور چین اس کے پرامن حل کے لیے کوششیں جاری رکھے گا لیکن طاقت کے استعمال کے حق سے کبھی دستبردار نہیں ہوگا۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کی خبر کے مطابق چین تائیوان کو اپنا علاقہ قرار دیتا ہے جب کہ تائیوان کہتا ہے کہ وہ اپنی خودمختاری سے کسی صورت پیچھے نہیں ہٹے گا اور نہ ہی اپنی آزادی اور جمہوریت پر سمجھوتہ کرے گا۔ چین اور تائیوان کے درمیان کشیدگی اگست میں ڈرامائی طور پر اس وقت بڑھ گئی تھی جب چین نے امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی کے دورہ تائیوان کے بعد تائیوان کے قریب جنگی مشقیں شروع کیں،
وہ فوجی مشقیں تاحال جاری ہیں اگرچہ اب ان کی شدت اور رفتار میں کمی آچکی ہے۔ بیجنگ میں حکمران کمیونسٹ پارٹی کی 20ویں پارٹی کانگریس کے افتتاحی خطاب میں شی جن پنگ نے کہا کہ چین نے ہمیشہ تائیوان کے عوام کا احترام کیا، ان کا خیال رکھا اور ان کے مفادات کا تحفظ کیا اور وہ آبنائے تائیوان میں معاشی اور ثقافتی اقدار کے مزید فروغ اور تبادلے کے لیے پرعزم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تائیوان کے تنازع کو حل کرنا چینی عوام کی اپنی ذمہ داری اور حق ہے اور اس کا فیصلہ چینی عوام خود کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم انتہائی خلوص اور مخلصانہ کوششوں کے ساتھ پرامن دوبارہ متحد و یکجا ہونے کے امکانات کی کوششوں پر اصرار کرتے ہیں لیکن ہم طاقت کا استعمال ترک کرنے کا وعدہ نہیں کریں گے اور تمام ضروری اقدامات کرنے کا اختیار محفوظ رکھیں گے۔ شی جن پنگ نے کہا کہ اس آپشن کو اپنے پاس کھلا رکھنے کا مقصد بیرونی طاقتوں کی ‘مداخلت’ اور تائیوان کی آزادی کے چند حامیوں کے بجائے تائیوان کے عوام کی اکثریت کی جانب سے ہے۔
انہوں نے کہا کہ قومی اتحاد و یکجہتی اور قومی جذبے کی تجدید کا تاریخی پہیہ آگے بڑھ رہا ہے اور مادر وطن کا مکمل اتحاد دوبارہ حاصل کیا جانا چاہیے اور اسے حاصل کیا جانا چاہیے۔ تائیوان کے صدارتی دفتر نے اس بیان پر جزیرے کا سرکاری نام استعمال کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریہ چین ایک خودمختار اور آزاد ملک ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ تائیوان کی پوزیشن مستحکم ہے کہ قومی خودمختاری پر پیچھے نہیں ہٹنا، جمہوریت اور آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا اور جنگ آبنائے تائیوان کے دونوں اطراف کے لیے کسی صورت کوئی آپشن نہیں ہے۔ بیجنگ نے تائیوان کو ‘ایک ملک، دو نظام’ کے تحت خود مختاری کا ماڈل پیش کیا ہے، یہ وہی فارمولہ ہے جو چین ہانگ کانگ کے لیے استعمال کرتا ہے لیکن رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق تائیوان کی تمام مرکزی سیاسی جماعتوں نے اس مجوزہ نظام کو مسترد کردیا ہے اور اسے تقریباً کوئی عوامی حمایت حاصل نہیں ہے۔ تائیوان کا کہنا ہے کہ صرف اس کے اپنے لوگ خود اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکتے ہیں اور بیجنگ کے دعوؤں کی کوئی حیثیت نہیں ہے جب کہ عوامی جمہوریہ چین نے جزیرے کے کسی حصے پر کبھی حکومت نہیں کی