(تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی)
پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے یوم ولادت کے موقع پر، مجریہ، مقننہ اور عدلیہ کے سربراہوں، اعلیٰ سول اور فوجی حکام نیز بین الاقوامی وحدت اسلامی کانفرنس کے شرکاء نے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ حسینیہ امام خمینی میں ہونے والی اس ملاقات میں حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے یہ سوال اٹھایا کہ کیا مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور اس بدلتی ہوئی دنیا میں اعلیٰ مقام کا حصول ممکن ہے؟ آپ نے فرمایا کہ مسلم اقوام کے درمیان اتحاد ممکن ہے، لیکن اس کے لیے دباؤ اور سختیوں کے مقابلے میں عملی اقدامات اور استقامت کی ضرورت ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اتحاد کے حوالے سے سب سے زیادہ امیدیں عالم اسلام کے خواص اور روشن خیال نوجوانوں سے وابستہ ہیں کہ وہ رائے عامہ کی رہنمائی کے میدان میں اپنا کردار ادا کر نے کے لیے آگے آئیں۔ آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے اسلامی جمہوریہ ایران کو اس حوالے سے ایک موثر مثال قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ نوخیز پودا جو امام خمینی (رہ) کی قیادت میں اس وقت کی دو بڑی طاقتوں کے مقابلے میں ڈٹ گیا، آج ایک تناور درخت میں تبدیل ہوچکا ہے اور اسے اکھاڑ پھیکنے کا تصور بھی محال ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہم ڈٹ گئے اور آگے بڑھے، لیکن دوسرے کاموں کی طرح استقامت کی سختیاں بھی اپنی جگہ ہیں، البتہ سرتسلیم خم کر دینے والوں کو بھی سختیاں برداشت کرنا پڑتی ہیں، فرق یہ ہے کہ استقامت ترقی و پیشرفت اور جھک جانا پسماندگی کا باعث بنتا ہے۔ آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے بعض اسلامی ملکوں کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام کو مسلم امہ کے خلاف بڑی غداری قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ہوسکتا ہے کہ بعض لوگ یہ کہیں کہ موجودہ حالات میں اور بعض اسلامی ملکوں کے سربراہوں کی وجہ سے اتحاد ممکن نہیں، لیکن عالم اسلام کے روشن خیال لوگ، علمائے کرام اور دانشور حضرات دشمن کی منشا کے برخلاف ماحول بنا سکتے ہیں اور ایسی صورت میں اتحاد کا قیام آسان ہو جائے گا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے عراق، شام اور افغانستان میں داعش کے جرائم اور خاص طور پر افغانستان میں اسکولی طلبہ کے قتل عام پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ شیعہ اور سنی دونوں میں انتہاء پسند موجود ہیں، جن کا ان مسالک سے کوئی تعلق نہیں اور انہیں بنیاد بنا کر اصل مذہب کو بدنام نہ کیا جائے بلکہ ایک مذہب کی طرفداری کے نام دوسرے مذہب کے ماننے والوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے والوں سے سنجیدگی سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔
آپ نے فلسطین اور عالم اسلام کے دیگر خطوں میں بڑھتی ہوئی سختیوں، دباؤ اور قتل عام کو امت مسلمہ کے درمیان تفریق کا نتیجہ قرار دیا اور مسلمانوں کے درمیان پائے جانے والے اشتراکات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے اتحاد کو عملی جامہ پہنانے کی بھرپور کوشش کی ہے اور فلسطین کے اہلسنت بھائیوں کی دائمی حمایت اس کی کھلی مثال ہے اور یہ حمایت آئندہ بھی پوری قوت کے ساتھ جاری رہے گی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ایران، اسلامی دنیا میں تشکیل پانے والے استقامتی محاذ کی حمایت کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ہمیں خداوند تعالیٰ کے لطف کرم کا یقین ہے اور وحدت اسلامی کی عظیم آرزو کے پورا ہونے کی بھی امید ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے رسول اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یوم ولادت کو انتہائی غیر معمولی اور عظیم ترین دن قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ پیغمبر اکر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی پوری دنیا میں بے مثال اور بے نظیر ہے اور آپ کی زندگی کے مختلف ادوار حتی آپ کی ولادت کے واقعات میں حق تعالیٰ کی عظمت کی نشانیاں موجود ہیں۔
آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ انسان آپ کے یوم ولادت کے دن توحید کے آثار اور اس کی عملی نشانیوں کا مشاہدہ کرسکتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یوم ولادت پر کعبے میں رکھے بت گر جاتے ہیں، مقدس سمجھا جانے والے چشمہ خشک اور آتشکدے کی آگ بجھ جاتی ہے اور طاق کسرا کے کنگرے ٹوٹ جاتے ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یوم ولادت، معمولی دن نہیں، بلکہ انتہائی اہم اور عظیم دن شمار ہوتا ہے۔ آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ اس دن عید منانے کا مطلب صرف اس دن کی یاد اور خوشی منانا نہیں بلکہ اس عید کا مطلب، سبق حاصل کرنا اور آنحضور کی زندگی کو مشعل راہ بنانا ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی کے یہ بیانات اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ آج کے معاشروں میں جو عالمی استکبار کی زد میں ہے، مسلمانوں کی کامیابی اور بلندی کا دارومدار اسلامی یکجہتی اور اتحاد پر توجہ دینے پر ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران ان ممالک میں سے ایک ہے، جو انقلاب اسلامی کی فتح کے بعد استکباری طاقتوں کا نشانہ بنا، لیکن اتحاد و یکجہتی کے سائے میں حاصل ہونے والے اس انقلاب کی فتح نے دنیا میں ایک اسلامی نمونہ پیش کر دیا اور مسلمانوں اور دنیا میں مقتدر اقوام کو دکھایا کہ عالمی استکبار پر بھروسہ کیے بغیر ایک عظیم طاقت بننا ممکن ہے۔ اس نمونے نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ دشمنوں کے شدید ترین سیاسی، اقتصادی اور حتیٰ کہ فوجی دباؤ کے باوجود ایران پیشرفت و ترقی کی راہ پر گامزن ہے، جو کہ بلاشبہ عوام کے اتحاد، مزاحمت اور اسلامی نظام کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ رہبر معظم نے اس بات پر بھی تاکید کی کہ مشترکہ اقدام کا اہم اور بنیادی نکتہ دنیا میں سیاسی نظام کی تبدیلی کے بارے میں مشترکہ فہم تک پہنچنا ہے اور فرمایا: دنیا کا سیاسی نقشہ بدل رہا ہے اور یک قطبی نظام تیزی سے زوال کی طرف بڑھ رہا ہے۔ عالمی استکبار کا غلبہ بھی ماضی کی نسبت ہر روز اپنا جواز کھوتا جا رہا ہے، اس لیے ایک نئی دنیا تشکیل پا رہی ہے اور ایک بہت اہم سوال یہ ہے کہ اس نئی دنیا میں عالم اسلام اور امت اسلامیہ کا مقام کہاں ہے۔؟
کئی سالوں سے عالم اسلام کا اتحاد ان اہم اور بنیادی مسائل میں سے ایک ہے، جس پر رہبر معظم نے ہمیشہ اپنے بیانات اور پیغامات میں زور دیا ہے۔ ایک بار پھر آپ نے علماء، دانشوروں، سیاسی رہنماؤں اور امت اسلامیہ کے ارکان کو نصیحت کرتے ہوئے اس بات پر تاکید کی ہے کہ اس عالمی اتحاد کی تشکیل کی فوری ضرورت ہے۔ اسلامی معاشروں اور ریاستوں کے اس اتحاد کی اس لئے بھی زیادہ اہمیت ہے کہ بین الاقوامی نظام کے حالات بدل رہے ہیں اور انقلاب اسلامی ایران جیسی تحریکوں اور اسلامی بیداری نے معاشروں میں مزاحمتی ثقافت کے پھیلاؤ کو تقویت عطا کی ہے اور اس نے دنیا میں یک قطبی نظام سے کثیر قطبی نظام میں تبدیل ہونے کا عمل فراہم کر دیا ہے۔
ظاہر ہے کہ امت مسلمہ کی ترقی اور فتح کے عوامل میں سے ایک اتحاد ہے اور اسی وجہ سے دشمن اسلامی معاشروں میں تفرقہ پیدا کرکے اور مسلمانوں کے اتحاد کو سبوتاژ کرکے اپنے استعماری مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ دنیا کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان، جن کے پاس بے پناہ قدرتی وسائل بھی ہیں، وہ اتحاد کو برقرار رکھتے ہوئے اور دشمنوں کے خلاف مزاحمت اور ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہوئے نئی اسلامی تہذیب تک پہنچنے کی سمت بڑھ سکتے ہیں۔ اسی لئے تو حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے فرمایا ہے کہ اسلامی اقوام کے درمیان اتحاد ممکن ہے، لیکن اس کے لیے کوشش، عمل اور استقامت کی ضرورت ہے۔ یعنی اس کے لیے دباؤ اور سختیوں کے مقابلے میں عملی اقدامات اور استقامت و مزاحمت کی ضرورت ہے۔بشکریہ اسلام ٹائمز
نوٹ:ادارہ کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔