نیویارک (ویب ڈیسک)امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو محفوظ رکھنے کے پاکستانی عزم پر نہ صرف مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے بلکہ ان ایٹمی اثاثوں کو محفوظ رکھنے کی پاکستانی صلاحیت پر بھی اپنے امریکی اعتماد کا اظہارکیاہے۔
ویک اینڈ تعطیل کے دوران نمائندہ جنگ/ جیوکی جانب سے صدر بائیڈن کے پاکستان اور اس کے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں ریمارکس کے حوالے سے اٹھائے جانے والے متعدد سوالات کے جواب میں انہوں نے واضح الفاظ میں کہاکہ امریکا کو ایٹمی اثاثوں کو محفوظ رکھنے کے پاکستانی عزم اور پاکستان کی صلاحیت پر مکمل اعتماد ہے۔
امریکی ترجمان نے اپنی جوابی ای میل میں اپنے اس مؤقف کا اعادہ بھی کیا کہ صدر بائیڈن ہمیشہ سے محفوظ اور خوشحال پاکستان کو امریکی مفادات کیلئے انتہائی اہم سمجھتے ہیں اور امریکا پاکستان کے ساتھ طویل برسوں سے جاری تعاون کی قدر کرتا ہے۔
گزشتہ دورمیں بھی متعدد بار صدرٹرمپ کے ریمارکس اور اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی میں ٹکراؤ کے واقعات ہوئے، اب بائیڈن بھی اپنی ڈیموکریٹک پارٹی کے ہاتھوں ایسی صورتحال کا شکار ہوتے نظر آئے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے اس وضاحتی مؤقف کے باعث صدر بائیڈن کے اُن سخت ریمارکس کا اثر زائل کرنے میں مدد ملے گی جو صدر بائیڈن نے 13؍اکتوبر کو اپنی تقریر میں پاکستان اور اس کے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں دیئے تھے۔
صدر بائیڈن کے بیان کے بارے میں صدرکے ماتحت محکمہ خارجہ کی جانب سے مختلف مؤقف پرمبنی وضاحتی بیان کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ صدر جوزف بائیڈن نے پاکستان اور اس کے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں اپنی جس تقریر میں ریمارکس دیئے ہیں وہ اجتماع دراصل اُن کی ڈیموکریٹک پارٹی کی کانگریشنل کیمپئن کمیٹی کا اجتماع تھا اس لحاظ سے یہ تقریب امریکی حکومت کی کوئی سرکاری تقریب نہیں تھی اور صدر بائیڈن کی شرکت اور خطاب ڈیموکریٹک پارٹی کی انتخابی کامیابی سے متعلق امور سے تھا جس میں صدر بائیڈن پارٹی لیڈر کے طور پر ایک پرائیوٹ رہائش گاہ پر شرکت کیلئے گئے تھے۔
صدر بائیڈن کی تقریر کا مکمل متن پڑھنے سے بھی یہ بالکل واضح ہے کہ اس اجتماع میں اسپیکر نینسی پلوسی، کانگریس مین اور دیگرڈیموکریٹک پارٹی قائدین شریک تھے اور صدر نے بھی امریکی کانگریس میں ڈیموکریٹک پارٹی کی زیادہ سے زیادہ انتخابی کامیابی کی بات کی تھی لہٰذا سیاسی پارٹی کے اجتماع میں تقریر کو امریکی صدر اور ان کی حکومتی پالیسی کا حصہ قرار نہیں دیا جا سکتا جبکہ امریکی محکمہ خارجہ پنٹاگان اور دیگر محکموں کے ترجمان اسٹیبلشمنٹ یعنی امریکی حکومت کی سرکاری پالیسی کی ترجمانی کرتے ہیں۔
چونکہ ڈیموکریٹک کانگریشنل کیمپئن کمیٹی کا استقبالیہ تھا اور سیاسی پارٹیاں انتخابات کیلئے فنڈ بھی جمع کرتی ہیں لہٰذا امریکا کی دونوں سیاسی جماعتوں میں پارٹی کو فنڈ دینے والوں کا اثرورسوخ پارٹیوں کے فیصلوں پر بھی اثرانداز ہوتا ہے۔ لہٰذا ڈیموکریٹک پارٹی کے قائدین کے اس اجتماع میں چین اور پاکستان مخالف لابی اور یوکرین کی جنگ کے اثرات و مضمرات سے متعلق حلقوں کے اثرورسوخ اور مطالبات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
لہٰذا صدربائیڈن کے اپنی پارٹی کے اجتماع سے خطاب اور خیالات امریکی حکومت کی پالیسی کے ترجمان نہیں تھے اور نہ ہی صدر اورا فواج کے سپریم کمانڈر کی سرکاری حکمت عملی کہا جا سکتا ہے۔ تاہم امریکی صدر کے ان ریمارکس کے اثرات و مضمرات کو نظرانداز بھی نہیں کیا جاسکتا۔
چین، روس اور پاکستان مخالف لابی کے ڈیموکریٹ حلقوں نے اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے اپنی بات کو منوالیا اور امریکی محکمہ خارجہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی کے مطابق نقصان کو کنٹرول کیلئے وضاحتی مؤقف کے ساتھ اپنی پالیسی کا دفاع کر رہا ہے۔
صدر ٹرمپ کے دورمیں بھی متعدد بار صدرٹرمپ کے ریمارکس اور اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی میں ٹکراؤ کے واقعات ہوئے اور اب صدر بائیڈن بھی اپنی ڈیموکریٹک پارٹی کے ہاتھوں ایسی صورتحال کا شکار ہوتے نظر آئے ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا مؤقف صدر بائیڈن کے ریمارکس کے مقابلے میںزیادہ عملی نظر آتاہے۔