Breaking News
Home / Uncategorized / برطانوی حکومت سیاسی بحران کی لپیٹ میں

برطانوی حکومت سیاسی بحران کی لپیٹ میں

(تحریر: حسین فاطمی)

برطانوی وزیراعظم لز ٹیرس اور ان کی کابینہ شدید سیاسی بحران کی لپیٹ میں ہیں۔ ان کی چالیس روزی حکومت کے خلاف اعتراضات اور تنقید اس قدر شدت اختیار کر چکی ہے کہ اس مدت میں ان کی اپنی ہی پارٹی سے تعلق رکھنے والے کم از کم تین اعلی سطحی رہنماوں نے اعلانیہ طور پر ان سے استعفی کا مطالبہ کر دیا ہے۔ رشیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق کرسپین بلانٹ، کنزرویٹو پارٹی کے وہ پہلے قانون دان تھے جنہوں نے لز ٹیرس کے خلاف اعلانیہ طور پر موقف اختیار کرتے ہوئے کہا: "میرا نہیں خیال ٹیرس ملک کو درپیش موجود اقتصادی بحران پر قابو پا سکیں گی۔” ان کے بعد اینڈرو بریجن، کنزرویٹو پارٹی کے وہ وہ دوسرے رکن پارلیمنٹ تھے جنہوں نے برطانوی وزیراعظم سے کھلم کھلا مخالفت کا اظہار کیا۔

اینڈرو بریجن نے اس بات پر زور دیا کہ: "ہمارا ملک، اس کی عوام اور ہماری پارٹی اس سے کہیں زیادہ بہتر شخص کے قابل ہیں۔” ان دو سیاسی رہنماوں کے بعد بریجنڈ اور پورٹ کراول کے علاقوں سے رکن پارلیمنٹ جمی ویلس نے بھی حکومت کی موجودہ صورتحال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لز ٹیرس نے برطانیہ کے اقتصادی اعتبار کو ٹھیس پہنچائی ہے اور ہماری پارٹی (کنزرویٹو پارٹی) کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ برطانوی وزیراعظم کے خلاف جمی ویلس کی تنقید اس قدر شدید تھی کہ انہوں نے حتی دھمکی آمیز لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ اگر لز ٹیرس مستعفی نہیں ہوتیں تو وہ کنزرویٹو پارٹی ہی چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ ویلس نے دلیل پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر کنزرویٹوز اس وقت لز ٹیرس سے جان چھڑانے میں کامیاب نہ ہو سکے تو انہیں اگلا موقع مڈٹرم الیکشن میں ہاتھ آئے گا۔

لز ٹیرس کو برسراقتدار آئے کچھ ہی ہفتے ہوئے ہیں لیکن اس دوران ان کی مقبولیت تیزی سے کم ہوئی ہے۔ مختلف تھنک ٹینکس کی جانب سے جاری سروے رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لز ٹیرس برطانیہ کی تاریخ میں ناپسندیدہ ترین وزیراعظم بن چکی ہیں۔ اوپینیم نامی تحقیقاتی مرکز نے ایک سروے رپورٹ کے نتائج جاری کئے جس کی روشنی میں گذشتہ تمام وزیراعظموں کے مقابلے میں لز ٹیرس سب سے کم مقبول وزیراعظم ہیں۔ بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق اوپینیم نے اپنی رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ لز ٹیرس کی مقبولیت میں دس فیصد کمی واقع ہوئی ہے اور 47 سے بھی نیچے چلی گئی ہے۔ یہ پوائنٹس گذشتہ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کے "پارٹی گیٹ” اور حتی تریسا مے کے استعفی سے چند ہفتے پہلے کے پوائنٹس سے بھی کم ہیں۔

لہذا اس وقت لز ٹیرس نے برطانیہ کی تاریخ کی ناپسندیدہ ترین وزیراعظم کا ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گذشتہ چالیس روز کی کارکردگی سے یوں دکھائی دیتا ہے کہ لز ٹیرس ملک کی سب سے کم مدت کیلئے برسراقتدار رہنے والی وزیراعظم کا ریکارڈ بھی قائم کر دیں گی۔ اس بارے میں ایک سروے رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ برطانیہ کی پچاس فیصد عوام لز ٹیرس کا استعفی چاہتی ہے۔ یو گو نامی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے جاری کردہ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سروے میں شرکت کرنے والے 5 ہزار افراد میں سے 51 فیصد نے لز ٹیرس کو ان کے عہدے سے برکنار کرنے کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ اس سروے میں شریک افراد میں سے صرف ایک چوتھائی افراد لز ٹیرس کو ان کے عہدے پر باقی رکھنے کے حامی تھے۔

یو گو مرکز کی ایک اور سروے رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ لز ٹیرس کو کنزرویٹو پارٹی کے ووٹ بینک میں سے صرف 43 فیصد کی حمایت حاصل ہے۔ کنزرویٹو پارٹی سے تعلق رکھنے والے افراد نے اس سروے میں شرکت کی جن میں سے صرف 36 فیصد افراد اس حق میں تھے کہ برطانوی وزیراعظم لز ٹیرس کو اپنے عہدے پر باقی رہنا چاہئے۔ نصف سے زائد افراد نے لز ٹیرس کے استعفی کا مطالبہ کیا ہے۔ اسی طرح 2019ء میں کنزرویٹو پارٹی کو ووٹ دینے والے افراد میں سے 39 فیصد افراد لز ٹیرس کے مستعفی ہونے کے حق میں ہیں۔ برطانوی وزیراعظم کی کارکردگی پر شدید تنقید اور ان کی وسیع مخالفتوں کے علاوہ بعض ایسے زمینی حقائق بھی پائے جاتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ کنزرویٹو پارٹی بھی زوال کی جانب گامزن ہے۔

حال ہی میں جاری ہونے والی ایک سروے رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ لیبر پارٹی 33 فیصد مقبولیت حاصل کر کے کنزرویٹو پارٹی سے آگے نکل چکی ہے۔ یوں اگر آج ہی برطانیہ میں الیکشن کا انعقاد ہوتا ہے تو کنزرویٹو پارٹی محض 21 فیصد ووٹ حاصل کر پائے گی جبکہ پچاس فیصد سے زیادہ برطانوی شہری لیبر پارٹی کو ووٹ دیں گے۔ برطانیہ کے مختلف تھنک ٹینکس کی جانب سے انجام پانے والے سروے تحقیق سے بھی ایسے ہی نتائج حاصل ہوئے ہیں۔ اوپینیم سروے سنٹر کی رپورٹ سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ لیبر پارٹی، کنزرویٹو پارٹی سے 21 پوائنٹ آگے ہے۔ ان نتائج سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ نہ صرف موجودہ وزیراعظم لز ٹیرس بلکہ کنزرویٹو پارٹی اپنے اقتدار کے آخری دن گزار رہی ہے۔بشکریہ اسلام ٹائمز

نوٹ:ادارے کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے