(تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس)
کچھ عرصہ پہلے ایرانی وزیر خارجہ کا انٹرویو دیکھ رہا تھا، وہ بتا رہے تھے کہ ایران عراق جنگ کے دوران میں اقوام متحدہ میں ایران کا سفیر تھا، میں ہر اس ملک کے پاس گیا، جہاں سے کچھ امید کی جا سکتی تھی کہ وہ مجھے ایرانی عوام کے تحفظ کے لیے کچھ میزائل دے دے گا، مگر کہیں سے بھی کوئی مثبت جواب نہیں ملا اور ہر طرف سے مایوسی ہوئی۔ دوسری طرف پوری دنیا کی اسلحہ ساز فیکٹریاں صدام کو اسلحہ فراہم کر رہی تھیں اور عرب سرمائے سے اسلحہ ایران کے خلاف استعمال کیا جا رہا تھا۔ واقعاً یہ ایک بے بسی کی سی صورتحال ہوتی ہے، جس سے انقلابی حکومت اپنی حکمت اور ایرانی عوام کے جذبہ دفاع وطن سے ہی نکلی اور دشمن ناکام ہوا۔ اس وقت امریکہ اور مغرب نے مختلف الزامات لگا کر ایران پر پابندیاں عائد کی ہوئی تھیں کہ کوئی بھی ریاست ایران کو اسلحہ نہیں بیچ سکتی۔ جنگ ختم ہوئی اور ایرانی ریاست نے ہر میدان کے ساتھ اسلحہ میں خود انحصاری حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس حوالے سے بڑی تعداد میں جامعات میں تحقیقی شعبے قائم کیے گئے اور الگ سے ادارے کھڑے کیے گئے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب شروع شروع میں ایرانی ڈرونز کی تصاویر منظر عام پر آئیں تو بہت سے لوگوں نے انہیں فوٹو شاپ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ایران جیسا پابندیوں کا شکار ملک ایسی جدید ترین مشین کو خود سے بنا سکے، کیونکہ اس میں کئی جدید سسٹمز بیک وقت کام کر رہے ہوتے ہیں۔ دنیا کی آنکھیں اس وقت کھلی کی کھلی رہ گئیں، جب ایران نے امریکہ کا براڈ ایریا میری ٹائم سرویلینس (BAMS-D) ڈرون گرا دیا تھا۔ اس پر ڈونلڈ ٹرمپ نے حملے تک کی دھمکی دی تھی، جو بعد میں خود ہی واپس لے لی تھی۔ یہ ایک بہت بڑی پیش رفت تھی، جس نے تبدیل ہوتی سکیورٹی صورتحال میں ایران کے وزن کو کافی بڑھا دیا۔ اس کے بعد دنیا کے مختلف ممالک اس طرف متوجہ ہوئے کہ ایران ٹیکنالوجی اور بالخصوص ڈرون ٹیکنالوجی میں کافی آگے جا چکا ہے۔
ابھی مغربی میڈیا خوب پروپیگنڈا مہم پر ہے کہ یوکرین جنگ میں گیم چینجز ثابت ہوتے ڈرونز جو کیف میں پہنچ کر پھٹ رہے ہیں، وہ ایران دے رہا ہے بلکہ یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ وہ ایران کے مشہور ڈرونز شاہد ہیں۔ یورپ نے روس کے خلاف یوکرین میں جنگ چھیڑ رکھی ہے اور بڑے پیمانے پر لڑائی جاری ہے۔ اس کا شکار یوکرین کے نہتے عوام ہیں، جو بین الاقوامی استعمار کی اجارہ داری کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ یوکرین کو امریکہ اور پورا یورپ بڑی تعداد میں اسلحہ فراہم کر رہا ہے، وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے۔ امریکہ اور مغربی میڈیا نے یہ پرپیگنڈا شروع کر دیا کہ یہ ایرانی ڈرونز ہیں۔ ایران نے آفیشلی اس بات کی تردید کی اور کہا کہ اس کے ڈرونز کیف حملے میں استعمال نہیں ہو رہے، پھر بھی پروپیگنڈا جاری رہا کہ بڑی تعداد میں ایران روس کو ڈرونز برآمد کر رہا ہے۔
یورپی یونین کے ممالک نے پہلے انفرادی طور پر اور پھر اجتماعی طور پر ایرانی ڈرونز کی فراہمی پر تنقیدی بیانات دینے شروع کر دیئے اور ابھی یورپی یونین نے کچھ ایرانی کمپنیوں اور شخصیات پر پابندی کی بھی بات کی ہے۔ امریکہ تو خیر اس محاذ میں آگے تھا، اس نے پہلے ڈرونز کی بات تسلسل سے کی اور پھر یہ بیان داغ دیا کہ ایرانی ماہرین بھی کریمیا میں موجود ہیں، جو ان ڈرونز کو اڑانے میں معاونت کر رہے ہیں۔ اس کے بعد پروپیگنڈا ٹیمز حرکت میں آئیں اور ایرانی ماہرین کی حملے مین اموات کا واویلا شروع ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ ایک قدم آگے بڑھا اور کہا "ایران ڈرون سسٹموں کے ساتھ یوکرین کو ہدف بنا رہا ہے: امریکہ وزارت دفاع” یعنی بڑی حکمت عملی سے ایران کو جنگ میں ڈرونز فراہم کرنے سے شروع ہونے والے پروپیگنڈے کو ایران کو جنگ میں شریک ملک تک لے آیا۔
اب یورپ کیونکہ اس جنگ کے حقوق اپنے نام کرچکا ہے تو جو اس جنگ میں روس کے شانہ بشانہ جنگ میں شریک ہو، یورپ اس کے خلاف ہوگا۔ اس طرح پہلے یورپین سے کچھ پابندیاں لگوائیں اور اب برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی طرح سے اقوام متحدہ سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس بات کی تحقیقات کرے کہ ایرانی ڈرونز روس میں استعمال ہوئے ہیں اور اسے 2015ء کے ایران اور عالمی طاقتوں کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی قرار دے کر ایران کے خلاف مزید کارروائیوں کا مطالبہ کیا جا سکے۔ اگر اس پوری صورتحال کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نیٹو اور اس کے اتحادی ایران پر پابندیاں عائد کرتے تھے کہ وہ کسی سے اسلحہ نہ خرید سکے، اب صورتحال اس سے بہت آگے جا چکی ہے۔ اب معاملہ برعکس ہوچکا ہے۔ ایران ایک فوجی طاقت بن چکا ہے، جو دنیا کی بڑی طاقتوں کو اسلحہ فروخت کر رہا ہے۔ یورپ اور امریکہ نے مل کر دنیا کی اسلحہ کی مارکیٹ پر قبضہ کر رکھا ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ کوئی اور طاقت جو مغربیت کے خلاف بھی ہے، وہ اس میدان میں آئے۔
امریکہ اور یورپ صرف اسلحہ فروخت نہیں کرتے، اسے کنٹرول بھی کرتے ہیں۔ ہم نے پیسے دے کر ایف سولہ طیارے لے رکھے ہیں، مگر ہم انہیں انڈیا کے خلاف استعمال نہیں کرسکتے تو کیا ہم نے یہ اچار ڈالنے کے لیے رکھے ہوئے ہیں؟ استعماری قوتیں آہستہ آہستہ بے نقاب ہو رہی ہیں۔ ایران کے ڈرونز تو انسانوں کو قتل کرتے ہیں اور سول آبادیوں کو گراتے ہیں، بہت ہی برے ڈرونز ہیں۔ ہاں یہ یورپ اور امریکہ کا بنایا اسلحہ تو عراق، افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پھول برساتا رہا، جہاں ایک ایک واقعہ میں دو دو سو قرآن حفظ کرتے ہوئے بچوں کو شہید کیا گیا۔ ویسے کوئی ایران کو اسلحہ نہ بیچے سے ایران اسلحہ نہ بیچے تک پہنچانے میں امریکی اور مغربی پابندیوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔بشکریہ اسلام ٹائمز
نوٹ:ادارہ کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔