یروشلم:اسرائیل کے سابق وزیراعظم نے کہا ہے کہ اگر سعودی عرب نہ ہوتا تو عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کا معاہدہ نہ ہوتا۔قدس کی غاصب اور جابر صیہونی حکومت کے سابق وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے کہا ہے کہ سب سے پہلے ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ سعودی عرب نے تعلقات بتدریج معمول پر لانے کا عمل شروع کر دیا کیونکہ 2018 اور 2020 میں "ابراہیم”معاہدے پر دستخط ہونے سے قبل، سعودی حکام نے لاکھوں اسرائیلیوں کے لیے سعودی فضائی حدود کھول دی، جس کے بعد وہ خلیج فارس کے ممالک کے لیے پرواز کرنے کے قابل ہو گئے۔ صیہونی حکومت کے سابق وزیر اعظم نے انکشاف کیا کہ بعض عرب ممالک اور تل ابیب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل کو سعودی عرب نے گرین سگنل دیا اور ریاض نے اسرائیل کے ساتھ بتدریج سمجھوتے کی طرف قدم بڑھایا اور اگر سعودی عرب کی رضا مندی نہ ہوتی تو عرب ممالک ہم سے سمجھوتہ نہ کرتے۔ صیہونی حکومت کے وزیر ٹرانسپورٹ میراف میخائلی نے اس سے قبل سعودی اوراسرائیلی حکام کے مابین فلسطینی قوم کے ھدف اور حقوق کے لیے نقصان دہ سازشی مذاکرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ سعودی عرب کے ساتھ اس قسم کے اقدامات مفاہمتی عمل کا حصہ ہیں اور یہ اسرائیل کے طیاروں کی سعودی عرب کے فضائی حدود استعمال کرنے کے لئے ہیں جس سے اسرائیلی پروازوں کا دورانیہ کم ہو جائے گا۔ واضح رہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی حکومت سعودی عرب اور صیہونی حکومت کے درمیان ایک معاہدے اور تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہی ہے جبکہ 2020 میں سابق امریکی صدر ٹرمپ کے دباؤ میں آ کر متحدہ عرب امارات، بحرین اور سوڈان نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات برقرار کئے۔