(محمد طیب زاہر)
دنیا میں کوئی ایسی تکلیف نہیں کوئی ایسا زخم نہیں جو بھر نہ جائے ۔قدرت نے وقت کو ایک مرہم کے طور پر بنایا ہے ۔جو گزرنے کے ساتھ ساتھ سارے دکھ سارے زخم بھر دیتا ہے ۔لیکن وقت پر لگنے والی اچانک چوٹ پر سنبھلنا ذرا مشکل ہوتا ہے ۔کیونکہ انسان سرے سے یہ توقع ہی نہیں کر رہا ہوتا جس طرح کا دکھ کا سامنا اُسے کرنا پڑتا ہے۔کیونکہ دکھ اور بڑے صدمے بھی ایک سر پرائز کے طور پر انسان کی زندگی میں اُچھل پڑتے ہیں ۔جیسا کہ کسی کی اچانک موت کا صدمہ ۔یہ ایسا صدمہ ہے جو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔کسی کا پیارا اچانک موت کی دہلیز پار کرجائے تو لواحقین پر کیسی کیسی قیامت گزرتی ہے جس کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جو اِس صورتحال کا سامنا کر رہا ہوتا ہے۔
خیر ارشد شریف نامور صحافی اور اینکر پرسن جو اپنی بات کو دھڑلے سے کہتے تھے جو سیاستدانوں کی کرپشن کی نت نئی کہانیوں کو ڈاکومنٹ ثبوتوں کے ساتھ بے نقاب کیا کرتے تھے وہ بھی اچانک سے یہ دنیا چھوڑ کر چلے گئے ۔جو یقینی طور پر پورے پاکستان کے لئے ایک بڑا صدمہ تھا۔اِن کی موت پر کیا بڑا کیا چھوٹا سب کی آنکھوں میں آنسوں بے چینی ہے غصہ ہے ۔تقریبا پورا پاکستان غم سے چُور ہے۔اور اِس سے بڑھ کر ارشد شریف کی والدہ جن کے اندر بے پناہ صبر ہے ۔شاید وہ پہلے اپنے خاوند اور اپنے ایک بیٹے کی شہادت کے غم کو جھیل چکی ہیں ۔اور اِسی وجہ سے شاید وہ مضبوط اعصابوں کی مالک بن گئی ہیں ۔لیکن ظاہر ہے وہ ماں ہے اور ماں کی آنکھیں اپنے بیٹے کے جانے پر بھیگ جانا تو فطری ہے ۔اور وہ بھی ایسی ماں جس کے دونوں بیٹے شہادت کا جام پی چُکے ہوں ۔ارشد شریف کے معصوم چھوٹے چھوٹے بچوں کے چہروں پر مسکراہٹ ہے شاید ارشد شریف نے اپنے بچوں کو بھی اپنی طرح بہادر بننے کی ٹریننگ دی ہےاور ہر حالات سے مقابلہ کرنا سکھایا ہے ۔
میں بذات خود کبھی بھی ارشد شریف سے ملا نہیں ۔لیکن اِن کی رات 4 بجے کے قریب شہادت کی خبر سن کر میں گہرے صدمے میں چلا گیا۔صحافیوں کی شہادت کوئی نئی بات نہیں ۔لیکن ارشد شریف کی شہادت پر اِس لئے بھی یقین کرنے کو دل نہیں کرتا کہ وہ خطرات کو محسوس کرتے ہوئے ملک سے باہر چلے گئے اور یہاں بھی موت اِن کا پیچھا کرنے میں کامیاب رہی یہ سوچ کر حیرانی ہوتی ہے ۔اور وہ بھی طبعی موت نہیں بلکہ باقائدہ اِن کے سر کا نشانہ لے کر اُنہیں شہید کیا گیا۔اب ارشد شریف کی موت نے بہت سارے سوالات کو جنم دیا ہے ۔
ظاہر ہے پہلا اور بنیادی سوال یہی اُٹھتا ہے کہ ایسی کون سی مجبوری تھی جس نے ارشد شریف کو ملک چھوڑ جانے پر مجبور کیا۔ایسی کیا بات تھی جس کی وجہ سے ارشد شریف کو اپنے ہی ملک سےا ور اپنے ہی لوگوں سے گُٹھن محسوس ہونے لگی؟اور پھر اُنہیں دبئی جانا پڑا اور پھر وہ دبئی سے کینیا کیوں اور کن حالوں میں پہنچے یہ بڑے سوالات ہیں ۔ارشد شریف کے وکیل بیریسٹر شعیب رزاق نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے یہ دعویٰ کیا تھا کہ دبئی حکام نے اُنہیں 24 گھنٹوں کے اندر ملک چھوڑنے کا کہا گیا ۔اور دبئی حکام پر پاکستانی حکام نے دباؤ ڈالا کہ ارشد شریف کو واپس پاکستان بھیجا جائے ۔لیکن سینیٹر انور بیگ جو ارشد شریف کے بہت قریب ترین ساتھیوں میں شمار ہوتے ہیں اُنہوں نے ہی ارشد شریف سے آخری فون کال پر بات کی تھی ۔انور بیگ کہتے ہیں کہ دو دن میں ارشد شریف کاویزا ختم ہونا تھا اور دبئی حکام اُن کا ویزا extend نہیں کر رہی تھی ۔اب یہ بھی اپنی جگہ پر سوال ہے کہ اُن کا ویزا کیوں extend نہیں کیا جا رہا تھا؟لیکن اِس بات کی ضرور تفتیش ہونی چاہئے کہ اُنہیں ملک چھوڑنے پر کس نے مجبور کیا۔اب شہباز شریف نے ارشد شریف کے قتل پر جوڈیشل کمیشن بنانے کا اعلان کیا ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ ہمارے اپنے ملک میں ہماری آںکھوں کے سامنے بے نظیر بھٹو کا قتل ہوا،لیاقت علی خان کا قتل ہوا لیکن اِن دونوں وزرائےاعظم کے قاتل آج بھی گُمنام ہیں ۔تو ایسے میں پاکستان سے دور ساڑھے چار ہزار کلو میٹر پر واقع کینیا میں حقائق کو تلاش کرلیا جائے گا؟یہ ایک بڑا سوال ہے ۔کینیا ایک ایسی تھرڈ ورلڈ کنٹری ہے۔ وہاں دہشت گردی عام ہے۔آئے روز پولیس مقابلے ہوتے ہیں۔ایسے میں کیا کینیا کی حکومت اپنی ساکھ کو داؤ پر لگاتے ہوئے اپنے پولیس کے خلاف جاکر کوئی مؤقف اپنائے گی یا پھر کینیا کی حکومت صاف تحقیقات ہونے دے گی ؟ حقیقت کو مسخ نہیں کرے گی ؟اِس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے ۔
میرے خیال سے ایسا بہت مشکل ہے کیونکہ کینیا کی پولیس خود جرائم اور کرپشن میں بدترین حکومت شمار ہوتی ہے ۔اور صرف یہی نہیں کینیا کے صدر پر بھی یہ الزام لگتا ہے کہ وہ اپنے مخالفین کو دبانے کیلئے اپنی پولیس کے ذریعے اِن کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بناتا ہے ۔ اب جب حالات ایسے ہوں تو ایسے میں اِس بات کی اُمید نظرآنا مشکل ہے کہ ارشد شریف کے قتل کی صاف تحقیقات ہوسکیں گی؟لیکن شہباز شریف نے جوڈیشل کمیشن بنا کر اپنے سر سے وزن ہٹانے والی بات کی ہے ۔اور دوسری جانب مریم نواز ارشد شریف کی موت کے بعد بھی اپنی انتقامی آگ کو بُجھانے میں ناکام رہی ہیں ۔ظاہر ہے ارشد شریف شریف خاندان کی کرپشن کو بے نقاب کیا کرتے تھے وہ مریم نواز اور اِن کے خاندان کے لئے کیسے قابل قبول ہوسکتا تھا۔مریم نواز نے ٹویٹر پر اپنے چاہنے والے صارف کی ایک ٹویٹ شئیر کی ہے ۔اور اُس ٹویٹ کا نچوڑ یہ ہے کہ اُس میں یہ تاثر دیا گیا ہے کہ ارشد شریف کے ساتھ جو ہوا وہ مکافاتِ عمل ہے ۔باقی اگر مکمل ٹویٹ دیکھنی ہو تو وہ آپ مریم نواز کے ٹویٹر ہینڈل پر دیکھ سکتے ہیں ۔ابھی تک سخت تنقید کے باوجود مریم نواز نے وہ ٹویٹ ڈلیٹ نہیں کیا نہ کوئی معافی مانگی ہے ۔ہوسکتا ہے آگے جاکر وہ ٹویٹ دلیٹ کردیں لیکن کمان سے نکلا ہوا تیر اور زبان سے نکلی ہوئی بات ایک بار نکلے تو اپنا اثر چھوڑ جاتی ہے ۔
اب جہاں ارشد شریف کی موت پر ملک سوگوار ہیں وہیں پر میاں نواز شریف کی دیوالی پر کیک کاٹنے کی ویڈیو وائرل ہو رہی ہے اور اُنہیں بے حس کہا جا رہا ہے ۔لیکن صرف نواز شریف ہی نہیں بلکہ ہم بحثیت قوم بےحس ہیں ۔اگر کاش ہم نے ارشد شریف کی قدر کرلی ہوتی تو شاید اُنہیں ملک چھوڑنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی ۔لیکن ارشد شریف کےساتھ جو ظلم ہوا اُس کا زخم ابھی ہرا ہے۔اور شاید ہرا رہے گا۔
بقول وصی شاہ
فلک پہ چاند کے ہالے بھی سوگ کرتے ہیں
جو تو نہیں تو اجالے بھی سوگ کرتے ہیں
تمہارے ہاتھ کی چوڑی بھی بین کرتی ہے
ہمارے ہونٹ کے تالے بھی سوگ کرتے ہیں
نگر نگر میں وہ بکھرے ہیں ظلم کے منظر
ہماری روح کے چھالے بھی سوگ کرتے ہیں
اُسے کہو کہ ستم میں وہ کچھ کمی کر دے
کہ ظلم توڑنے والے بھی سوگ کرتے ہیں
بشکریہ GGN نیوز
نوٹ:ادارے کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔