(تحریر: علی احمدی)
برازیل میں لوئیس لولا ڈا سلوا ملک کے نئے صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ امریکہ، اسرائیل اور ان کے اتحادی مغربی ممالک ڈا سلوا کے حریف جائیر بالسونارو کی حمایت میں مصروف تھے۔ ڈا سلوا بائیں بازو کے رجحانات رکھتے ہیں اور برازیل میں ان کی کامیابی سے بائیں بازو کی سیاسی قوتیں لاطینی امریکہ میں ایک اور مورچہ فتح کر چکے ہیں جو شاید اہم ترین مورچہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ امریکہ کیلئے ایک وارننگ سمجھی جاتی ہے جسے ماہرین کے بقول امریکہ نے زیادہ سنجیدہ نہیں لیا ہے۔ برازیل میں صدارتی الیکشن دو مراحل میں انجام پایا ہے۔ پہلا مرحلہ 3 اکتوبر 2022ء جبکہ دوسرا مرحلہ 30 اکتوبر 2022ء کے دن انجام پایا۔ اس الیکشن میں ڈا سلوا کے مدمقابل جائیر بالسونارو تھے جو مغرب نواز سمجھے جاتے ہیں اور برازیل کے ڈونلڈ ٹرمپ کے طور پر معروف ہیں۔
امریکی ٹی وی چینل سی این این نے برازیل میں ڈا سلوا کی کامیابی کے بارے میں رپورٹ دیتے ہوئے کہا کہ صدارتی الیکشن کے دوسرے مرحلے میں ڈا سلوا کے حامیوں کی بڑی تعداد میں الیکشن میں شرکت کے باوجود وہ بہت کم لیڈ لے کر برازیل کے ٹرمپ کے مقابلے میں فتحیاب ہوئے ہیں۔ بعض نے اس پریشانی کا اظہار کیا ہے کہ دونوں امیدواروں کے درمیان ووٹوں کی تعداد میں کم فرق کے باعث شاید بالسونارو اپنی شکست قبول کرنے سے انکار کر دیں کیونکہ وہ اس سے پہلے بھی بارہا یہ دعوی کر چکے ہیں کہ برازیل میں ووٹنگ کے الیکٹرانک طریقہ کار میں دھاندلی کا امکان بہت زیادہ ہے۔ بالسونارو کے اس بے بنیاد دعوے کو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غلط انتخاباتی دعووں کے ساتھ موازنہ کیا گیا ہے۔
امریکی چینل سی این این نے جس نکتے کی جانب اشارہ کیا ہے اس کا نتیجہ جائیر بالسونارو کی جانب سے خاموشی اختیار کئے جانے اور شکست کا اعتراف نہ کرنے اور اس کے بعد ان کے حامیوں کے احتجاجی مظاہروں کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ برازیل کے متنازعہ صدر کے حامیوں نے کچھ سڑکیں بند کر کے ساوپالو انٹرنیشنل ایئرپورٹ تک آمدورفت محدود کر دی ہے جس کے باعث بعض پروازیں بھی کینسل ہو گئی ہیں۔ موصولہ رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ برازیل میں 300 سے زائد ہائی ویز مکمل یا جزوی طور پر بند کر دی گئی ہیں۔ برازیل کے پولیس ذرائع نے کہا ہے کہ ایک جج نے سڑکیں کھلوانے کا حکم جاری کیا ہے۔ ریاست سانتا کاتارینا میں بالسونارو کے ایک حامی نے ویڈیو بیان میں کہا: "ہم یہاں سے صرف اسی صورت باہر نکلیں گے جب فوج ملک کا کنٹرول سنبھال لے گی۔”
برازیل میں ڈا سلوا کی کامیابی پر عالمی سطح پر وسیع ردعمل سامنے آیا ہے۔ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے انہیں اس کامیابی پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا: "ایران کو امید ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان نیک نیتی پر مبنی دیرینہ تعلقات مزید فروغ پائیں گے۔” روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے بھی ڈا سلوا کو مبارکباد پیش کی اور کہا: "الیکشن کے نتائج نے آپ کی قابل تعریف سیاسی طاقت کی تصدیق کر دی ہے۔” فرانس کے صدر ایمونوئیل میکرون نے اپنے ٹویٹر پیغام میں ڈا سلوا کی کامیابی کو برازیلی قوم کی تاریخ کا "نیا باب” قرار دیا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے بیانیے میں ڈا سلوا کی کامیابی کو "آزاد، منصفانہ اور معتبر” قرار دیا ہے۔ ارجنٹائن کے صدر البرٹو فرنانڈس نے برازیل میں ڈا سلوا کی کامیابی کو لاطینی امریکہ کی تاریخ میں نئے دور کا آغاز قرار دیا ہے۔
دوسری طرف اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے برازیل میں ڈا سلوا کی کامیابی پر ناخوشی کا اظہار کیا ہے کیونکہ وہ انہیں اپنا مخالف سمجھتی ہے۔ ایسا مخالف جس نے ماضی میں اسرائیلی سفیر کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ صیہونی اخبار ہارٹز اس بارے میں لکھتا ہے: "برازیل کے صدارتی الیکشن میں بالسونارو کی شکست اسرائیل کیلئے بہت برا سبق ہے۔” الجزیرہ نیوز چینل نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ امریکہ کو لاطینی امریکہ میں بائیں بازو کی جانب یوٹرن سے چشم پوشی اختیار نہیں کرنی چاہئے۔ اس رپورٹ کے مصنف کینیڈا کی ڈل ہاوزی یونیورسٹی کے لاطینی امریکہ کے بارے میں تحقیق کرنے والے پروفیسر جان کارک ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس خطے میں بائیں بازو کی قوتوں کا طاقت میں آنے کا مطلب امریکی پالیسیوں کی نفی ہے۔
وہ مزید لکھتے ہیں کہ لاطینی امریکہ بدل رہا ہے اور دائیں بازو کی قوتیں جنہوں نے گذشتہ دو عشروں سے اس خطے پر اپنا تسلط قائم کر رکھا تھا دھیرے دھیرے سیاسی طاقت سوشلسٹس اور سوشل ڈیموکریٹس کو سونپ رہی ہیں۔ جان کرک لکھتے ہیں: "خطے میں اہم ترین تبدیلی 30 اکتوبر کے دن رونما ہوئی ہے اور ماہرین کی نظر میں لاطینی امریکہ میں 1990ء کے عشرے میں پیدا ہونے والی موج بائیں بازو کی جانب جھکاو پر مبنی ہے۔ اس وقت بائیں بازو کی قوتوں نے سیاسی کرپشن اور سماجی بے انصافی پر زور دیتے ہوئے نیولبرلز کی پالیسیوں نیز قومی معیشت میں بیرونی عناصر کی مداخلت کی مذمت کی تھی۔” جان کرک اس بات پر زور دیتے ہیں کہ بائیں بازو کی حکومتیں واپس لوٹ آئی ہیں کیونکہ امریکی حمایت یافتہ دائیں بازو کی حکومتیں عوام میں پائی جانے والی مایوسی کو نہ سمجھ سکیں۔بشکریہ اسلام ٹائمز
نوٹ:ادارے کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔