(تحریر: وقار شیرازی)
مشرقی اور جنوبی یوکرائن کے جنگی محاذوں پر گذشتہ چند ہفتوں میں روسی فوج کی انتہائی غیر متوقع پسپائی اور پے در پے شکستوں سے نہ صرف ولادیمیر پیوٹن اور روسی عوام حیران و پریشان ہیں بلکہ پوری دنیا میں تمام ستم رسیدہ اور مستضعف عوام میں شدید بے چینی اور افسردگی پائی جا رہی ہے۔ روسی فوج کی حالیہ شکستیں دنیا بھر میں سامراج مخالف مزاحمتی تحریکوں کیلیے بھی یقیناً ایک دھچکہ ہیں، کیونکہ پیوٹن کا وہ روس جو سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد بورس یلسن کے دور حکومت میں ذلت و پستی اور معاشی و معاشرتی بدحالی کی گہرائیوں میں جا پہنچا تھا، ولادیمیر پیوٹن اور اس کی شاندار ٹیم نے اس کو پھر سے ایک قلیل مدت میں اپنے پاؤں پر نہ صرف کھڑا کیا بلکہ روس پھر سے عالمی سیاست میں ایک مضبوط اور بااثر مقام پر آموجود ہوا۔
سوویت یونین کے بعد دنیا یک قطبی نظام کی گرفت میں آچکی تھی۔ امریکہ واحد سپر پاور کی حیثیت سے تمام کرہ ارض پر بلا کسی خوف و خطر اور چیلنج کے من مانیاں کرتا پھر رہا تھا۔ ایران، شمالی کوریا اور شام امریکی غنڈہ گردی کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح ضرور کھڑے تھے، مگر ان کی طاقت اور کردار علاقائی پیمانے پر محدود سطح کا تھا۔ یہ ممالک اقتصادی، عسکری اور سائنس و ٹیکنالوجی کے میدانوں میں کسی طور امریکہ کے ہم پلہ نہیں تھے۔ سامراج اور استعمار مخالف عالمی مزاحمتی تحریکوں کی مدد کے ذریعے ایران خاص طور پر امریکہ کیلیے درد سر بنا ہوا تھا۔ مگر ایران کے مادی خصوصاً معاشی وسائل اس سطح پر نہیں تھے کہ وہ اکیلا امریکہ و مغرب کی متحدہ سامراجی قوتوں کا فیصلہ کن مقابلہ کرسکے۔ اس دوران پیوٹن کے روس نے کروٹ لی اور تقریباً بیس سال کے قلیل عرصے میں نہ صرف اٹھ کھڑا ہوا بلکہ عالمی میدان میں دنیا پر غالب امریکی اور مغربی اجارہ داری کے مدمقابل کے طور پر سامنے آگیا۔
تمام دنیا کی مظلوم اور پسی ہوئی قوموں کی امید بھری نظریں اب ایران کے ساتھ پیوٹن کے انگڑائی لیتے روس پر بھی جمی ہوئی تھیں۔ قذافی کا لیبیا، بشار الاسد کا شام اور شمالی کوریا ماضی میں روس کے قریبی دوستوں اور اتحادیوں میں شمار ہوا کرتے تھے۔ مگر سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد امریکی بھیڑیا ان ممالک کی آزاد اور خود مختار حکومتوں کو مٹانے کیلیے ان پر گہری نظریں جمائے بیٹھا تھا۔ پہلا شکار لیبیا بنا۔لیبیا پر یورپ و امریکہ کی متحدہ عسکری قوت ناٹو نے تابڑ توڑ حملے شروع کر دیئے۔لیبیا کی حکومت و نظام روس کی مدد کی امید دل میں لیے راہی ملک عدم ہوئے اور پیوٹن اگرچہ روس کو اپنے پیروں پر نہ صرف کھڑا کرچکے تھے بلکہ روسی عوام میں روسی قوم پرستی اور امریکی و مغربی بالادستی کے خلاف نفرت کے جذبات اور روسی نشاۃ ثانیہ کا جذبہ بھی پیدا کر چکے تھے۔ مگر چونکہ یہ سب کچھ نیا نیا تھا۔اس لیے پیوٹن جھجھکے اور لیبیا کی مدد نہ کی جا سکی۔
مغربی طاقتوں نے حسب سابق ایک آزاد ملک کو بغیر کسی تقصیر و قصور کے روند کر رکھ دیا۔ یہ ہو تو گیا مگر اس نے روسی عوام، اسٹیبلشمنٹ اور خود پیوٹن میں آئندہ ایسا نہ ہونے دینے اور ناٹو کے منہ زور عفریت کا حقیقی طور پر سامنا کرنے کا جوش اور عزم پیدا کیا۔ مغرب کا اگلا ہدف شام تھا۔ منصوبے کے مطابق کارروائیوں کا آغاز ہوا۔روس پھر سے جھجھک رہا تھا۔ شام ایک ایک کرکے اپنے لوگ اپنے شہر اور قصبے گنواتا جا رہا تھا۔ ایک ایران تھا جو ہر ممکن طریقے سے اس کی مدد کر رہا تھا۔ لیکن یورپ امریکہ، آل سعود اور یہود کی تمام تر قوتیں اکٹھے کام کر رہی تھیں۔ بے شمار افرادی قوت کا انتظام آل سعود نے سلفی علماء کے فتووں کے ذریعے کیا تو ڈالروں اور اسلحے کے انبار امریکی اور مغربی قوتوں نے لگانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ عالمی طاغوتی قوتوں کے پروردہ تکفیری دہشت گردوں کے لاؤ لشکر شام میں انتہائی سرعت سے پہنچائے جانے شروع کر دیئے گئے اور بہت جلد حالات حکومت کے قابو سے باہر ہوگئے۔
دارالحکومت دمشق کے سوا تمام ملک پر باغیوں کا قبضہ ہوچکا تھا، دمشق محاصرے میں تھا۔ شام کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرکے شام کے دوسرے بڑے شہر حلب کو دارالحکومت بنا کر اقوام متحدہ کی طرف سے قانونی طور پر تسلیم کروانے کا منصوبہ بن چکا تھا۔ اس نازک صورتحال میں اسلامی جمہوری ایران کی ایلیٹ فورس القدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی بذات خود ماسکو جا کر کریملن میں صدر پیوٹن سے ملاقات کرتے ہیں۔ امریکہ و مغرب مخالف مزاحمتی قوتوں کیلیے محاذ شام کی اہمیت اور حالات کی نزاکت اور سنگینی سے پیوٹن کو آگاہ کرتے ہیں اور عالمی سامراجی اور شیطانی طاقتوں کے بے مہار اور بپھرے ہوئے سیلاب کے آگے شام کے میدانوں میں بند باندھنے کیلیے مشترکہ کارروائی کیلیے روسیوں کو آمادہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
روس اپنی فضائی طاقت کو میدان میں لے آتا ہے۔ شام کی سرزمین پر جنگ کا پانسہ پلٹنا شروع ہوتا ہے۔ ایران، شام اور حزب اللہ کے زمینی دستے روسی فضائیہ کی مدد سے مشرق وسطیٰ میں مغرب کے بہت بڑے منصوبے کا صفایا کر دیتے ہیں۔ شام اور عراق کو دہشت گردوں سے پاک کر دیا جاتا ہے۔ سوویت یونین ٹوٹنے کے پچیس برس بعد پہلی بار روس پھر سے عالمی عسکری میدان میں امریکہ مخالف بڑی طاقت کے طور پر نمودار ہوتا ہے۔ یہ صورتحال دنیا کی مظلوم قوموں کے لیے انتہائی حوصلہ افزا ثابت ہوتی ہے۔ ایران اور شام کو کئی برسوں سے اسرائیلی معاشی دباؤ کی وجہ سے روکے گئے ایس_300 فضائی دفائی نظام کی ترسیل کر دی جاتی ہے۔ یک قطبی عالمی نظام اور دنیا پر امریکی تھانیداری کو ایران اور روس کے سیاسی و عسکری اتحاد کی شکل میں ایک بہت بڑے چیلنج سے آمنا سامنا ہوتا ہے، لیکن چونکہ ایران اور روس بڑی اور مضبوط معیشتیں نہ رکھنے کے سبب مغرب سے براہ راست بڑے ٹکراؤ کی پوزیشن میں نہیں تھے، سعودی، اسرائیلی اور تمام مغربی بلاک کی یہ دیرینہ خواہش رہی ہے کہ ان کو کسی بڑے محاذ میں الجھایا جائے۔
چند ماہ قبل ناٹو کے پری پلان منصوبے کے مطابق یوکرین یعنی بلقان کے خطے میں عین روس کے دروازے پر جدید ترین امریکی میزائل شیلڈ نصب کرنا شروع کر دی گئی۔یہ روس کیلیے ریڈ لائن کراس کرنے والا معاملہ تھا۔ روس کے پاس یوکرین پر حملے کے علاوہ کوئی آپشن ہی موجود نہ تھا، کیونکہ ناٹو نے روس کے گرد گھیرے کا دائرہ بہت تنگ کر دیا تھا۔ روسیوں نے حملہ کیا، مگر غلطی پھر سے وہی جھجھکنے والی کی۔ روسیوں کی جنگی کارروائی محدود پیمانے پر اور کم قوت سے کی گئی، نیز دشمن کو انڈر اسٹیمیٹ کیا گیا اور یہی بڑی غلطی تھی۔ جنگی حملہ پوری قوت اور انتہائی سرعت سے اور وسیع محاذ پر ہونا چاہیئے تھا۔ پیوٹن کی اس جھجھک اور سستی نے ناٹو کو موقع فراہم کیا اور انہوں نے یوکرائین میں ڈالروں، لڑنے والے رضاکاروں اور انتہائی جدید ترین اسلحے کے اس قدر انبار لگا دیئے کہ خود جرمنی اور برطانیہ جیسے ممالک کے اسلحہ کے ذخائر میں خود اپنی فوج کیلیے ضروری اسلحہ نہیں بچا۔
یوں چھ ماہ کے اندر جنگ کا پانسا پلٹنا شروع ہوگیا۔ ستمبر 2022ء میں یوکرائن جیسے ملک کی فوجوں نے آٹھ گنا زیادہ افرادی قوت اور اعلیٰ ترین مغربی اسلحے سے لیس ہوکر مشرقی اور جنوبی محاذ پر روسیوں کو پیچھے دھکیلنا شروع کر دیا اور چند ہی دنوں میں ہزاروں مربع کلومیٹر علاقہ واپس لے لیا۔ روسی پوری طرح دفاعی پوزیشن میں آچکے ہیں۔ صدر پیوٹن ریزرو فوج اور عوامی رضاکاروں سے میدان میں جانے کی اپیل کر رہے ہیں۔ یہ صورتحال تمام دنیا میں امریکہ مخالف تحریکوں کیلیے ایک بڑا دھچکا ہے۔ کیونکہ روس کی یوکرائن پر فتح واضح طور پر مغربی طاقتوں کو اس پوزیشن میں لے آتی کہ ان کا دنیا پر حاوی رہنا زیادہ دیر ممکن نہ رہتا اور یوں ایران و روس کے ساتھ ساتھ شمالی کوریا، شام، یمن، وینزویلا، عراق، ترکی اور پاکستان جیسے ممالک مغرب کے اقتصادی اور عسکری شکنجوں کے حتماً ڈھیلا ہو جانے کے بعد بغیر کسی معاشی خوف کے اپنے پیروں پر کھڑے ہو پاتے۔
مگر اب روس کے یک لخت جارحانہ سے مدافعانہ پوزیشن میں آجانے کے بعد مغربی شیطانی طاقتوں کا حوصلہ تیزی سے بڑھا اور انہوں نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھانے کی کوشش میں بیک وقت روسی اتحادی ایران کو الجھانے کیلیے حسب سابق گھناؤنے، بزدلانہ اور گھٹیا ہتھکنڈوں کے ذریعے ایران کے اندر دراندازی کی کوشش شروع کر دی۔ ایران میں موجود اپنے آلہ کاروں پر ڈالر پھینکے گئے اور تہران میں پولیس کے زیر حراست مہسا امینی نامی خاتون کی ہارٹ اٹیک سے اچانک موت کو لے کر یہودیوں کے زیرقبضہ انٹرنیشنل مین سٹریم میڈیا پر پراپیگنڈا مہم چلائی گئی اور ایرانی معاشرے میں موجود چند شرپسند عناصر کے ذریعے سڑکوں پر مظاہروں کی کوشش کی گئی۔ چند شرپسند ٹولوں نے توڑ پھوڑ کی، سرکاری و عوامی املاک کو نقصان پہنچایا اور ہنگامہ آرائی کرکے پولیس پر بھی حملے کیے۔
اس شیطانی کوشش کو ایرانی انقلابی عوام نے نہ صرف یکسر مسترد کیا بلکہ عوام کے جم غفیر ایران کے تمام شہروں قصبوں اور دیہاتوں میں اسلامی نظام اور انقلاب کے حق میں سڑکوں پر آگئے۔ مغرب اور تمام دنیا پر ثابت کر دیا کہ ایران کی غیور عوام پہلے کی طرح اب بھی اسلام اور انقلاب اسلامی کی نہ صرف وفادار بلکہ دفاع انقلاب کیلئے جان و مال کی ہر قربانی دینے کو تیار ہے۔ ایرانی عوام نے پورے ملک میں سڑکوں پر آکر مغربی سامراجی غنڈوں کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ ایرانی قوم نہ صرف انقلاب اسلامی سے وفادار بلکہ پوری طرح متحد اور انقلاب کے دشمنوں سے نمٹنے کیلئے ہر طرح سے پرعزم ہے۔بشکریہ اسلام ٹائمز
نوٹ:ادارے کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔