(تحریر: تصور حسین شہزاد)
اوائل انقلاب سے ہی ایران زخم خوردہ دشمن کا نشانہ ہے۔ دشمن نے آج 40 سال بعد بھی ایران کے اسلامی انقلاب کو تسلیم نہیں کیا اور مسلسل اس کوشش میں ہے کہ ایران کے اسلامی انقلاب کو ناکامی سے دو چار کر دے، مگر دشمن کو مسلسل ناکامیاں ہی مل رہی ہیں۔ اب دشمن نے حملے کا انداز بدل لیا ہے، مگر اس میں بھی اسے عبرتناک قسم کی شکست کا سامنا ہے اور ایران کو مسلسل کامیابیاں مل رہی ہیں۔ رہبر انقلاب نے گذشتہ ہفتے اپنے خطاب میں جو جملے کہے، وہ بھی تیروں کی طرح دشمن کے سینے میں پیوست ہوئے۔ رہبر معظم کے بقول دشمن عراق کو بھی سعودی عرب کی طرح دودھ دینے والے گائے بنانا چاہتا تھا، مگر ہم نے دشمن کے عزائم ناکام بنا دیئے۔ دشمن یہ بھی چاہتا تھا کہ فلسطین کے غیور مسلمانوں کو صہیونیوں کا دست نگر بنا دیں، مگر ہم نے فلسطینی بھائیوں کی مدد کی اور آج وہ دشمن کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں۔ دشمن چاہتا تھا کہ شام اور یمن میں اپنی کٹھ پتلی حکومت لے آئیں، لیکن ایران نے یہ سازشیں بھی خاک میں ملا دیں، صرف یہیں نہیں بلکہ امریکہ کو مشرق وسطیٰ میں بھی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔
جب دشمن کو ہر محاذ پر ایران کی جانب سے طمانچے پڑ رہے ہیں تو ایسے میں دشمن کہاں چین سے بیٹھے گا؟ اب دشمن نے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر ایران کیخلاف محاذ کھول رکھا ہے۔ ایران میں معمولی مظاہروں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا، جبکہ ان کے برعکس جو انقلاب اسلامی کے حق میں بڑے بڑے اجتماعات اور ریلیاں ہوئیں، انہیں چند سو افراد کی ریلیاں کہنا، رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی مذموم سازش کے سوا کچھ نہیں۔ تین روز قبل رہبر انقلاب اسلامی امام خمینیؒ کی آبائی رہائش گاہ کے باہر مظاہرین نے پولیس چوکی کو نذرآتش کیا۔ مغربی میڈیا اور سوشل میڈیائی دہشتگردوں نے اس پولیس چوکی کو امام خمینیؒ کا گھر کہہ کر وہ واویلا مچایا کہ جیسے انہوں نے پورا ایران فتح کر لیا ہو، مگر ایران کے میڈیا نے امام خمینیؒ کے گھر کو بحفاظت موجود ہونے کی لائیو فوٹیج دکھا کر ان کا پروپیگنڈہ ناکام بنا دیا۔ عمامہ پوش علماء کی توہین کی جعلی ویڈیوز شیئر کرکے سمجھ رہے ہیں یہ کامیاب ہوگئے؟ اگر یہ کامیابی ہے تو یہی کامیابی کربلا میں یزید کو ملی تھی۔ درحقیقت آج کون کامیاب ہے؟ یقیناً امام حسینؑ کی کامیابی کا ڈنکا پوری دنیا میں بج رہا ہے۔
ایک وقت تھا جب یہ اصطلاح استعمال کرتے تھے ’’دمشق سقوط‘‘ کر رہا ہے، پھر کہتے تھے، بغداد سقوط کر رہا ہے، پھر حوثی سقوط کر رہے ہیں، لیکن دمشق بھی قائم ہے، بغداد بھی موجود ہے اور حوثی بھی اپنی شان و شوکت کیساتھ سینہ تانے کھڑے ہیں، سقوط کیا ہے تو امریکی ارادوں نے کیا ہے۔ دشمن کو ہر محاذ پر شکست ملی ہے۔ اب سوشل میڈیا پر ایران کیخلاف ایک طوفانی قسم کا ماحول بنایا گیا ہے اور ایسے ظاہر کیا جا رہا ہے کہ جیسے پورا ایران انقلاب اسلامی اور اسلامی حکومت کیخلاف سڑکوں پر نکل آیا ہے، جبکہ یہ گرد بھی چند روز میں بیٹھ جائے گی اور دشمن کو ایک بار پھر حسب روایت منہ کی کھانا پڑے گی۔ کیونکہ آیت اللہ سید علی خامنہ کے یہ جملے اس جنگ کے انجام کا چہرہ دکھا رہے ہیں۔ رہبر معظم نے فرمایا کہ ’’ایرانی قوم مسلمان ہے، یہ قرآن اور امام حسینؑ کی قوم ہے۔‘‘
یقیناً کربلا ایسی درسگاہ ہے، جہاں سے ہزیمت اور شکست کا سبق صرف باطل کیلئے ہے، جبکہ جو حق پر ہیں، ان کیلئے کامیابی و کامرانی ہے۔ رہبر معظم نے مزید کہا کہ ’’ایران میں ایک نظام نے مذہب اور مذہبی جمہوریت کی بنیاد پر اپنے عوام کو حقیقی تشخص عطا کیا ہے اور درحقیقت مغرب کے لبرل ڈیموکریسی کے نظریئے کو باطل ثابت کر دیا ہے۔ امریکی اور یورپی حکومتیں میدان میں آرہی ہیں، لیکن وہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں، جیسا کہ اس سے پہلے بھی وہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ پائی تھیں، مستقبل میں بھی کچھ نہیں بگاڑ پائيں گی۔‘‘ یہ جملے ایران سمیت پوری امت اسلامیہ کیلئے وہ ڈھارس ہیں، جن پر اُمیدوں کے چراغ روشن ہیں۔ اسلام کے دشمن پہلے بھی شکست سے دوچار ہوئے تھے اور اب بھی شکست ان کے مقدر میں لکھی جا چکی ہے۔
سوشل میڈیا پر گمراہی پھیلانے سے وہ وقتی طور پر تو بدامنی پھیلا سکتے ہیں، لیکن مستقل بنیادوں پر انقلاب کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ جھوٹ کے پاوں نہیں ہوتے، جبکہ سچ مستقیم و مستحکم ہوتا ہے۔ اصل میں یہاں سوال یہ ہے کہ امریکہ انقلاب اسلامی کی مخالفت کیوں کر رہا ہے؟ تو اس کا سادہ سا جواب ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران سے سامراج کو اصل تکلیف یہ ہے کہ اگر اسلامی جمہوریہ ایران پیشرفت کرے اور دنیا میں اس کا نام روشن ہو تو مغربی دنیا کی لبرل ڈیموکریسی کا نظریہ سوالوں کے گھیرے میں آجائے گا۔ اس صورتحال سے بچنے کیلئے مغربی میڈیا کے ذریعے یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ انقلاب اسلامی انسانی اقدار کیخلاف ہے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے پُر ہے، لیکن یہ نہیں جانتے کہ اسلام نے ہی سب سے زیادہ انسانی حقوق دیئے ہیں۔
ایران میں صورتحال خراب کرنے کیلئے دشمن نے جو ہتھیار منتخب کیا ہے، وہ عوام کی امید توڑ کر ان میں مایوسی پھیلانے کا حربہ ہے۔ حالیہ مظاہروں کے ذریعے دشمن ایرانی قوم کی اُمید توڑنا چاہتا ہے، لیکن وہ اس میں اس لئے کامیاب نہیں ہوسکتا، کیونکہ انقلاب اسلامی ایران کے سرپرست سید علی خامنہ ای نہیں، بلکہ امام زماںؑ ہیں اور امام سے قوم مایوس نہیں ہوسکتی اور نہ ہی امامؑ اپنے چاہنے والوں کو مایوس کرتے ہیں۔ اس لئے اس گھمسان کے رن میں شکست دشمن کا مقدر اور لوہے پر لکیر ہے۔ امریکہ نیو ورلڈ آرڈر کے ذریعے پوری دنیا پر اپنا تسلط جمانے کا ایجنڈا لے کر آیا تھا، لیکن ایران کی وجہ سے اسے اس ایجنڈے کی تکیمل میں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔
پچھلی تین صدیوں میں استعمار نے آزادی کے فقدان یا ڈیموکریسی کے فقدان کے بہانے ملکوں کے وسائل کو لوٹا اور تہی دست یورپ، بہت سے امیر ملکوں کو مٹی میں ملا کر مالا مال ہوگيا۔ اس وقت ایران میں ایک نظام نے مذہب اور مذہبی جمہوریت کی بنیاد پر اپنے عوام کو حقیقی تشخص عطا کیا ہے، انہیں حقیقی حیات عطا کی ہے اور درحقیقت مغرب کے لبرل ڈیموکریسی کے نظریئے کو باطل کر دیا ہے۔ مغرب کو اپنے عزائم کے محل منہدم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دشمن زخمی کتے کی طرح چلا رہا ہے اور ایران کے اس انتقام سخت کے سامنے بے بس ہوچکا ہے۔ جس طرح چراغ بجھنے سے قبل پھڑپھڑاتا ہے، بالکل اسی طرح دشمن ایران کیخلاف اس جنگ میں پھڑپھڑا رہا ہے، کیونکہ اس کے بجھنے اور برباد ہونے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔بشکریہ اسلام ٹائمز
نوٹ:ادارے کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔