انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود فوج اپنے بنیادی کام اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے سے کبھی غافل نہیں ہوگی۔
’سابقہ مشرقی پاکستان فوجی نہیں سیاسی ناکامی تھی‘
پاک فوج کے سربراہ نے کہا کہ میں آج ایسے موضوع پر بھی بات کرنا چاہتا ہوں جس پر بات کرنے سے گریز کیا جاتا ہے، یہ بات 1971 میں ہماری فوج کی سابقہ مشرقی پاکستان میں کارکردگی سے متعلق ہے، میں حقائق درست کرنا چاہتا ہوں، سب سے پہلے سابقہ مشرقی پاکستان ایک فوجی نہیں سیاسی ناکامی تھی، لڑنے والے فوجیوں کی تعداد 92 ہزار نہیں صرف 34 ہزار تھی، باقی لوگ مختلف حکومتی محکموں میں تھے، ان کا مقابلہ ڈھائی لاکھ بھارتی فوج اور 2 لاکھ تربیت یافتہ مکتی باہنی سے تھا، ہماری فوج بہادری سے لڑی اور بے مثال قربانیاں پیش کیں۔
انہوں نے کہا کہ جس کا اعتراف خود بھارتی آرمی چیف فیلڈ مارشل مانک شاہ نے بھی کیا ہے، ان بہادر غازیوں اور شہیدوں کی قربانیوں کا آج تک قوم نے اعتراف نہیں کیا جو کہ بہت بڑی زیادتی ہے، میں ان تمام غازیوں اور شہیدوں کو خراج تحسین پیش کرنا چاہوں گا۔
جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ آخر میں کچھ باتیں آج کے سیاسی حالات کے متعلق کرنا چاہوں گا، میں کافی سالوں سے اس بات پر غور کر رہا تھا کہ دنیا میں سب سے زیادہ انسانی حقوق کی پامالی بھارتی فوج کرتی ہے لیکن ان کے عوام کم و بیش ہی ان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، اس کے برعکس پاکستانی فوج جو دن رات قوم کی خدمت میں مصروف رہتی ہے، گاہے بگاہے تنقید کا نشانہ بنتی ہے۔
’آئندہ فوج کسی سیاسی معاملے میں مداخلت نہیں کرے گی‘
ان کا کہنا تھا کہ میرے نزدیک اس کی سب سے بڑی وجہ 70 سال سے فوج کی مختلف صورتوں میں سیاست میں مداخلت ہے جو کہ غیر آئینی ہے، اس لیے پچھلے سال فروری نے فوج میں سوچ و بچار کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ فوج کسی سیاسی معاملے میں مداخلت نہیں کرے گی، میں یقین دلاتا ہوں کہ اس پر سختی سے کاربند ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے، تاہم اس آئینی عمل کا خیر مقدم کرنے کے بجائے کئی حلقوں نے فوج کو شدید تنقید کا نشانہ بنا کر بہت غیر مناسب اور غیر شائستہ زبان کا استعمال کیا۔
آرمی چیف نے کہا کہ فوج پر تنقید عوام اور سیاسی جماعتوں کا حق ہے لیکن الفاظ کے چناؤ اور استعمال میں احتیاط برتنی چاہیے، ایک جعلی بیانیہ بنا کر ملک میں ہیجان کی کیفیت پیدا کی گئی، اور اب اسی جھوٹے بیانیے سے راہ فرار اختیار کی جا رہی ہے۔
’فوج کی قیادت کبھی ملکی مفاد کے خلاف نہیں جاسکتی‘
ان کا کہنا تھا کہ میں آپ کو واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ فوج کی قیادت کچھ بھی کرسکتی ہے لیکن کبھی بھی ملک کے مفاد کے خلاف نہیں جاسکتی، کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ملک میں ایک بیرونی سازش ہو اور مسلح افواج ہاتھ پر ہاتھ دھری بیٹھی رہیں گی، یہ ناممکن ہے بلکہ گناہ کبیرہ ہے۔
پاک فوج کے سپہ سالار نے کہا کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ فوج اور عوام میں دراڑ ڈال دیں گے، وہ بھی ہمیشہ ناکام ہوں گے، فوج کی قیادت کے پاس اس نامناسب یلغار کا جواب دینے کے لیے بہت سے مواقع اور وسائل موجود تھے لیکن فوج نے ملک کے وسیع تر مفاد میں حوصلے کا مظاہرہ کیا اور کوئی بھی منفی بیان دینے سے اجتناب کیا لیکن یہ بات سب کو ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اس صبر کی بھی ایک حد ہے، میں اپنے اور فوج کے خلاف اس نامناسب اور جارحانہ رویے کو درگزر کرکے آگے بڑھنا چاہتا ہوں کیونکہ پاکستان ہم سب سے افضل ہے، افراد اور پارٹیاں تو آتی جاتی رہتی ہیں لیکن پاکستان نے ان شا اللہ ہمیشہ قائم رہنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ فوج نے تو اپنا کتھارسس شروع کر دیا ہے، مجھے امید ہے سیاسی جماعتیں اپنے رویے پر نظرثانی کریں گی، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں ہر ادارے اور سول سوسائٹی سے بھی غلطیاں ہوئیں، ہمیں ان غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے اور آگے بڑھنا چاہیے۔
آرمی چیف نے کہا کہ میں بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان آج سنگین معاشی مشکلات کا شکار ہے، اور کوئی بھی ایک پارٹی پاکستان کو اس معاشی بحران سے نہیں نکال سکتی جس کے لیے سیاسی استحکام لازم ہے، اب وقت آگیا ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز اپنی ذاتی انا کو ایک طرف رکھتے ہوئے ماضی کی غلطیوں سے سیکھیں اور آگے بڑھیں اور پاکستان کو اس بحران سے نکالیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں جمہوریت کی روح کو سمجھتے ہوئے عدم برداشت کی فضا کو ختم کرتے ہوئے پاکستان میں سچا جمہوری کلچر اپنانا ہے، 2018 کے انتخابات میں بعض پارٹیوں نے آر ٹی ایس کے بیٹھنے کو بہانہ بنا کر جیتی ہوئی پارٹی کو سلیکٹڈ کا لقب دیا، اور 2022 میں اعتماد کا ووٹ کھونے کے بعد ایک پارٹی نے دوسری پارٹی کو امپورٹڈ کا لقب دیا، ہمیں اس رویے کو رد کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ہار جیت سیاست کا حصہ ہے اور ہر جماعت کو اپنی فتح اور شکست کو قبول کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہوگا تاکہ اگلے انتخابات میں ایک امپورٹڈ یا سیلکٹڈ حکومت کے بجائے منتخب حکومت آئے، جمہوریت حوصلہ، برداشت اور عوام کے رائے عامہ کے احترام کا نام ہے، اگر پاکستان نے آگے بڑھنا ہے تو ہمیں عدم برداشت اور میں نہ مانوں کہ رویے کو ترک کرنا ہوگا۔
جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ معزز حاضرین، ہمارے لیے پاکستان نعمت خداوندی ہے، ہمارا وجود اس کی سلامتی اور بقا سے وابستہ ہے، اس کی آزادی اوراستحکام کے لیے شہدا نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں اور ہمیں ان پر فخر ہے، میں شہدا کے لواحقین کا شکریہ ادا کرتا ہوں، جنہوں نے اس تقریب میں آکر اس تقریب کو رونق بخشی، آپ سب پوری قوم کا سرمایہ افتخار ہیں، یہ تجدید عہد کا دن ہے، آئیے مل کر یہ عہد کریں کہ ہم اپنے شہدا اور غازیوں کی تابندہ تاریخ کو زندہ رکھیں گے، اور مل کر پاکستان کی بہتری اور ترقی میں اپنا کردا ادا کریں گے۔
’مادر وطن کی حفاظت اور سالمیت ہمارا اولین فرض ہے‘
ان کا کہنا تھا کہ مادر وطن کی حفاظت اور سالمیت ہمارا اولین فرض ہے اور رہے گا، جس کو نبھانے کے لیے ہم کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے، اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو، پاک فوج زندہ باد، پاکستان پائندہ باد۔
خیال رہے کہ یہ تقریب ہر سال 6 ستمبر کو جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) راولپنڈی میں 1965 کی جنگ کے شہید ہونے والے ہیروز کی قربانیوں کی یاد میں منعقد کی جاتی ہے، تاہم اس سال ملک بھر کے سیلاب متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے اسے ملتوی کردیا گیا تھا۔
قبل ازیں تقریب کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا، اس کے بعد حالیہ تباہ کن سیلاب اور اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر تباہی کے حوالے سے ایک ویڈیو بھی چلائی گئی، جس میں سیلاب متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا، اس ویڈیو میں پاک فوج کے ریسکیو، ریلیف اور بحالی کی کوششوں کو بھی دکھایا گیا۔
ایک دوسری فوٹیج چلائی گئی، جس میں پاک فوج کی جانب سے ملک بھر میں جاری تعلیم اور صحت جیسے اہم شعبوں میں کردار پر بھی روشنی ڈالی گئی۔
تقریب میں معروف گلوکار ساحر علی بگا نے ملی نغمہ ’دل اور قریب آجائیں گے‘ سنایا۔
پاک فوج کے ارتقائی سفر پر خصوصی ڈاکومینٹری ’عظم و ہمت کے 75 سال‘ بھی دکھائی گئی۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی جانب سے دنیا بھر میں امن کے حوالے سے کوششوں پر پاک فوج کو سراہنے کے بیان کو بھی خصوصی ویڈیو میں شامل کی گئی۔
ویڈیو میں بتایا گیا کہ بلوچستان میں ریکوڈک منصوبے کے حوالے سے پاکستان پر تقریبا 11 ارب ڈالر کا جرمانہ کیا گیا تاہم افواج پاکستان نے کوششیں کرکے تنازع کو حل کروایا اور مملکت خداداد کو جرمانہ ادا نہیں کرنا پڑا۔
خصوصی ڈاکومینٹری میں بتایا گیا کہ 2009 میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے پاکستان میں دہشت گردی کے عذاب سے چھٹکارا پانے کے لیے آپریشن راہ نجات اور بعد ازاں ضرب عضب شروع کیا گیا، اس کے بعد موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 2017 میں ردالفساد کا آغاز کیا گیا۔
یاد رہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پاک فوج کی کمان سنبھالنے کے 6 برس بعد اس مہینے کے آخر میں ریٹائر ہو رہے ہیں، نومبر 2016 میں ان کا تقرر بطور آرمی چیف کیا گیا تھا، بعد ازاں 2019 میں پارلیمان میں آرمی چیف کی مدت کے حوالے سے عدالتی حکم پر قانون سازی کے بعد انہیں تین سال کی توسیع دی گئی تھی