(تحریر: نذر حافی)
21 اگست 2019ء کو دنیا میں ایک بھونچال سا آیا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبرِ اعلیٰ سید علی خامنہ ای نے ایران کے صدر اور دیگر کابینہ ارکان کے ساتھ اہم ملاقات میں ببانگِ دُہل یہ کہا کہ "ہندوستانی حکومت کشمیری مسلمانوں کے خلاف طاقت کے استعمال سے باز رہے۔” دراصل اس بیان میں قیامت کا درد پوشیدہ تھا۔ حق بات تو یہ ہے کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے ختم ہونے کے بعد اس بیان نے مسئلہ کشمیر کو از سرِ نو حیات عطا کی۔ یہ سال 2019ء کی بات ہے کہ جب 5 اگست کو بی جے پی سرکار نے ریاستِ جموں و کشمیر کے تشخص پر شب خون مار دیا۔ وقتی طور پر شور شرابا بھی ہوا۔ پھر رات گئی اور بات گئی۔ عالمی میڈیا تو اپنی ہی ترنگ میں مشغول رہا۔ پاکستان کی طرف سے بھی چند بیانات ہی داغے گئے۔ خلاصہ یہی ہے کہ چکّی کے دو پاٹوں کے درمیان ملت کشمیر تنہا پِس کر رہ گئی۔ نوّے ہزار شہداء کی وارث، ریاستِ جموّں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے پر دنیا ٹس سے مس نہیں ہوئی۔
قابض فوج نے مقبوضہ کشمیر میں بدترین لاک ڈاون کا آغاز کیا، چادر و چار دیواری کا تقدس پامال ہوا، ساتھ ہی مواصلات، انٹرنیٹ و ٹیلی فون کی سہولیات منقطع کر دی گئیں۔ ذرائع ابلاغ کا یہاں پہلے ہی برائے نام کردار تھا اور اب تو میڈیا کے غبارے سے ہوا ہی نکل گئی۔ ایک طرف بھارتی ظلم و جبر اور دوسری طرف جہانِ اسلام میں نظریاتی قیادت کا بحران اور اسلامی وحدت کا فقدان۔! اس خلا کو پُر کرتے ہوئے 21 اگست 2019ء کو رہبرِ معظم سید علی خامنہ ای نے ایک بیان کے ذریعے ساری دنیا کو چونکا دیا۔ رہبرِ معظمؒ کے علاوہ کسی اور میں اتنا دم خم ہی نہیں تھا کہ اُس کی بات کو زمانہ اتنی سنجیدگی سے لیتا۔ سو ہم نے بھی اپنے رہبر، پیشوا اور قائد کے اس فرمان کے بعد مقبوضہ کشمیر میں جاری ظُلم کو دیکھ کر خاموش رہنے کی کراہت کو پہلی مرتبہ اتنی شدّت کے ساتھ محسوس کیا۔
دوست و احباب کے درمیان اس مسئلے پر خاموشی کو توڑنے کی بات چل پڑی۔ بات یہی تھی کہ بات کون کرے!؟ مسئلہ یہی تھا کہ مسئلہ اٹھائے کون!؟ رہبرِ معظم کے فرمان کے بعد حجّت تو تمام ہوچکی تھی، تاہم کسی کو کچھ سُجھائی نہیں دے رہا تھا۔ بالاخر 27 جون 2020ء کو کچھ ہم فکر دوستوں نے ایران کے شہر قم المقدس میں سپورٹ کشمیر انٹرنیشنل فورم کی بنیاد رکھی۔ سمجھنے والے بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ یہ فورم اپنے وجود میں لبیک یا خامنہ ای کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اس کے بعد رہبر معظم کے فرمان کے مطابق ہم لوگ اپنی بساط اور توان کے مطابق کشمیر کے مظلوموں کے حق میں آواز بلند کرنے کیلئے کھڑے ہوگئے۔ ہمارا پڑاوٴ آج بھی بالکل وہیں پر ہے، جہاں ایک طرف برطانوی سامراج، مسٹر ریڈ کلف، جنرل گورسی اور مسٹر مودی جیسے جلاد تیغ بکف ہیں اور دوسری طرف مظلوم و محکوم ملّتِ کشمیر نوحہ کناں ہے۔ ہمارا اوّل و آخر منشور یہی ہے کہ مظلوم کے حامی بنو، خواہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو اور ظالم کے خلاف ہو جاو، خواہ وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔
ہم بخوبی جانتے ہیں کہ سامراج نے برِّصغیر میں داخلے کے وقت جو بربادی کی تھی، اُس نے اُس سے زیادہ تباہی یہاں سے نکلتے ہوئے مچائی۔ ہمارے ہاں برادر کُشی، لسانی و علاقائی نفرت اور مذہبی منافرت کا رُجحان نہ تھا۔ "لڑاو اور حکومت کرو” سے "اُلجھاو اور نکل جاو” تک یہ سب برطانوی سامراج کے کارنامے ہیں۔ رہبرِ معظم نے اپنے اس خطاب میں یہ بھی فرمایا تھا کہ "کشمیر کی موجودہ صورت حال برطانیہ کے ان شیطانی اقدامات کا نتیجہ ہے، جو اس نے برصغیر کو چھوڑتے وقت انجام دئیے تھے۔” یہ ہم میں سے کون نہیں جانتا کہ برطانوی سامراج، سارا ملبہ کشمیر کی ڈوگرہ حکومت پر ڈال کر خود تو نکل گیا، لیکن یہ سوال ہر زمانے میں اٹھایا جاتا رہے گا کہ اگر کشمیر کو بھارت کے قبضے میں دینے کا سبب ڈوگرہ راج تھا تو پھر حیدر آباد، دکن اور جوناگڑھ جیسی ریاستیں پاکستان میں کیوں شامل نہ ہوسکیں۔؟
اس وقت جہاں انسانی حقوق کے ٹھیکیدار خاموش ہیں، وہیں جہانِ اسلام کے کھڑپینچ بھی او آئی سی کی صورت میں عیش و نوش میں مصروف ہیں۔ آزاد کشمیر کے مقتدر حلقے اپنی موج مستیوں میں کسی طرح بھی عرب بادشاہوں سے پیچھے نہیں۔ باقی رہا پاکستان تو پاکستان کے اعلیٰ حکام ہر سال کشمیر کی آزادی کیلئے ایک دو ترانے ریلیز کروا کر اپنا فریضہ ادا کر دیتے ہیں۔ اسی طرح ترکی، سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں کا بھارت اور اسرائیل کے ساتھ معاشقہ اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ ماضی میں جو تشدد آمیز حربے فلسطینیوں پر آزمائے گئے، اب وہی کشمیریوں پر آزمائے جا رہے ہیں۔ جس طرح اسرائیل نے مختلف ہتھکنڈوں سے فلسطینیوں کی زمینیں ہتھیائی تھیں، اسی طرح اب ہندوستان بھی کشمیریوں کی زمینوں پر اپنا ہاتھ صاف کر رہا ہے۔ حالات کی کشیدگی کے باعث حضرت امام خمینیؒ اور علامہ اقبال ؒ کی مادرِ وطن سے نقل مکانی کرنے والے کشمیریوں کی زمینیں اب بھارتی حکومت کی ملکیت قرار پاتی ہیں۔ یاد رہے کہ مقامی تجارت، صنعت و حرفت اور باغات کو بھی تباہ کر دیا گیا ہے، تاکہ لوگ مجبور ہو کر اپنی زمینیں اور جائیدادیں فروخت کرتے پھریں۔
لائن آف کنٹرول کے اردگرد سول آبادی بھی بھارتی گولہ باری کے باعث غیر محفوظ ہے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے کشمیریوں کے خلاف ہندوستان کی ثقافتی یلغار تھمنے کا نام نہیں لیتی۔ کشمیر کے حوالے سے ہندوستان کا اسٹریٹیجک نیٹ ورک، اقوامِ متحدہ سمیت دنیا کے متعدد ممالک میں فعال ہے۔ اسی لئے تو خلیجی ریاستوں اور یورپی یونین میں بھارتی لابی کا طوطی بولتا ہے۔ مضبوط بھارتی پروپیگنڈہ نیٹ ورک کا محکوم و مجبور کشمیریوں کے پاس کوئی توڑ نہیں۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ ہمارے جیسے لوگ لگا ہی نہیں سکتے۔ یعنی ساحل پر بیٹھ کر دریا کی گہرائی کی پیمائش ممکن ہی نہیں۔ راہِ حل صرف یہی ہے کہ تمام انصاف پسند انسان، خواہ دنیا کے کسی بھی خِطّے میں رہتے ہوں، وہ کشمیریوں کے سفیر اور وکیل بن جائیں۔ اس امر کیلئے دنیا کے گوش و کنار میں کشمیریوں کی مظلومیت کی صدا کو مختلف زبانوں میں پہنچانا وقت کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس فریضے کے واجب ہونے میں ذرّہ بھر شک نہیں۔ سو ہم اپنے اس یقین کے مطابق اپنے فریضے کی ادائیگی میں دو سال مگن رہے۔
خدا کا شکر ہے کہ اُس نے ان دو سالوں میں ہمیں مظلوموں کے بارے میں بات کرنے کی توفیق عطا کی۔ اسی طرح ان تمام دوست و احباب اور بزرگان کا بھی شکریہ، جنہوں نے گفتگو، مکالمے، تجزیہ و تحلیل اور فکری بیداری کے اس سفر میں ہمیں تنہائی کا احساس نہیں ہونے دیا۔ دو سال کے بعد ہم نے اس فورم کی فعالیت کو اب ایک مجلّے کی صورت میں منسجم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس مجلے کا حرف حرف آپ کو مظلوم کشمیریوں کیلئے کچھ کرنے اور سوچنے کا جذبہ عطا کرے گا۔ دراصل یہ مجلّہ رہبر معظّم کی آواز پر لبیک بھی ہے اور انسانی ہمدردی کے راستے میں ہمارے فکری سفر کی مکتوب تاریخ بھی۔ سچ پوچھیں تو ہمارے نزدیک یہ مجلّہ صرف ایک مجلّہ ہی نہیں بلکہ مظلوم کشمیریوں کی محبت میں ایک دھڑکتا ہوا دل ہے۔ ہم آپ کی تلاش میں ایک دھڑکتا ہوا دل لے کر نکلے ہیں۔ مظلوموں کی محبت میں دھڑکتا ہوا دل۔۔۔ بقول شاعر
یہ دھڑکتا ہوا دل اس کے حوالے کر دوں
ایک بھی شخص اگر شہر میں زندہ مل جائے
نوٹ:ادارہ کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔