Breaking News
Home / کالمز / کابل حملہ اور چین افغان تعلقات

کابل حملہ اور چین افغان تعلقات

(ترتیب و تنظیم: علی واحدی)

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں روسی سفارت خانے پر داعش کا حملہ نیز ایک ایسے ہوٹل کو نشانہ بنانا، جہاں چینی شہری مقیم تھے، اس بات کی نشاندھی کرتا ہے کہ اس منصوبے کو امریکا کی بھرپور حمایت حاصل تھی اور اس کا مقصد افغانستان میں چین کے منافع بخش اقتصادی منصوبوں کو بند کرنا ہے۔ اسلام ٹائمز کے مطابق چین کی وزارت خارجہ نے افغانستان میں موجود اپنے شہریوں کو افغانستان چھوڑنے کا کہہ دیا ہے۔ چینی وزارت خارجہ نے یہ بھی کہا کہ کابل میں ایک گیسٹ ہاؤس پر حالیہ حملے میں 5 چینی شہری زخمی ہوئے۔ داعش نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔

اس وقت یہ معلوم نہیں کہ چین، افغانستان میں اپنے شہریوں کی سلامتی کے لیے مستقبل میں کیا منصوبہ رکھتا ہے۔ کیا وہ مستقل بنیادوں پر افغانستان واپس نہیں آئیں گے یا ان کا یہ فیصلہ عارضی ہے اور طالبان انتظامیہ کی جانب سے حفاظتی اقدامات بہتر ہونے اور چینی عملے کی حفاظت کی ضمانت دینے کے بعد ان کے فیصلے میں تبدیلی آئے گی اور وہ کابل واپس آجائیں گے۔ تاہم جہاں تک داعش اور اس کے بڑے حامی امریکہ کا تعلق ہے، ان کا ہدف افغانستان میں چینیوں کی موجودگی اور سرگرمیوں کو ختم کرنا ہے۔

امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بارہا اس بات پر تاکید کی ہے کہ امریکی فوج کے مکمل انخلاء کے ساتھ ہی افغانستان کو روس اور چین کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ یہ بیان ایک سر پھرے سیاست دان کا کنفیوز اور غیر دانشمندانہ موقف نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے امریکی پالیسی سازوں کی افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے دیرینہ تشویش ہے۔ امریکہ کبھی نہیں چاہتا کہ چین، روس اور خطے کے دیگر ممالک افغانستان میں امریکی خلا پر کریں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے پہلے داعش کو لانچ کرنے کے منصوبے کو آپریشنل مرحلے تک پہنچایا، اس کے بعد افغانستان سے اپنا انخلا مکمل کیا۔ امریکہ کا یہ اقدام اس لئے تھا کہ داعش، ایک پراکسی قوت کے طور پر، افغانستان میں بالواسطہ یا بلاواسطہ نیز بہت کم قیمت پر امریکی تسلط کے لئے کام کرتی رہے(گویا یہ امریکہ کا بی پلان تھا)۔

اس جائزے کی بنیاد پر کابل میں روسی سفارت خانے پر داعش کا حملہ اور اس ہوٹل کو نشانہ بنانا، جہاں چینی شہری ٹھہرتے ہیں، واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ اس منصوبے کو امریکہ کی بھرپور حمایت حاصل ہے اور اس کا مقصد چین کے منافع بخش اقتصادی منصوبوں کو افغانستان میں بند کرنا ہے۔ اس وقت چین عینک نامی تانبے کی کان پر کام کر رہا ہے۔ اسی طرح وہ وہ افغانستان کے شمال میں تیل نکالنے کی بھی کوشش کر رہا ہے۔ کابل میں جمہوری حکومت کے دور میں بھی عینک نامی تانبے کا منصوبہ چینیوں کو سونپا گیا تھا، لیکن بدامنی، حکومت کی بدانتظامی نیز عدم تحفظ نے چین کے ٹیکنیکل ماہرین کو اس منصوبے کو مکمل کرنے کی اجازت نہیں دی۔ قابل ذکر ہے کہ ملک میں بدامنی، کمزور سکیورٹی اور عدم تحفظ کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ تھا، کیونکہ اس وقت افغانستان میں سکیورٹی کی ذمہ داری امریکہ اور نیٹو کے پاس تھی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ داعش گروہ امریکہ کی جانب سے افغانستان میں عدم تحفظ پیدا کر رہا ہے اور انہی اہداف کو حاصل کر رہا ہے، جس کا تعین واشنگٹن نے کیا ہے۔ ایران پر دباؤ ڈالنے کے لئے شیعوں کو قتل کرنا اور ایران اور امارت اسلامیہ کے درمیان تعلقات کو تباہ کرنے کے لیے سرحدی اور فرقہ وارانہ ماحول بنانا، نیز ماسکو اور کابل کے درمیان تعلقات کو خراب کرنے کے لیے کابل میں روسی سفارت خانے کو نشانہ بنانا، اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔ دوسری طرف چینی شہریوں پر حملے کا مقصد بھی افغانستان میں بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کو آگے بڑھانے کے بیجنگ کے اقتصادی منصوبوں کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنا ہے۔

کابل میں روسی سفارت خانے کو نشانہ بنانا، تاکہ ماسکو-کابل تعلقات میں روڑے اٹکائے جائیں۔ روسی سفارتکاروں پر حملے کا ایک مقصد طالبان انتظامیہ کو مایوس کرنا اور ان کی طاقت، ارادے اور صلاحیت کے بارے میں عدم اعتماد کا احساس پیدا کرنا ہے۔ طالبان میں یہ نفسیاتی خوف پیدا کرنا کہ وہ داعش کا مقابلہ نہیں کرسکتے، امریکہ کی سوچی سمجھی سازش ہے۔ اس موقع پر طالبان کی امارت اسلامیہ حکومت کو یہ ثابت کرنی چاہیئے کہ وہ سکیورٹی فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور امریکہ کے منصوبوں کو بے اثر کرسکتی ہے۔ طالبان کو اب دنیا کو یہ پیغام دینا ہوگا کہ وہ امریکہ کی پراکسیوں اور جنگجوؤں کو افغانستان میں عدم تحفظ اور عدم استحکام کی طرف لے جانے کی اجازت نہیں دیگی اور ملک کی ترقی و پیشرفت کے بڑے منصوبوں کی تکمیل میں کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کرے گی۔

چین کو بھی اس میدان میں طالبان کی امارت اسلامیہ کی مدد کرنی چاہیئے اور امریکہ کے لئے میدان خالی کرکے پسپائی کی پوزیشن میں نہیں آنا چاہیئے۔ روس کو امریکی دہشت گردی کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالنا چاہیئے، کیونکہ یہ نہ صرف اقتصادی لحاظ سے اہم ہے بلکہ پورے خطے میں سلامتی اور استحکام کے لیے بھی بہت اہم ہے۔ آج اگر داعش، ایک امریکی منصوبے کے طور پر، افغانستان کی سلامتی کو خطرے سے دوچار کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، تو یہ سلسلہ افغان سرحدوں تک محدود نہیں رہے گا بلکہ خطے کے دیگر ممالک میں بھی پھیل جائے گا اور وسطی ایشیائی ممالک سمیت چین اور قفقاز کے خطرات میں گھرے علاقوں کو بھی غیر محفوظ بنا دے گا۔بشکریہ اسلام ٹائمز

نوٹ:ادارہ کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Check Also

حزب اللہ کے نصراللہ اسرائیل کے خلاف کب تک اپنے آپ کو روکے رکھیں گے؟

(شہاب الدین صدیقی) غزہ پر اسرائیلی حملے کے پہلے چار ہفتوں تک سید حسن نصراللہ …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے