Breaking News
Home / پاکستان / ’پاکستان میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ’سیاسی سیز فائر‘ کی ضرورت ہے‘سینیٹر مشاہد حسین سید

’پاکستان میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ’سیاسی سیز فائر‘ کی ضرورت ہے‘سینیٹر مشاہد حسین سید

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ ’پاکستان میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ’سیاسی سیز فائر‘ کی ضرورت ہے۔‘ ’اگر سیاست دانوں نے مل کر اتفاق رائے سے فیصلے نہ کیے تو پھر یہ فیصلے کوئی اور کرے گا۔ ‘ اردو نیوز کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ ’آرمی چیف نے قومی اتفاق رائے کا جو بیان دیا ہے وہ ایک اچھا بیان ہے میں اس کی تائید کرتا ہوں۔‘انہوں نے کہا کہ ’اس وقت ضرورت ہے پاکستان میں سیاسی سیزفائر کیا۔

 

پولیٹیکل سیزفائر یعنی کہ حزب اختلاف اور حزب اقتدار کے درمیان۔‘ مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ ’اس میں معیشت ہو، توانائی ہو، دہشت گردی اور انتہا پسندی ہو۔ ان ایشوز پر تو میرا خیال ہے کوئی ابہام نہیں ہے۔‘ ’اگر ہمارا فیٹف پر، جنرل باجوہ کو توسیع دینے اور موجودہ آرمی چیف پر اتفاق رائے ہو سکتا ہے۔ آئی ایم ایف کے ذریعے پاکستان کی معیشت سنبھالنے پر بھی اتفاق ہے تو یہ تو بنیادی مسئلہ ہے اور عوام بھی یہی چاہتے ہیں۔‘ جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ اتفاق رائے کیسے ہوگا تو مشاہد حسین کا کہنا تھا کہ یہی تو پاکستان کی سیاسی قیادت کا امتحان ہے کہ ان کے درمیان اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے عوام پریشان ہیں۔ وہ کوئی حل تلاش کرنے کا کہہ رہے ہیں۔‘ ’لوگ کہہ رہے ہیں کہ مشکلات میں اضافہ نہ کریں بلکہ مشکل فیصلے کریں اور اتفاق رائے سے کریں۔

 

اگر اتفاق رائے تین چار ایشوز پر ہو گیا ہے تو یہ پاکستان کی سیاسی قیادت چاہے حزب اختلاف میں ہو یا حزب اقتدار میں ہو وہ آرام سے بیٹھیں۔‘ مسلم لیگ ن کے رہنما نے مزید کہا کہ ’یہ ان کے مفاد میں ہے کیونکہ اگر اتفاق رائے نہیں ہوگا اور خلا ہوگا تو پھر یہ خلا کوئی اور پورا کرے گا۔‘ ’سیاست دان اس موقع پر اپنا کردار ادا نہیں کر سکتے اور مل بیٹھ کر حل نہیں نکالتے تو پھر کوئی اور نکالے گا کیونکہ حل تو نکالنا ہے۔ان کے مطابق ’یہ انسانوں کا بنایا ہوا مسئلہ ہے باہر سے نہیں آیا، ہمارے ہاتھ میں ہے یہ بڑا امتحان ہے پاکستان کی سیاسی قیادت کا بھی اور دانشوروں کا بھی۔‘ ’تمام سیاسی قیادت کو معاشی اور اقتصادی چیلنجز اور دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے مل بیٹھنا ہی ہوگا۔ یہ تمام بحرانوں کا حل ہے۔

 

‘قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلوں پر مشاہد حسین کا کہنا تھا کہ ’ماضی کی مذاکرات کی پالیسی کو تبدیل کرتے ہوئے عوامی جان و مال کا تحفظ یقینی بنانے کا فیصلہ کیا گیا تاہم ہمیں اپنے فیصلوں کو واضح کرنا ہوگا تاکہ ان میں امتیاز نظر نہ آئے۔‘ ’جو ماضی کی پالیسی تھی گفت و شنید کی، لگتا ہے کہ اب اس سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے عوام کی سلامتی اور ان کے جان و مال کا تحفظ اولین ذمہ داری ہے ریاست کی وہ ہم پورا کریں گے۔‘ مشاہد حسین کہتے ہیں کہ ’میں دیکھ رہا ہوں کہ سٹریٹجک وضاحت ہونی چاہیے۔ ایک طرف گوادر میں جب احتجاج ہوتا ہے تو ان کو تو ڈنڈے مارے جاتے ہیں حالانکہ پرامن احتجاج ہوتا ہے۔‘انہوں نے کہا کہ ’جبکہ دوسری طرف جب کوئی ریاست کی رٹ کو چیلنج کرتا ہے تو ان سے تو مذاکرات ہوتے ہیں۔‘

 

’طالبان کے ساتھ ماضی میں بھی کبھی مذاکرات اور کبھی ضرب عضب جیسے آپریشن کیے گئے۔ پالیسی ایک اور مستقل ہونی چاہیے۔ جب آپ بار بار فیصلے تبدیل کرتے ہیں تو اس سے عوام بھی تذبذب کا شکار ہوتے ہیں۔‘ مسلم لیگ ن کے رہنما کہتے ہیں کہ ’فیصلہ سازوں کو ایک بات ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ملک میں سیاسی انداز تبدیل ہو رہے ہیں اب لوگ بغیر کسی بڑی سیاسی قیادت کے مقامی سطح پر حقوق کے لیے کھڑے ہو رہے ہیں۔‘ ’مالاکنڈ، گوادر اور کراچی میں عوامی اجتماعات اس کی بڑی مثال ہیں۔ اس لیے جو بھی فیصلہ کریں اس حوالے سے عوامی رائے عامہ کو بھی سامنے رکھیں۔‘پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ تناؤ اور دوطرفہ بیانات کے حوالے سے مشاہد حسین سید نے کہا کہ ’میرا خیال ہے کہ ہماری طرف سے رویہ ٹھیک ہونا چاہیے۔‘

 

’افغانستان ہمارا دشمن نہیں ہے، اس میں مشکلات ہیں اور افغانستان کی موجودہ حکومت کا ہر علاقے میں مکمل کنٹرول نہیں ہے۔ جس طرح ہمارے ہاں بھی بلوچستان کے کچھ علاقوں میں دہشت گردی ہے اور ہمارا ایران سے مسئلہ رہتا ہے۔‘ مشاہد حسین کے مطابق ’ان کا بھی سرحد کے ساتھ کئی مرتبہ تناؤ ہوتا ہے تو اس حوالے سے خاموش سفارت کاری کی ضرورت ہے۔ یہ بیان بازی اور جارحانہ بیانات نہ پاکستان اور افغانستان کے حق میں اور نہ ہی ہمارے مفاد میں ہیں۔‘ ’ہم وہ زبان نہ استعمال کریں جو امریکہ ایک زمانے میں ہمارے خلاف استعمال کرتا رہا ہے یا انڈیا کبھی چھوٹے ممالک کے خلاف استعمال کرتا ہے۔‘ انہوں نے تجویز دی کہ ’جس طرح انڈیا اور پاکستان کے درمیان ہاٹ لائن موجود ہے اسی طرح پاکستان اور افغانستان کے درمیان لائن بنائی جائے۔‘

 

’جب بھی کوئی مسئلہ ہو تو اس پر بات ہوسکے۔ انڈیا کے ساتھ کنڑول لائن پر فائر بندی ہے تو کابل اور قندھار میں موجود لوگوں کے ذریعے افغانستان کے ساتھ بھی بات چیت کرکے معاملات کو حل کیا جا سکتا ہے۔ ‘ افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے سوال پر مشاہد حسین سید نے کہا کہ ’گرم تعاقب کی بات ہی نہ کریں۔ گرم تعاقب کی بات وہ ممالک کرتے ہیں جو اپنی بالادستی قائم کرنا چاہتے ہیں۔‘ ’ایسے ممالک کہتے ہیں کہ ہم بڑی طاقت ہوتے ہوئے اپنی قوت کا مظاہرہ کریں گے۔ جیسے امریکہ نائن الیون کے بعد چھوٹے ممالک کے حوالے سے گرم تعاقب کی بات کرتا تھا جیسے انڈیا کرتا رہا ہے پاکستان کے ساتھ۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’میانمار میں انہوں نے گرم تعاقب کیا بھی۔ تو ہم ایسی بات نہ کریں یہ زبان ہی نہ استعمال کریں یہ ہمیں زیب نہیں دیتا۔

 

ہم کوئی سامراجی قوت نہیں ہیں۔‘ ’ہم ایک برادر اسلامی ملک کے ساتھ بات کر رہے ہیں۔ اس لیے ہمیں برابری کی بنیاد پر عزت و احترام کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے۔‘پاکستان کی معاشی مشکلات اور اقتصادی سفارت کاری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ ’آپ کے جو قریبی دوست ہیں ساتھی ہیں انھوں نے ماضی میں بھی مدد کی اور اب بھی مدد کریں گے۔‘ انہوں نے کہا کہ ’ان میں چین اور سعودی عرب سرفہرست ہیں جنہوں نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔‘ ’مجھے یاد ہے 1998 میں جب ہم نے ایٹمی دھماکے کیے میں اس وقت وزیر اطلاعات اور حکومت کا ترجمان تھا اس وقت ہمارے اوپر پابندیاں لگ گئیں سعودی عرب نے فوراً تیل کی سہولت دے دی۔‘

 

مشاہد حسین کے مطابق ’اس سے ہمیں زرمبادلہ خرچ نہیں کرنا پڑا اور اس کے ساتھ ساتھ بڑی امداد بھی دی۔ اکیسیویں صدی میں مشکلات آئیں تو سعودی عرب سب سے پہلے پیسے اور اقتصادی امداد دینے کو تیار ہے۔‘ ’چین اور سعودی عرب کے علاوہ بھی بین الاقوامی برادری بھی میں سمجھتا ہوں کہ جو آئی ایم ایف ہے یا ورلڈ بینک ہے وہ بھی چاہتے ہیں کہ پاکستان کے حالات سنبھلیں۔‘ ان کے مطابق ’کوئی عدم استحکام نہیں چاہتا اس خطے میں جو مغرب کے پاکستان کے ساتھی ہیں۔

 

تو وہ بھی چاہیں گے کہ اس کو آگے لے کے چلیں۔‘ ’میرا نہیں خیال کہ کوئی ایسی صورت حال آئے گی کہ پاکستان دیوالیہ ہونے کی طرف جائے، کیونکہ پاکستان کے ساتھ اس وقت عالمی برادری تعاون کر رہی ہے۔‘ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہ ’پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات اس وقت معمول پر ہیں کیونکہ دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔‘ ’تاہم سیلاب میں امریکہ نے پاکستان کے ساتھ وہ تعاون نہیں کیا جتنا اسے کرنا چاہیے تھا۔ جنیوا کانفرنس میں اگر پاکستان نے اپنا مقدمہ دلیری کے ساتھ پیش کیا تو امید ہے کہ اہداف حاصل ہو جائیں گے۔ ‘

 

 

Check Also

پاسپورٹس میں سابقہ شوہر کے نام کا باکس بھی ہو گا: ڈی جی پاسپورٹس

ڈی جی پاسپورٹس مصطفیٰ جمال کا کہنا ہے کہ شادی شدہ خاتون کا پاسپورٹ میں …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے