تحریر:ملیحہ لودھی
مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی زندگی کا ہر پہلو ہی بھارتی حکمران جماعت بی جے پی کا ہدف بنا ہوا ہے۔
سال 2022ء میں بھارتی اقدامات کا مقصد کشمیر کے آبادیاتی منظرنامے میں تبدیلیاں کرکے وہاں کی مسلمان آبادی کو بے اختیار کرنا اور منظم انداز میں کشمیری ثقافت، زبان اور مذہبی شناخت کو ختم کرنا رہا۔
لوگوں کی املاک پر قبضے کیے گئے اور ایسے قوانین متعارف کروائے گئے جن کے ذریعے مقامی لوگوں سے زمینیں لے کر غیر مقامی افراد کو دی جائیں گی۔ میڈیا پر پابندیاں ہیں اور صحافیوں کو قید کیا جارہا ہے اور انہیں بیرونِ ملک جانے سے روکا جارہا ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بشمول ماورائے عدالت قتل اور تشدد بھی بغیر کسی روک ٹوک کے جاری ہے جبکہ کُل جماعتی حریت کانفرنس کی پوری قیادت گرفتار ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کے اس سب سے زیادہ عسکری علاقے میں مزید نیم فوجی دستے تعینات کیے گئے ہیں۔
کشمیر میں ہونے والے جبر کی اس سے زیادہ عبرتناک مثال شاید ہی دنیا میں کہیں نظر آئے۔ پھر بھی اس سنگین صورتحال پر وہ ممالک بھی خاموشی اختیار کیے رکھتے ہیں جو انسانی حقوق کے علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اس دوران بھارتی عزائم کو بے نقاب کرنے کے لیے پاکستان کی بین الاقوامی کوششیں بھی بہت اچھی نہیں کیونکہ ملک اندرونی طور پر متعدد بحرانوں کا شکار ہے۔ یوں کشمیر کے حوالے سے پاکستان کی خارجہ پالیسی صرف اقوامِ متحدہ کو خطوط بھیجنے تک ہی محدود ہے۔
اگرچہ مقبوضہ کشمیر میں 7 دہائیوں سے زیادہ عرصے سے بھارت کا جابرانہ قبضہ برقرار ہے لیکن 5 اگست 2019ء کو کیے گئے بھارت کے یکطرفہ اقدام نے کشمیر کی پُرتشدد تاریخ میں ایک سفاک باب کا اضافہ کردیا۔
بھارتی حکومت نے غیر قانونی طور پر ریاست جموں و کشمیر کا الحاق کیا، اسے تقسیم کیا اور اسے بھارتی یونین میں ضم کردیا۔ یہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ کشمیر پر ایسی 11 قراردادیں موجود ہیں۔ خاص طور پر یہ سلامتی کونسل کی قرارداد 38 کی خلاف ورزی تھی جس کے پیرا 2 میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ تنازع کا کوئی بھی فریق کشمیر کی صورتحال میں کوئی مادی تبدیلی نہیں لاسکتا۔
کشمیر میں طویل لاک ڈاؤن ہے جبکہ مواصلاتی نظام کو بند کردیا گیا، فوجی محاصرہ سخت کردیا گیا، عوامی اجتماع پر پابندی عائد کردی گئی، میڈیا کو خاموش کردیا گیا اور کشمیری رہنماؤں بشمول بھارت نواز سیاستدانوں کو اس اقدام کے خلاف عوامی بغاوت سے روکنے کے لیے جیلوں میں بند کردیا گیا جس اقدام نے کشمیری عوام کو ان کے حقوق سے محروم کردیا۔
اس وقت سے بی جے پی حکومت نے کشمیریوں کو بے اختیار کرنے، حق رائے دہی سے محروم کرنے اور کشمیر کی مسلم شناخت کو تبدیل کرنے کے لیے کئی طرح کے انتظامی، آبادیاتی اور انتخابی اقدامات کیے ہیں۔ اس کے متعدد اقدامات مقبوضہ فلسطین میں اسرائیل کی آبادکار پالیسیوں کی نقل ہیں۔
مئی 2022ء میں ہندوستان کے حد بندی کمیشن نے نئی انتخابی حلقہ بندیوں کے منصوبے کا اعلان کیا تھا جس کا مقصد جموں کو زیادہ نمائندگی دینا ہے تاکہ جموں و کشمیر اسمبلی میں مسلمانوں کی نمائندگی کو کم کیا جاسکے اور سیاسی توازن کو ہندوؤں کے حق میں کیا جاسکے۔ مسلمان جموں و کشمیر کی آبادی کا 68 فیصد سے زیادہ ہیں جبکہ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق ہندو 28 فیصد کے قریب ہیں۔ بی جے پی حکومت حلقہ بندیوں کے منصوبے کے ذریعے مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنا چاہتی ہے۔
بھارت کی طرف سے متعارف کروائے گئے نئے ڈومیسائل قوانین کے ذریعے بھی آبادیاتی تبدیلیوں کی کوشش کی گئی ہے۔ غیر کشمیریوں کو 34 لاکھ سے زیادہ نام نہاد ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کیے گئے ہیں۔ یہ افراد 2019ء میں بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کی منسوخی کے بعد ڈومیسائل کے اہل ہوئے تھے۔ جولائی 2022ء میں مقبوضہ وادی میں چیف الیکشن آفیسر نے کسی بھی ہندوستانی شہری کو، یہاں تک کہ عارضی رہائشیوں کو بھی کشمیر میں ووٹنگ کا حق دینے کا اعلان کیا تھا۔
اس سے تقریباً 25 لاکھ اضافی ووٹر جن میں غیر مقامی بھی شامل ہیں، انتخابی فہرستوں میں شامل ہوجائیں گے اور کُل ووٹروں کی تعداد میں 30 فیصد اضافہ ہوجائے گا۔ حلقہ بندیوں کے منصوبے کی طرح اس اعلان نے بھی کشمیر میں غصے اور ناراضگی کو ہوا دی ہے۔
کُل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنماؤں نے اس کی سخت مذمت کی اور روایتی طور پر بھارت کے حامی سابق وزرائے اعلیٰ اور سیاستدانوں نے بھی ایسا ہی کیا۔ فاروق عبداللہ کی جماعت نیشنل کانفرنس نے کہا کہ ’غیر مقامی لوگوں کی شمولیت جموں و کشمیر کے لوگوں کو حق رائے دہی سے محروم کرنے کی ایک واضح چال‘ ہے۔
لیکن ان میں سے کوئی چیز بھی مودی حکوت کے اقدامات کو نہیں روک سکی۔ مودی حکومت کے اقدامات صرف انتخابی مہم جوئی تک محدود نہیں ہیں۔ گزشتہ سال بی جے پی حکام نے جموں و کشمیر وقف بورڈ اور پورے خطے میں اس کی تمام جائیدادوں پر قبضہ کرلیا۔
یوں مقبوضہ وادی میں مزارات سمیت مسلمانوں کے تمام اہم مذہبی مقامات کا کنٹرول حاصل کرنے کی کوششیں شروع ہوگئیں۔ مذہبی رہنماؤں اور اسلامی اسکالروں کو گرفتار کیا گیا اور پورے مقبوضہ کشمیر میں مساجد میں نماز پر پابندی عائد کردی گئی۔
کشمیر میں 2019ء میں جماعت اسلامی پر پابندی عائد کی گئی تھی، اب حالیہ دنوں میں جماعت اسلامی پر کریک ڈاؤن کی آڑ میں حکام نے کروڑوں روپے مالیت کی جائیداد ضبط کرلی ہے۔ اس میں وہ گھر بھی شامل ہے جو کبھی حریت رہنما سید علی گیلانی کے زیرِ استعمال تھا۔ سید علی گیلانی کا انتقال 2021ء میں ہوا تھا اور بھارت نے ان کے باقاعدہ جنازے کی اجازت بھی نہیں دی تھی۔
کشمیری ثقافت پر ہونے والے بی جے پی کے حملوں میں اردو کی حیثیت کو ختم کرنا بھی شامل ہے۔ 100 سال سے زیادہ عرصے تک اردو جموں و کشمیر کی سرکاری زبان تھی لیکن 2020ء میں اردو کی خصوصی حیثیت کو قانون سازی کے ذریعے ختم کردیا گیا جس نے جموں و کشمیر میں اردو اور انگریزی کے علاوہ ہندی، کشمیری اور ڈوگری کو سرکاری زبانیں بنا دیا۔ اب کشمیری زبان کے رسم الخط کو نستعلیق سے دیوناگری رسم الخط میں تبدیل کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
لیکن ان میں سے کوئی بھی اقدام عالمی برادری کی توجہ حاصل نہیں کرسکا۔ ہاں انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے کشمیر میں میڈیا پر پابندیوں، بغاوت اور انسدادِ دہشتگردی کے قوانین کے تحت صحافیوں کی گرفتاری اور خاص طور پر 2020ء کی میڈیا پالیسی کے بعد پیدا ہونے والے خوف کے ماحول کی ضرور مذمت کی۔
فروری 2022ء میں ہیومن رائٹس واچ نے آزاد میڈیا پر شدید کریک ڈاؤن کی مذمت کی اور کشمیر میں ’صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو ہراساں کیے جانے، دھمکیاں دینے اور ان کے خلاف کارروائیوں‘ پر آواز اٹھائی۔ ستمبر 2022ء میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے میڈیا پر پابندیوں اور اظہار رائے کی آزادی پر بڑے پیمانے پر پابندیوں کے بارے میں تفصیل بتاتے ہوئے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ کشمیر پریس کلب کو بند کردیا گیا ہے۔
بی جے پی حکومت جموں و کشمیر میں انتخابات کے لیے شدید جبر اور آبادیاتی تبدیلیوں جیسے حربے اختیار کرنا چاہتی ہے۔ اس کا مقصد اگست 2019ء کے اقدام کو ’جائز‘ بنانا ہے اور خود کو یہ دعویٰ کرنے کے قابل بنانا ہے کہ جموں و کشمیر میں حالات ’معمول‘ پر ہیں۔ لیکن اس منصوبے کی حمایت کے لیے بھارت نواز کشمیری رہنماؤں کو آمادہ کرنے کی کوششیں بھی ناکام ہوگئیں ہیں۔ حلقہ بندیوں کے منصوبے اور ووٹنگ کے نئے قوانین کے خلاف کشمیریوں کی زبردست مخالفت کے پیش نظر انتخابات ہونا مشکل نظر آتا ہے اور پھر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر انتخابات ہوتے ہیں تو کیا وہ قابلِ اعتبار ہوں گے۔
بھارت کی جبر اور دھوکہ دہی کی پالیسیاں کشمیر میں طویل عرصے سے ناکام ہی رہی ہیں، اس نے لوگوں کو مزید متنفر کیا ہے اور ان میں موجود مزاحمت کے جذبے کو مزید مضبوط کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مستقبل میں کوئی مختلف صورتحال پیدا ہونے کے امکان کم ہی ہے۔