حکومتی اتحادیوں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی جانب سے وزیر اعلیٰ پنجاب کو اعتماد کا ووٹ لینے پر مجبور کرنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے بھی وفاقی حکومت کو اسی امتحان سے دوچار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس مقصد کے لیے صدر مملکت عارف علوی کے ذریعے وزیراعظم شہباز شریف کو قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا جائے گا۔ صدر مملکت عارف علوی کی جانب سے ہدایت ملنے کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے کے پابند ہوں گے۔ صدر مملکت آئین کے آرٹیکل 91 کی شق سات کے تحت وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہیں گے۔ آئین کی دفعہ 91 شق 7 کہتی ہے کہ صدر مملکت کو اب یہ اعتماد نہیں رہا کہ وزیراعظم کو ایوان کا اعتماد حاصل ہے۔ اگر وزیراعظم شہباز شریف کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے کہا جاتا ہے تو وہ نواز شریف اور عمران خان کے بعد تیسرے وزیراعظم ہوں گے جو ایوان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کریں گے۔ اس سے قبل ماضی میں دونوں وزرائے اعظم ایوان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ سابق وزیراعظم عمران خان پر 178 ارکان کا اعتماد 6 مارچ 2021 کو اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیا تھا۔ جب مارچ 2021 میں سینیٹ کے انتخابات میں حکومتی جماعت پی ٹی آئی کے امیدوار حفیظ شیخ کو پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی کے ہاتھوں شکست ہوئی تو اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ اگست 2018 کے جنرل الیکشن میں عمران خان 176 ووٹ لے کر وزیرِ اعظم بنے تھے جبکہ مارچ 2021 میں 178 ارکان نے وزیرِ اعظم عمران خان پر اعتماد کا اظہار کیا تھا۔
نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ اور اعتماد کا ووٹ
اس سے قبل 27 مئی 1993 کو اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیا تھا۔ اعتماد کا ووٹ لینے کی وجہ یہ تھی کہ 40 دن قبل صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف کی حکومت ختم کر دی تھی۔ 26 مئی کو سپریم کورٹ نے حکومت بحال کی اور اگلے روز نواز شریف نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیا۔ نواز شریف نے اس موقع پر خطاب بھی کیا اور کہا کہ پاکستان میں جمہوریت اب خدا کے فضل سے صحیح معنوں میں بحال ہوئی ہے اور غیر جمہوری ہتھکنڈے کامیاب نہیں ہو سکے۔ قومی اسمبلی کے سابق ایڈیشنل سیکریٹری طاہر حنفی نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ پارلیمانی نظام میں اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کی حکمت یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں بحران تھم جائے اور حکومت اعتماد کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں ادا کر سکے۔ ’یہ کام پہلی مرتبہ 27 مئی 1993 کو اس وقت ہوا جب نواز شریف نے اپنی حکومت کی بحالی کے بعد ایوان سے رجوع کیا اور 200 کے ایوان سے انہیں 123 اووٹ ملے۔ یہ کارروائی قومی اسمبلی کے ضابطہ 285 کے تحت ہوئی تھی جس میں ہاتھ کھڑے کر کے اعتماد کا ووٹ دیا گیا۔‘
نواز اور شہباز شریف کے اعتماد کے ووٹ میں فرق
1993 اور 2021 میں ممکنہ طور پر ہونے والے اعتماد کے ووٹ میں کیا فرق تھا اور شہباز شریف کو اعتماد کو ووٹ لینا پڑے تو کیا فرق ہوگا؟ اس سوال پر طاہر حنفی نے کہا کہ یہ کارروائی آئین کی دفعہ 91 شق 7 کے تحت ہو رہی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ صدر مملکت کو اب یہ اعتماد نہیں رہا کہ وزیر اعظم کو ایوان کا اعتماد حاصل ہے۔ جبکہ 2021 میں عمران خان نے اور 1993 میں نواز شریف نے خود سے اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ وہ ثابت کرسکیں کہ اسمبلی ارکان کی اکثریت کا ان پر اعتماد ہے۔
تین وزرائے اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد
اعتماد کے ووٹ کے ساتھ ساتھ ملکی تاریخ میں تین وزرائے اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی جن میں سے دو ناکام جبکہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی جس کے نتیجے میں انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔
اکثریت کا سابق وزیراعظم عمران خان پر عدم اعتماد
مارچ 2021 میں پیش ہونے والی عدم اعتماد کی تحریک پر 9 اپریل کو ووٹنگ ہوئی اور ایوان کی اکثریت نے عمران خان پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔ عمران خان اور ان کی جماعت نے عدم اعتماد پر ووٹنگ سے بچنے کے لیے ڈپٹی سپیکر کے ذریعے عدم اعتماد کی تحریک کو غیرملکی سازش قرار دینے کی رولنگ بھی دلوائی اور اسمبلی تحلیل کر دی لیکن سپریم کورٹ نے اس سارے عمل کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسمبلی اور حکومت بحال کر دی۔ اس سے قبل پاکستان کے 2 منتخب وزرائے اعظم اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کا سامنا کر چکے ہیں اور دونوں مرتبہ ہی تحریک ناکامی سے دوچار ہوئی ہے۔
بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام
ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ تحریک عدم اعتماد 1989 میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف پیش کی گئی تاہم قومی اسمبلی میں اسے 12 ووٹوں سے رد کر دیا گیا۔ 237 ارکان کے ایوان میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو ہٹانے کے لیے 119 ووٹ درکار تھے تاہم تحریک کو 107 ووٹ حاصل ہوسکے، وزیراعظم نے 125 اعتماد کے ووٹ حاصل کیے جبکہ 5 ارکان غیر حاضر تھے۔
سابق وزیراعظم شوکت عزیز وزارت عظمیٰ بچانے میں کامیاب
دوسری مرتبہ تحریک عدم اعتماد اگست 2006 میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور اقتدار کے دوران اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز کو ہٹانے کے لیے لائی گئی تاہم اس بار بھی اپوزیشن کامیاب نہ ہوسکی۔ 342 ارکان کے ایوان میں شوکت عزیز کو ہٹانےکے لیے 172 ووٹ درکار تھے تاہم عدم اعمتاد کی تحریک کو 136 ووٹ مل سکے اور شوکت عزیز نے 201 ووٹ لے کر وزارت عظمیٰ کا عہدہ بچا لیا۔