سویڈن میں قرآن مجید کی بے حرمتی کے بعد ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے سویڈن کو کہا ہے کہ وہ اب نیٹو میں رکنیت کے لیے ترکیہ کی حمایت کی توقع نہ رکھے۔ یاد رہے کہ ڈنمارک نژاد سوئیڈش کے دائیں بازو کے سیاستدان راسماس پلوڈن نے اسٹاک ہوم میں ہفتے کے دن ترک سفارتخانے کے سامنے قرآن پاک کے نسخے کو نذر آتش کردیا تھا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کابینہ کے اجلاس کے بعد اردوان نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ لوگ جو ہمارے سفارتخانے کے سامنے اس طرح کی بے حرمتی کی اجازت دیتے ہیں وہ نیٹو کی رکنیت کے لیے ہماری حمایت کی توقع نہ رکھیں۔انہوں نے سویڈن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ دہشت گرد تنظیموں کے اراکین اور اسلام کے دشمنوں کو اتنا پسند کرتے ہیں اور ان کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں تو ہم مشورہ دیں گے کہ آپ اپنے ملک کی سیکیورٹی کے لیے انہی سے مدد طلب کریں۔ ترک صدر نے کہا کہ قرآن کی بے حرمتی کا واقعہ منافرت پر مبنی واقعہ ہے اور آزادی اظہار کی بنیاد پر اس کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔ ادھر سویڈن کی جانب سے اپنے دائیں بازو کے انتہا پسند رہنما کی جانب سے قرآن نذر آتش کرنے کے واقعے کی شدید الفاظ مذمت کی گئی ہے تاہم انہوں نے اسے آزادی اظہار رائے کا واقعہ قرار دیا ہے۔ ترکیہ نے اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے سویڈن کے سفیر کو طلب کیا تھا اور سویڈن کے وزیر دفاع کے انقرہ کے دورے کو منسوخ کردیا تھا۔سویڈن میں قرآن مجید کی بے حرمتی کی پاکستان، سعودی عرب، اردن، کویت سمیت متعدد مسلمان ممالک نے شدید الفاظ میں مذمت کی تھی۔ یوکرین پر روس کے حملے کے بعد سویڈن اور فن لینڈ نے گزشتہ سال نیٹو میں شمولیت کے لیے درخواست دی تھی لیکن اس شمولیت کے لیے تمام 30 اراکین کی منظوری درکار ہوتی ہے۔ سویڈن کی نیٹو میں شمولیت اور اس سلسلے میں ترکیہ کی حمایت کے خلاف احتجاج کیا گیا تھا اور قرآن کے نسخے کی بے حرمتی کے بعد ترکیہ اور سوئیڈن کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو گئے ہیں جس سے سویڈن کی نیٹو کی رکنیت کے حصول کی کوششوں کو شدید دھچکا لگا ہے جسے رکنیت حاصل کرنے کے لیے ترکیہ کی لازمی حمایت درکار ہے۔