سپریم کورٹ نے بدنیتی، اشتعال انگیزی اور قیاس آرائیوں پر مبنی مقدمات کو عدالت پر غیر ضروری بوجھ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے زیر التوا مقدمات میں اضافہ اور انصاف کے نظام میں رکاوٹ ہوتی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس عائشہ اے ملک پر مشتمل تین رکنی بینچ نے قاضی نوید الاسلام کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کے بعد فیصلہ سنا دیا گیا۔
قاضی نوید الاسلام نے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے 6 اکتوبر 2020 کو درخواست مسترد ہونے پر سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلے میں تحریر کیا کہ اس طرح کے مقدمات کی چھان بین کرکے اس نظام کو ختم کرنے کی ضرورت ہے اور احمقانہ، اشتعال انگیزی کی بنا پر مقدمات کی روک تھام کے لیے سپریم کورٹ کے قوانین 1980 کے آرڈر نمبر 28 قانون نمبر 3 کے تحت جرمانے عائد کیے جاسکتے ہیں۔
عدالت عظمیٰ نے درخواست مسترد کرتے ہوئے ایک لاکھ روپے جمع کروانے کا حکم دیا اور کہا کہ درخواست گزار کو ٹرائل کورٹ میں 3 ماہ کے اندر یہ رقم جمع کروانی ہوگی۔ جسٹس سید منصور علی شاہ نے حکم نامے میں مزید کہا کہ مقررہ وقت کے اندر جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں درخواست گزار پر عائد جرمانے میں ماہانہ 10 فیصد اضافہ ہوتا رہے گا۔ واضح ہرے کہ یہ تنازع اس وقت شروع ہوا تھا جب درخواست گزار کے متوفی والد کی جانب سے بینک اکاؤنٹ میں 3 لاکھ 2 ہزار 185 روپے کی رقم سے وراثتی سرٹیفیکٹ جاری کرنے کے لیے ٹرائل کورٹ نے 3 دسمبر 2009 کو اجازت دی تھی۔
فیصلے میں واضح کیا گیا ہے کہ درخواست گزار ذاتی رنجش کی وجہ سے بار بار تضحیک آمیز اور فضول دعوے دائر کرکے نہ صرف عدالتوں کا قیمتی وقت ضائع کر رہا ہے بلکہ مخالف فریق کو بھی تکلیف پہنچائی جارہی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلے میں کہا کہ غیر سنجیدہ درخواست دائر کرنے پر جرمانہ اس لیے عائد کیا جارہا ہے کیونکہ درخواست گزار فضول اور غیر سنجیدہ مقدمات دائر کرنے سے پہلے دو بار سوچنے پر مجبور ہوجائیں۔
عدالت عظمیٰ نے فیصلے میں مزید کہا کہ فریقین آپس میں تنازعات حل کرنے کے بجائے عدالتوں میں مقدمات دائر کرتے ہیں۔ فیصلے میں کہا گیا کہ ان جرمانوں کا مقصد مقدمے میں کامیاب فریق کو اپنے اخراجات کی تلافی کرنا ہے اور قیاس آرئیوں پر مبنی دعوے اور مقدمات ختم کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔