اداروں کے خلاف اکسانے کے الزام میں گرفتار پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مرکزی رہنما فواد چوہدری کا مزید جسمانی ریمانڈ دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے عدالت نے انہیں 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا۔ فواد چوہدری کو 25 کو جنوری لاہور سے گرفتار کر کے اسلام آباد کی مقامی عدالت میں پیش کیا گیا تھا، عدالت نے پولیس کی 8 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کر کے 2 روز کے لیے پولیس کے حوالے کیا تھا۔
دو روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر انہیں آج ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں پیش کیا گیا۔ پی ٹی آئی رہنما کے خلاف سیکریٹری الیکشن کمیشن کی درخواست پر الیکشن کمیشن کے ارکان کو دھمکانے پر مقدمہ درج ہے۔فواد چوہدری کو جوڈیشل مجسٹریٹ وقاص احمد راجا کی عدالت پیش کیا گیا، اسلام آباد پولیس نے 2 روز کی مکمل تفتیش سے متعلق عدالت کو آگاہ کیا۔ الیکشن کمیشن کے وکیل سعدحسن اور پی ٹی آئی وکلا عدالت پیش ہوئے، دوران سماعت وکیل بابراعوان ، فیصل چوہدری، علی بخاری بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
پروسیکیوٹر نے مؤقف اپنایا کہ فواد چوہدری کی وائس میچنگ کرا لی گئی ہے، فوٹوگرامٹک ٹیسٹ کے لیے فواد چوہدری کو لاہور لے کر جانا ہے، مزید جسمانی ریمانڈ منظور کیا جائے۔ پروسیکیوٹر نے استدلال کیا کہ فواد چوہدری آئینی ادارے کے خلاف نفرت پیدا کر رہے تھے، بدامنی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے، بیان سے الیکشن کمیشن کے ملازمین کی جان کو خطرہ پیدا ہو گیا، کیس کی مزید تفتیش کے لیے جسمانی ریمانڈ بہت ضروری ہے۔اپنے دلائل میں پروسیکیوشن کی جانب سے شہبازگِل کے کیس کاحوالہ دیاگیا، تفتیشی افسر نے کہا کہ رات 12 بجے 2 روز کا ریمانڈ ملا تب تک ایک دن ختم ہو گیا تھا، عملی طور پر ہمیں ایک دن کا ریمانڈ ملا ہے اب مزید ریمانڈ دیا جائے۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ فواد چوہدری کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے،
انہوں نے اپنی تقریر کا اقرار بھی کیا ہے، تقریر پر تو کوئی اعتراض اٹھا نہیں سکتا، ملزم نے بیان مانا ہے۔ دوران سماعت جج نے کمرہ عدالت میں فواد چوہدری کی ہتھکڑی کھولنے کی استدعا منظور کرلی اور فواد چوہدری کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کرلیا جسے بعد میں جاری کیا گیا۔ فیصلے میں عدالت نے پولیس کے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے فواد چوہدری کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیجنے کا حکم دے دیا۔ دوران سماعت پولیس نے میڈیا کو جج راجا وقاص احمد کی عدالت میں جانے سے روک دیا، پولیس نے پی ٹی آئی رہنما شیریں مزاری اور زلفی بخاری کو بھی عدالت کے اندر جانے سے روک دیا، جس پر شیریں مزاری نے کہا کہ ہم کیا دہشت گرد ہیں جو عدالت نہیں جانے دیا جارہا۔
فواد چوہدری کی گرفتاری
25 جنوری کو فواد چوہدری کو اسلام آباد پولیس نے لاہور سے گرفتار کیا تھا، اسلام آباد پولیس کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا تھا کہ ’فواد چوہدری نے آئینی اداروں کے خلاف شرانگیزی پیدا کرنے اور لوگوں کے جذبات مشتعل کرنے کی کوشش کی ہے، مقدمے پر قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جارہی ہے‘۔
ٹوئٹر پر جاری بیان میں اسلام آباد پولیس کا کہنا تھا کہ سیکریٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان کی درخواست پر تھانہ کوہسار میں درج کیا گیا ہے، فواد چوہدری نے چیف الیکشن کمشنر اور اراکین کو ان کے فرائض منصبی سے روکنے کے لیے ڈرایا دھمکایا۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری کے مبینہ حکومتی منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے پی ٹی آئی کارکنان عمران خان کی زمان پارک رہائش گاہ کے باہر جمع ہوئے تھے جس کے چند گھنٹوں بعد پی ٹی آئی کی جانب سے فواد چوہدری کی گرفتاری کا دعویٰ سامنے آیا تھا۔
تحریک انصاف کی جانب سے فواد چوہدری کی بازیابی کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی لیکن لاہور ہائی کورٹ نے ان کی بازیابی کے لیے دائر درخواست خارج کردی تھی۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے درخواست گزار سے کہا تھا کہ اگر آپ مقدمے کا اخراج چاہتے ہیں تو اسلام آباد ہائی کورٹ فورم ہے، اگر یہ مقدمہ پنجاب میں ہوتا تو ہم دیکھ سکتے تھے کہ یہ مقدمہ درج بھی ہو سکتا تھا یا نہیں۔
ایف آئی آر
پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کے خلاف سیکریٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان عمر حمید کی شکایت پر اسلام آباد کے تھانہ کوہسار میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
ایف آئی آر میں فواد چوہدری کے ٹی وی انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ ’انہوں نے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن کی حیثیت ایک منشی کی ہوگئی ہے، نگران حکومت میں جو لوگ شامل کیے جا رہے ہیں، سزا ہونے تک ان کا پیچھا کریں گے اور حکومت میں شامل لوگوں کو گھر تک چھوڑ کر آئیں گے‘۔
ایف آئی آر کی دستیاب کاپی کے مطابق ’فواد چوہدری نے الیکشن کمیشن کے ارکان اور ان کے خاندان والوں کو بھی ڈرایا دھمکایا‘۔
فواد چوہدری کے خلاف مذکورہ ایف آئی آر پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 153-اے (گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا)، 506 (مجرمانہ دھمکیاں)، 505 (عوامی فساد کو ہوا دینے والا بیان) اور 124-اے (بغاوت) کے تحت درج کی گئی ہے۔