سپریم کورٹ آف پاکستان میں پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات پر از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے تحفظات کا اظہار کر دیا اور کہا کہ یہ ازخود نوٹس کیس نہیں بنتا۔ جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا بھی ازخود نوٹس لیا جائے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کل پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات پر از خود نوٹس لے کر 9 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔ آج دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیےکہ دیکھا جائے گا کہ الیکشن کی تاریخ دینا کس کا اختیار ہے؟ چاہتے ہیں کہ انتخابات آئین کے مطابق ہوں، سیکشن 57 کے تحت صدر نے انتخابات کا اعلان کیا ہے، الیکشن کمیشن بھی سیکیورٹی سمیت فنڈز نہ ملنے کی شکایت کر چکا ہے، چاہتے ہیں کہ انتخابات آئین کے مطابق ہوں، آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں کریں گے، وقت کی کمی کی وجہ سے سماعت طویل نہیں کریں گے، تیاری کریں سماعت اگلے پیر سے ہو گی۔.
سپریم کورٹ کے 9 رکنی لارجر بینچ نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی جس کے سربراہ چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال ہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس اطہر من اللّٰہ، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی بینچ میں شامل ہیں۔ دورانِ سماعت سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار وضاحت طلب ہے، پنجاب اور خیبر پختون خوا اسمبلیاں 14 اور17 جنوری کو تحلیل ہوئیں۔ ریمارکس میں سپریم کورٹ نے کہا کہ آرٹیکل 224/2 کے تحت انتخابات اسمبلی کی تحلیل سے 90 دنوں میں ہونے ہوتے ہیں، آرٹیکل 224 ایک ٹائم فریم دیتا ہے۔ سپریم کورٹ نے ریمارکس میں کہا کہ گورنر پنجاب کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعلیٰ کی ایڈوائس پر اسمبلی تحلیل نہیں کی تھی، از خود نوٹس میں دیکھا جائے گا کہ انتخابات کی تاریخ دینا کس کا اختیار ہے، الیکشن کمیشن بھی سیکیورٹی سمیت فنڈز نہ ملنے کی شکایت کر چکا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ سپریم کورٹ آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرے گی، آج ہم اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہیں، چاہتے ہیں کہ انتخابات آئین کے مطابق ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے 3 معاملات کو سننا ہے، صدرِ پاکستان نے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیا، آرٹیکل 224 کہتا ہے کہ 90 دنوں میں انتخابات ہوں گے، سیکشن 57 کے تحت صدر نے انتخابات کا اعلان کیا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے ریمارکس میں کہا کہ دیکھنا ہے کہ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد تاریخ دینا کس کا اختیار ہے، ہمارے سامنے ہائی کورٹ کا 10 فروری کا آرڈر تھا، ہمارے سامنے بہت سے فیکٹرز تھے۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہم صدرِ پاکستان سے متعلق چیزیں ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ وقت کی کمی کی وجہ سے سماعت طویل نہیں کریں گے، تیاری کریں کیس کی سماعت سوموار سے ہو گی، انتخابات کا مسئلہ وضاحت طلب ہے، ہم ارادہ رکھتے ہیں کہ آپ سب کو سنیں گے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میرے ازخود نوٹس سے متعلق کچھ تحفظات ہیں، ہمارے سامنے دو اسمبلیوں کے اسپیکر کی درخواستیں ہیں، یہ ازخود نوٹس جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی کے نوٹ پر لیا گیا، اس کیس میں چیف الیکشن کمشنر کو بھی بلایا گیا جو کہ فریق نہیں ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کچھ سوال دونوں اسمبلیوں کے اسپیکرز نے اپنی درخواستوں میں شامل کیے ہیں، سپریم کورٹ نے صرف آئینی نکتہ دیکھنا ہے اور اس پر عمل درآمد کرانا ہے، ہم صرف آئین کی تشریح اور آئین کی عمل داری کے لیے بیٹھے ہیں، ہم آج نوٹس جاری کریں گے، اٹارنی جنرل کا شکریہ کہ وہ پہلے ہی موجود ہیں، ہم اس معاملے کو طوالت نہیں دینا چاہتے، نہ کوئی ابہام چھوڑنا چاہتے ہیں، ہم 2 بجے بیٹھے ہیں، یہ ہمارے لیے غیر معمولی ہے۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کیس کے لیے وقت دینے کی استدعا کر دی اور کہا کہ اتنے لوگوں کو نوٹس ہوگا تو کل کے لیے تیاری مشکل ہو گی۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کل ہم صرف چند ضروری باتوں تک محدود رہیں گے، کیس کی تفصیلی سماعت اگلے ہفتے کریں گے۔جسٹس اطہر من اللّٰہ نے استدعا کی کہ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا بھی ازخود نوٹس لیا جائے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آئین الیکشن سے متعلق ایک ٹائم کا تعین کرتا ہے، ہمارے لیے بہت آسان تھا کہ الیکشن کی دو آئی ہوئی درخواستیں ہی فکس کر لیتے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر شعیب شاہین نے کہا کہ از خود نوٹس میں اگر فیصلہ انتخابات کرانے کا آتا ہے تو سب کو فائدہ ہو گا۔ جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ اگر عدالت فیصلہ دیتی ہے تو سب سیاسی جماعتیں فائدہ حاصل کریں گی۔ شعیب شاہین نے کہا کہ یہ ٹائم باؤنڈ کیس ہے، اس میں انتخابات کرانے کا ایشو ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کچھ آڈیوز سامنے آئی ہیں، آڈیوز میں عابد زبیری کچھ ججز کے حوالے سے بات کر رہے ہیں، ان حالات میں میری رائے میں یہ کیس 184/3 کا نہیں بنتا۔ وکیل اظہر صدیق نے استدعا کی کہ ہائی کورٹ کا ریکارڈ منگوایا جائے۔ اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ سیاسی جماعتوں کو بھی سنا جائے۔ وکیل عابد زبیری نے کہا کہ صدرِ مملکت نے انتخابات کی تاریخ جاری کی ہے۔ چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ جسٹس جمال مندوخیل کے سوموٹو نوٹس اور بینچ کی تشکیل پر تحفظات ریکارڈ کیے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اس موقع پر سوال اٹھائے کہ کیا اسمبلیاں کسی کی ڈکٹیشن پر ختم ہو سکتی ہیں؟ جب اسمبلی کے نمائندے 5 سال کے لیے منتخب ہوتے ہیں تو کسی شخص کی ہدایت پر اسمبلی تحلیل کیسے ہو سکتی ہے؟ یہ بھی دیکھیں گےکہ کیا اسمبلیوں کی بحالی سے یہ معاملہ حل ہو سکتا ہے؟ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پنجاب اور کے پی کی اسمبلیوں کو تحلیل کیے جانے کے بعد 6 ہفتے گزر گئے، آرٹیکل 224 کے تحت الیکشن کا انعقاد اسمبلی تحلیل ہونے کے 90 دن میں ہونا چاہیے، بینچ کی 16 فروری کی سفارش پر سوموٹو نوٹس لیے جانے کی سفارش ہوئی، فیصلہ سازی جلد کیے جانے کے لیے ہم کل بھی کیس سنیں گے، الیکشن کے انعقاد کے معاملے پر صدرِ مملکت، گورنرپنجاب اور کے پی کو بھی سنا جائے گا، صدرِ مملکت، گورنرز کو آرٹیکل 248 کے تحت استثنیٰ حاصل ہے، تینوں کے نظریات اس معاملے پر اہم ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ آج ہم نوٹس کے علاوہ کچھ نہیں کریں گے۔
اس کے ساتھ ہی عدالت نے صدرِ مملکت، گورنر کے پرنسپل سیکریٹری کو ان کے نظریے کی نمائندگی کے لیے نوٹس جاری کر دیے، وائس چیئرمین پاکستان بار، چیئرمین سپریم کورٹ بار، پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کو نوٹس جاری کر دیے۔عدالت نے چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل پاکستان اور چاروں ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کر دیے کہ اٹارنی جنرل پاکستان اور چاروں صوبائی ایڈووکیٹ جنرل معاونت کریں۔ سپریم کورٹ نے صدرِ الیکشن کمیشن، وفاقی حکومت، پنجاب اور خیبر پختون خوا کی حکومتوں اور چیف سیکریٹریز کو بھی نوٹسز جاری کر دیے۔عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے سب سے کہا گیا ہے کہ ٹائم کی قلت کے تحت میڈیا سے سننے کے بعد ہی نوٹس کا انتظار کیے بنا عدالت میں حاضر ہو جائیں۔ عدالتِ عظمیٰ نے کیس کی سماعت کل صبح 11 بجے تک ملتوی کر دی۔