(ترتیب و تنظیم: ڈے اے نقوی)
ایران خطے میں سفارت کاری کی بھرپور اننگ کھیل رہا ہے۔ جس کی حالیہ مثال سعودی عرب کے ساتھ 10 مارچ کو ہونے والا معاہدہ ہے۔ یہ معاہدہ چین کے شہر بیجنگ میں انجام پایا۔ جس وقت معاہدے پر دستخط ہوئے، اس وقت تین فریق مذاکرات کی میز پر موجود تھے۔ ایران، سعودی عرب اور چین، جبکہ ایران و سعودی عرب کے درمیان ثالثی اور اس معاہدے کو حتمی مراحل تک پہنچانے میں عراق اور عمان نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اس معاہدے کا ہر ایک کردار اور پھر ان سے جڑے عناصر و عالمی حقیقتیں اپنے اندر کئی سوال لئے بیٹھی ہیں۔ عالمی منظر نامے سے آگہی رکھنے والے افراد سوچتے ہیں کہ وہ کون سے عوامل ہیں، جنہوں نے مڈل ایسٹ کے دو اہم رقیبوں اسلامی جمہوریہ ایران اور سعودی عرب کو آپس میں بات چیت کرنے پر آمادہ کیا۔ اس کے علاوہ چین کی ضمانت سے انجام پانے والے اس معاہدے میں خود بیجنگ کے کردار کے بارے مین لوگ سوال کرتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ کیا سعودی عرب اس معاہدے کی پابندی کرے گا۔ ان پس پردہ سوالوں کے جواب کے لئے اگر ہم مشرق وسطیٰ میں موجود بُحرانوں پر نگاہ ڈالیں تو یہ گتھی کسی حد تک سلجھتی دکھائی دیتی ہے۔
یمن کا بحران اس معاہدے میں اچھا خاصا اثر انداز ہوتا دکھائی دیا۔ ریاض، یمن میں اپنی حامی حکومت قائم رکھنا چاہتا تھا، جبکہ یمنی عوام کے شدید اعتراض کی وجہ ایسا ممکن نہیں ہو پا رہا تھا۔ اس عوامی دباو کو کنٹرول کرنے کے لئے سعودی عرب نے ایک فوجی اتحاد تشکیل دے کر صنعاء پر چڑھائی کر دی۔ لیکن نتیجہ صفر، الٹا یمن میں انصار اللہ کے جوابی حملوں کے بعد سعودی عرب اس غریب ملک کے لوگوں کی مزاحمت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگیا اور عالمی طاقتوں کی جانبدارانہ حمایت سے جنگ بندی کا معاہدہ منظر عام پر آیا۔ البتہ اس معاہدے کی ایک خاص بات یہ تھی کہ سعودی عرب نے کبھی بھی اس جنگ بندی پر عملدرآمد نہیں کیا۔ بہرحال یمنی فریق کی جانب سے جنگ بندی کے معاہدوں میں چند شقیں رکھی گئیں، جن میں سے یمن کا محاصرہ ختم کرنا، جنگ سے ہونے والے نقصان کو پورا کرنا۔۔۔۔ وغیرہ شامل ہے۔ اس مقدمے کو ذہن میں رکھیں تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ سعودی عرب یمن کا محاصرہ بھی آسانی سے ختم کرسکتا، مالی نقصان بھی ادا کرسکتا ہے، لیکن مہم بات یہ کہ اُسے یمن سے نکلنے کے لئے فیس سیونگ کی ضرورت ہے۔
ریاض یمن سے اپنی آبرومندانہ واپسی چاہتا ہے۔ اس کے ساتھ تہران سے خواہاں ہے کہ وہ انصار اللہ سے اپنے تعلقات استعمال کرتے ہوئے سعودی تنصیبات کو نشانہ نہ بنانے کی گارنٹی لے کر دے۔ چین کی اس معاہدے میں موجودگی عالمی اور علاقائی طاقتوں کے لئے واضح پیغام لئے ہوئے ہے۔ پہلا پیغام یہ کہ براعظم ایشیاء امریکی و مغربی مداخلت کے بغیر اپنے معاملات حل کرسکتا ہے۔ دوسرا پیغام خود چین کے لئے ہے کہ وہ خطے کے دیگر تنازعات کو بھی حل کروا سکتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکہ اور مغربی طاقتوں نے ابھی تک جتنے بھی فیصلے یا معاہدے کروائے ہیں، ہمیشہ اپنے منصوبوں کی تکمیل اور خطے میں حاکمیت کی ڈاکٹرائن کے تحت کروائے ہیں۔ عالمی طاقتوں نے ہمیشہ تنازعات کے حل کی بجائے جانبداری کا مظاہرہ کیا۔ بنیادی طور پر ان عالمی قوتوں کا وطیرہ ہی یہ رہا ہے کہ پہلے کسی بھی خطے کے دو ممالک کو آپس میں لڑواتے ہیں، ایک بحران پیدا کرتے ہیں، پھر اس بحران میں ایک فریق کو اسلحہ و جنگی ساز و سامان بیچتے ہیں اور دوسرے فریق کو اپنی ہمدردی اور منصف مزاجی کا راگ الاپتے ہیں، جبکہ در پردہ اپنے اہداف اور منصوبوں کو مکمل کرتے رہتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا معاہدے کے دونوں فریق اس پر عملدرآمد بھی کریں گے۔؟ اگر ایران کی بات کریں تو تہران کا ماضی اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ایران نے کبھی بھی اپنے معاہدوں کی وعدہ خلافی نہیں کی۔ پانچ عالمی طاقتوں کے ساتھ ہونے والا ایران کا جوہری معاہدہ اس بات کی واضح دلیل ہے۔ حتیٰ ڈونلڈ ٹرامپ کی جانب سے اس معاہدے سے دستبرداری کے باوجود ایران اس معاہدے کا پابند رہا، لیکن شاید امریکہ ہمیشہ کسی نہ کسی بحران کی ایجاد کی تلاش میں رہتا ہے۔ اس کے بعد ویانا میں جاری مذاکرات میں بھی ایران کی سرگرمیاں اس بات کی نشاندہی کرتی رہیں کہ تہران صلح چاہتا ہے اور ہمیشہ مثبت کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہے۔ ابھی حال ہی میں ایٹمی توانائی ایجنسی کے سربراہ رافائل گروسی نے تہران کا دورہ کیا۔ ایران نے آئی اے ای اے سے جو وعدے وعید کئے، وہ بھی اس کی نیک نیتی کو ظاہر کرتے ہیں۔ سعودی عرب کی بات کی جائے تو بہرحال معاہدے پر عملدرآمد کرنے کے لئے بیجنگ کا دباو تو اس پر برقرار رہے گا۔ دوسری بات کہ خطے میں اہم امریکی حلیف ہوتے ہوئے بھی ریاض نے چین کی سفارت کاری سے معاہدے کو قبول کیا ہے تو بالاخر کوئی رضامندی تو ہوگی۔
اس پیشترفت پر دنیا، عالم اسلام، مزاحمتی فورسز اور عالمی اسٹیک ہولڈرز نے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ عالم اسلام اور عرب دنیا کا کون سا ملک نہیں ہوگا، جس نے اس اہم قدم پر ایران اور سعودی عرب کو مبارک باد نہ دی ہو۔ خطے میں امریکی ہمنواوں نے بھی اس پیشرفت کا خیر مقدم کیا ہے۔ فلسطین، لبنان اور یمن کی مقاومتی فورسز بھی اس معاہدے پر خوشحال دکھائی دیں۔ لیکن کیا اس معاہدے کے بعد خطے کو درپیش چیلینجز کا خاتمہ ہوگا۔ یمن بحران کہاں تک پار لگے گا۔؟ لبنان کے سیاسی اور اقتصادی میدان میں سعودی عرب کی مداخلت کم ہوگی۔؟ مسئلہ فلسطین پر ریاض اپنا کیا موقف اپنائے گا۔؟ شام سے اپنے سفارتی تعلقات بحال کرے گا۔؟ اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کے منصوبوں کا کیا کرے گا۔؟ اپنے دوست امریکہ کو کیسے راضی کرے گا؟ اور سب سے بڑھ کر یہ معاہدہ کب تک چلے گا۔؟ ان سب سوالات کے جوابات آنے والے دنوں میں خطے میں سعودی عرب کے اقدامات ہی دے سکتے ہیں۔بشکریہ اسلام ٹائمز