پاکستان میں سخت کشیدہ سیاسی صورت حال کے دوران دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی طرف سے بات چیت کی دعوت دی گئی ہے جس کو سیاسی مبصرین اہم قرار دے رہے ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف سخت بیان بازی اور اقدامات کے بعد مذاکرات کی طرف یہ پیش رفت اس وقت ہوئی جب عمران خان نے گفتگو کی پیش کش کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ کسی سے بھی بات چیت کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘جمعرات کے روز ٹوئٹر پر انہوں نے لکھا کہ ’پاکستان کی ترقی، مفادات اور جمہوریت کے لیے میں کسی قربانی سے گریز نہیں کروں گا۔‘ ’اس ضمن میں، میں کسی سے بھی بات کرنے کے لیے تیار ہوں اور اس جانب میں ہر قدم اٹھانے کے لیے تیار ہوں۔‘ تقریباً اسی وقت وزیراعظم شہباز شریف نے بھی سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی اور کہا کہ ’آئیں بات کریں۔‘ عمران خان کی طرف سے مذاکرات کی یہ پیش کش ایک ایسے وقت میں آئی جب اسلام آباد اور لاہور پولیس ان کی گرفتاری کے لیے ایک بھرپور آپریشن کر چکی ہیں اور عدالت نے ان کی وارنٹ معطل کرنے کی درخواست مسترد کر دی ہے۔
ٹوئٹر پر مذاکرات کی دعوت کے بعد عمران خان نے اپنے پارٹی ارکان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’بہت جلد ان کے خلاف مقدمات کی سینچری مکمل ہو جائے گی۔‘ انہوں ںے کہا کہ ’خدشہ تھا کہ اگر پولیس انہیں گرفتار کرنے میں کامیاب ہو جاتی تو ان کے ساتھ ان کی پارٹی کے رہنماؤں اعظم سواتی اور شہباز گل جیسا سلوک کرتی۔‘ اس سے قبل عمران خان کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ ان دونوں رہنماؤں پر دوران حراست تشدد کیا گیا اور انہیں برہنہ کیا گیا۔ جب عمران خان نے لاہور میں خطاب کے دوران یہ باتیں کیں تو تقریباً اسی وقت شہباز شریف جمعرات کو سینٹ آف پاکستان کی 50 سالہ گولڈن جوبلی تقریبات کے دوسرے روز کمیٹی آف دی ہول سے خطاب کر رہے تھے۔ وزیراعظم نے عمران خان سے مخاطب ہو کر کہا کہ ’آئیں بات کریں۔‘ تو کیا دونوں بڑی جماعتیں اب مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہیں اور واقعی بات چیت کی طرف بڑھنا چاہتی ہیں؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری نے کہا کہ ’موجودہ ماحول میں مذاکرات کی خالی خولی باتوں کا کوئی مطلب نہیں ہے اور اگر واقعی دونوں جماعتیں بات چیت کرنا چاہتی ہیں تو انہیں پہلے ماحول کو سازگار بنانے کے لیے اقدامات کرنا چاہییں۔‘ ’سب سے پہلے تو وہ ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی بند کریں۔
اس سے اعتماد بڑھے گا تو پھر گفتگو ہو گی۔ ان حالات میں گفتگو ممکن نہیں ہے۔‘ حسن عسکری کا مزید کہنا تھا کہ ’دونوں پارٹیوں کی قیادت جب بھی مذاکرات کی بات کرتی ہے دوسری ہی سانس میں اپنے حریف کو تنقید کا نشانہ بھی بناتی ہے اور مخالفانہ بات کرتی ہے۔‘ ’جب تک وہ اعتماد بحال نہیں کرتے یہ دعوتیں محض بیان بازی ہیں۔یہ لوگوں کو دکھانے کے لیے بیان بازی کرتے ہیں۔ ان کی باتوں میں کوئی سنجیدگی نظر نہیں آتی۔‘ تاہم سینیئر صحافی سہیل وڑائچ کا خیال ہے کہ ’عمران خان اپنی پیش کش میں سنجیدہ ہیں اور اس کا مقصد حکومت کو انتخابات پر رضامند کرنا ہے۔‘ ’یہ سنجیدہ پیش کش ہے۔ حکومت کو اس پر فوراً ایک کمیٹی بنا کر مذاکرات کا آغاز کرنا چاہیے۔‘ تاہم سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ ’ان مذاکرات کا انعقاد مشکل ہے کیونکہ حکومت اس کے لیے نہیں مانے گی۔‘ سینیئر صحافی زاہد حسین کا کہنا ہے کہ ’دونوں جماعتوں کو اس بارے میں مزید وضاحت کرنے کی ضرورت ہے اور جب تک وہ اپنے مطالبات کو واضح نہیں کریں گے اور کوئی عملی اقدام نہیں کریں گے، یہ بیانات غیر سنجیدہ ہی رہیں گے۔‘ زاہد حسین نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’مذاکرات کی بات کرنا آسان اور اس پر عمل درآمد کرنا بہت مشکل کام ہے۔‘ ’اگر وہ واقعی مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو انہیں وضاحت کرنی چاہیے کہ وہ کس بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں، اور وہ کیسے بات چیت کی طرف بڑھیں گے۔‘