افغانستان اور عراق میں سابق امریکی سفیر زلمے خلیل زاد کے پاکستانی سیاست اور سابق وزیراعظم عمران خان کی حمایت میں اوپر تلے بیانات کا پاکستان میں بھرپور ردعمل آ رہا ہے اور مختلف حلقے ان کی پاکستانی سیاست میں اچانک دلچسپی کے متعلق اظہار خیال کر رہے ہیں۔ منگل کی رات کو زلمے خلیل زاد نے تازہ بیان میں آج ہونے والے پارلیمنٹ کے اجلاس کے بارے میں کہا تھا کہ ’حکمران اتحاد کے زیر کنٹرول پاکستانی پارلیمنٹ سپریم کورٹ سے عمران خان کو نا اہل قرار دلوانے کا مطالبہ کرسکتی ہے جبکہ آئندہ چند روز میں پی ٹی آئی پر پابندی لگا سکتی ہے۔’ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے عمران خان کو ریاست کا دشمن نمبر 1 بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔‘ ’اس طرح کے اقدامات پاکستان کے تین بحرانوں کو مزید گہرا کریں گے: سیاسی، اقتصادی اور سلامتی۔ کچھ ممالک نے تو پہلے ہی طے شدہ سرمایہ کاری کو معطل کر دیا ہے۔ اگر مذکورہ اقدامات اٹھائے گئے تو پاکستان کے لیےآئی ایم ایف کی امداد پر شکوک وشبھات پیدا ہوجائیں گے اور اس کے لیے عالمی تعاون بھی کم ہوجائے گا۔ سیاسی تقسیم اور تشدد بڑھنے کا امکان بڑھے گا۔‘ ان کے اس بیان کے بعد مختلف حلقوں کی جانب سے سوشل میڈیا اور دوسرے پلیٹ فارمز پر رد عمل دیا گیا ہے۔ زلمے خلیل زاد کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ نواز کے سینیئر رہنما اور نواز شریف اور مریم نواز کے ترجمان محمد زبیر نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’پاکستانی حکومت کو مکمل سمجھ ہے کہ پاکستان کے لیے کیا بہتر ہے اور ہمیں زلمے خلیل زاد کی قبیل کے لوگوں سے نصحیت کی ضرورت نہیں ہے جنہوں نے افغانستان میں حالات بڑے خراب کیے اور جس کے مضمرات کا ہم ابھی تک سامنا کر رہے ہیں۔‘
ٹیلی ویژن اینکر عادل شاہزیب نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ یہ دلچسپ اور حیران کن ہے کہ زلمے خلیل زاد اچانک سے پاکستان کے بارے میں اتنے فکر مند کیسے ہو گئے؟
صحافی فاضل جمیلی نے اپنے تبصرے میں لکھا کہ تجسس ہے کہ زلمے خلیل زاد نے اپنی توجہ پاکستان کی طرف کیوں مبذول کر لی ہے؟ وقت بتائے گا کہ زلمے خلیل زاد کے بیانات کے پیچھے خطے میں نئی دلچسپی ہے یا کوئی نئی حکمت عملی؟
پاکستان کے خارجہ امور کے ماہر سینیئر صحافی متین حیدر نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کا سابق امریکی سفیر برائے افغانستان و عراق زلمے خلیل زاد سے ایک ذاتی تعلق ہے جو اس وقت استوار ہوا جب وہ وزیراعظم تھے اور ان کی افغانستان کے معاملے پر ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ متین حیدر کے مطابق زلمے خلیل زاد ریٹائر ضرور ہیں لیکن وہ اب بھی امریکی بااثر حلقوں میں اپنا اثر ورسوخ رکھتے ہیں اور بہت سارے امریکی تھنک ٹینکس سے منسلک ہیں، ان کی بات، آواز اور نقطہ نظر سنا جاتا ہے۔ لہٰذا ان کی عمران خان کے حوالے سے رائے نظرانداز نہیں کی جا سکتی۔ ’آج کے ٹویٹ سے انہوں نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے کہ عمران خان پر پابندی لگنے سے آئی ایم ایف کی امداد خطرے میں پڑ سکتی ہے۔‘
متین حیدر نے کہا کہ ’صرف یہی نہیں، بلکہ سابق نائب امریکی وزیر خارجہ رابن رافیل بھی اس وقت پاکستان کے دورے پر ہیں، اوروہ یہاں ایک ہفتہ قیام کریں گی۔ اس دوران وہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیراعظم شہباز شریف اور دیگر اعلٰی حکام سے ملاقاتیں کر رہی ہیں۔ اور ان میں وہ یقیناً عمران خان کے بارے میں گفتگو کریں گی۔‘ ’ان تمام بیانات اور ملاقاتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی لابسٹ اور بااثر حلقے اس وقت عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘ انہوں نے کہا ’گذشتہ مہینے عمران خان کی بہن نے بھی امریکی ایوان نمائندگان کے کچھ اراکین اور سپیکر سے ملاقاتیں کی ہیں جس کے بعد کچھ طاقتورامریکی سینیٹرز نے ان کے حق میں بیانات جاری کیے۔ پھر گذشتہ روز شاہ محمود قریشی نے آسٹریلین ہائی کمشنر اور کچھ دیگر سفارکاروں سے بھی ملاقاتیں کر کے اپنا موقف بیان کیا ہے۔‘ ’اس کا مطلب یہ ہے کہ اب اب تحریک انصاف بین الاقوامی ڈپلومیسی کی طرف جا رہی ہے۔‘ متین حیدر سمجھتے ہیں کہ امریکی بااثر حلقوں کی حمایت اور بین الااقوامی برادری کی دلچسپی کے بعد اب صورتحال اتنی سادہ نہیں رہی اور اگرعمران خان کو کچھ ہوا تو پھر پی ڈی ایم کی حکومت بھی باقی نہیں رہے گی۔ ’اس صورتحال کا حل یہ ہے کو فوری طور پر اسمبلی تحلیل کر کے انتخابات منعقد کرا دینے چاہیئں۔‘
واضح رہے کہ زلمے خلیل زاد کے پہلے بیان کے ردعمل میں پاکستانی دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ ’پاکستان کو موجودہ حالات پر قابو پانے کے لیے کسی کے لیکچر یا غیرضروری مشورے کی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستانی قوم موجودہ مشکل صورتحال سے مضبوط بن کر نکلے گی۔‘ تاہم سینیئر تجزیہ کار ضیغم خان سمجھتے ہیں کہ زلمے خلیل زاد کے یہ بیانات محض ذاتی توجہ حاصل کرنے کے لیے ہیں جن کا کچھ نہ کچھ اثر پاکستان کی اندرونی سیاست اور عمران خان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات پر بہرحال پڑے گا۔ ’زلمے خلیل زاد اس وقت ریٹائرڈ ہیں لہٰذا وہ اس خطے کے متعلق بیان جاری کر کے امریکی حکام کو یہاں اپنی اہمیت کے بارے میں آگاہ کرنا چاہتے ہیں کہ وہ یہاں کے معاملات میں کس قدر اہم ہو سکتے ہیں۔ اسی لیے وہ عمران خان کے بارے میں اپنی آرا کا اظہار کر رہے ہیں کیونکہ ان کے بارے میں یا ان کی جماعت تحریک انصاف کے بارے میں جو بھی بات کی جائے گی اس پر بحث ضرور ہو گی۔‘ ’لیکن ان بیانات کا پاکستانی سیاست پُراثر بھی پڑے گا اور حکومت کچھ دباؤ میں آئے گی، ساتھ ہی عمران خان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات جو انہوں نے خراب کیے ہوئے تھے، میں بھی بہتری آئے گی۔ سو یہ عمران خان کے لیے اچھا ہے، پاکستانی حکومت کے لیے کچھ زیادہ اچھا نہیں ہے اور اس وقت کی امریکہ کی پاکستان کے متعلق پالیسی کے لیے یہ بیانات کچھ زیادہ اہم نہیں ہیں۔‘