پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ مذاکرات میں نہیں بیٹھیں گے اور اگر بات چیت ہوئی تو وہ ان کی پارٹی کے دیگر اراکین کریں گے۔ عمران خان نے کہا کہ وہ حکمرانوں کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں ہیں۔ اگر مذاکرات شروع ہوتے ہیں تو ان کی ٹیم اس میں حصہ لے گی وہ نہیں۔ حکومتی وزرا کی طرف سے گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ اور خود تحریک انصاف کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کے بارے میں پوچھے گئے سوالات کے جوابات میں عمران خان نے کہا کہ ’اگر مذاکرات ہوں گے تو وہ صرف الیکشن کے نقطے پر ہوں گے تاہم وہ خود ان لوگوں کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے جن کو وہ چور اور کرپٹ کہتے رہے ہیں۔‘
’میں نے تو خیر ان لوگوں کے ساتھ نہیں بیٹھنا، ہماری ٹیم بیٹھے گی لیکن بات تو صرف الیکشن کی ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ اگر بات انتخابات کی طرف نہیں جاتی تو پھر مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ’گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ (کے متعلق) بڑی بڑی باتیں چھوڑیں، پہلے تو آئیں الیکشن کے اوپر۔ جو قانون اور آئین کہتا ہے، الیکشن، اگر آپ الیکشن ہی نہیں کروا سکتے، کون سے مذاکرات کرنے ہیں کسی نے کس سے۔ ’اس وقت ہے ہی الیکشن کا معاملہ، اس وقت ملک کا سب سے بڑا معاملہ ہے الیکشن نوے روز میں، وہ نوے روز گزرتے جا رہے ہیں، یہ آئین کی توہین ہو رہی ہے، اس کی بے حرمتی ہو رہی ہے۔ اگر آپ آئین کے اوپر نہیں چل رہے تو اس کے بعد مذاکرات کس چیزکے کرنے ہیں۔‘
ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ ان کا موجودہ فوجی قیادت کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہوا تاہم اگر انتخابات کے حوالے سے بات ہو تو وہ کسی سے بھی کرنے کو تیار ہیں۔ ’کوئی بات نہیں ہوئی، کوئی کسی قسم کا رابطہ نہیں ہوا۔ الیکشن پر کرنا چاہتے ہیں بات تو ہم کسی سے بھی کر لیں گے۔‘عمران خان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے ججز کی حالیہ تقسیم کے پیچھے نواز شریف کا ہاتھ ہے اور یہ ان کی پرانی روش ہے۔ ’اس میں نواز شریف کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اس نے پہلے بھی تقسیم کیا تھا 1997 میں سپریم کورٹ کو۔ اپنے مفادات کے لیے اس نے سپریم کورٹ کو تقسیم کیا تھا۔ سو فیصد، اس کے پیچھے بیانات دے رہا ہے۔ اس کی بیٹی ججز کے پیچھے بیانات دے رہی ہے۔‘ انہوں نے پی ڈی ایم کی طرف سے سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کا فیصلہ نہ ماننے کے اعلان پر شدید تنقید کی اور کہا کہ ان کی جماعت عدالت عظمٰی کا بھرپور ساتھ دے گی۔
’وہ ہیں کون فیصلہ نہ ماننے کے لیے، آپ کی حیثیت کیا ہے؟ ملک کا آئین تو، سپریم کورٹ کے ہاتھ میں ہے فیصلہ آئین کی تشریح کرنے کا۔ آپ کون ہوتے ہیں جب سپریم کورٹ کہہ رہا ہے، سارے پاکستان کی قانونی برادری کو پتہ ہے کہ نوے دن میں الیکشن ہونے چاہییں، سب کو پتہ ہے، آپ کہہ رہے ہیں کہ نوے دن سے آگے چلے جائیں۔ تو سپریم کورٹ نے نوے دن کا تو کہنا ہی ہے، کیونکہ یہ ہے ہی، آئین ہے یہ، تو آپ ہیں کون کہنے والے کہ ہم نہیں مانتے۔‘ ’ہم بالکل کھڑے ہوں گے، سپریم کورٹ کو پوری قوم بیک کرے گی، آپ دیکھتے رہیں۔
ساری قوم کھڑی ہو گی سپریم کورٹ کے ساتھ۔‘ ’سپریم کورٹ کا فیصلہ نہ ماننے کا مطلب پاکستان میں آئین اور قانون ختم ہو گیا، اس کا مطلب جنگل کا قانون آ گیا۔ اس کا مطلب کہ آپ فیصلہ کریں گے کہ کون سا سپریم کورٹ کا فیصلہ میں نے ماننا ہے یا میں نے نہیں ماننا۔ اگر سوموٹو میرے حق میں ہوئی تھی جب انہوں نے ہمارے خلاف کیا تھا، اسی سپریم کورٹ نے، میں نے تو انتخابات کا اعلان کر دیا تھا، سپریم کورٹ نے ہمارے خلاف فیصلہ دے دیا اور انہوں نے الیکشن مسترد کر کے شہباز شریف کو بنا دیا، ہم نے تو قبول کر لیا،
لیکن تب وہ سپریم کورٹ ٹھیک تھا۔ آج وہ سوموٹو ایکشن لے رہا ہے اور ان کو لگ رہا ہے کہ ان کے خلاف جائے گا اب یہ سپریم کورٹ کو متنازع بنا رہے ہیں۔ ان کی تاریخ ہے، سجاد علی شاہ کی عدالت پر حملہ کیا تو اس نے توہین عدالت لگا دی، عدالت پر حملہ کر دیا پھر رشوت دے کر جج خرید لیے، اس کی تو تاریخ ایسی ہے۔‘ عمران خان کا کہنا تھا کہ اگر ابھی انتخابات نہیں ہوں گے تو پھر اکتوبر میں بھی انتخابات منعقد ہونے کے امکانات کم ہیں۔ ’ابھی تو فوری چیز ہے کہ نوے دن میں انتخابات ہوں گے یا نہیں ہوں گے، آئین جو کہتا ہے، تو اگر یہ نہیں ہوں گے، اگر ادھر سے نکل جاتے ہیں تو پھر اکتوبر میں کیوں ہوں؟ پھر آپ کہیں گے اگلے سال بھی کیوں ہوں؟ پھر تو جو طاقتور فیصلہ کرے گا تب ہی الیکشن ہو گا۔‘
عمران خان نے سکیورٹی اداروں پر الزام لگایا کہ وہ ان کے کارکن اغوا کر کے ان پر تشدد کر رہے ہیں۔ ’اظہر مشوانی کو سات دن کے لیے اغوا کر کے لے گئے۔ اور ہمیں پتہ ہے کون لے کے گیا، نہ ایف آئی اے لے کر گئی نہ پولیس لے کر گئی، ہمیں پتہ ہے کون سی ایجنسی لے کر گئی۔ اور وہ بھی جو کراچی سے اٹھایا ہمارا جو نوجوان ہے۔ اس کو بھی اٹھا کر لے گئے۔‘ ’اصل میں ان کو خوف آ گیا ہے، کہ ہم پر انہوں نے میڈیا میں تو پابندی عائد کر دی ہے، میڈیا میں تو مجھے دکھانے نہیں دے رہے، اگر ہم سوشل میڈیا پر آ گئے ہیں تو اب یہ سوشل میڈیا پر آ گئے ہیں کہ کسی طرح مجھے بلیک آؤٹ کیا جائے۔‘ ’انہوں نے کئی (کارکنوں) پر تشدد کیا ہے۔ کئی سوشل میڈیا کے لوگوں کو مارا۔ مجھے لگتا ہے کوئٹہ والے کو (تشدد) کیا اس نے کہا کہ میں کسی پارٹی کے ساتھ نہیں ہوں۔‘
عمران خان نے کہا کہ ان کی جماعت پر جنرل باجوہ کے دور سے زیادہ سختی کی جا رہی ہے۔ ’جنرل باجوہ نے ہمارے پر بڑا ظلم کیا۔ کیونکہ یہ ان کی ایجینسیز ہی ہمارے پیچھے تھیں۔ 25 مئی، جو پولیس سے بات کرتے تھے وہ کہتے تھے ہمیں پیچھے سے حکم ہے، پولیس نے جو تشدد کیا وہ کہتے تھے پیچھے سے یہ کر رہے ہیں، یعنی جنرل باجوہ کروا رہے ہیں۔ اور ہر قسم کے مقدمے، ہر جگہ میڈیا پر پابندی، ٹی وی چینلز سے پوچھتے تھے تو وہ کہتے تھے کہ پیچھے سے یہ کروا رہے ہیں تو پیچھے تو جنرل باجوہ تھا۔‘ ’امید یہ کر رہے تھے کہ جب جنرل باجوہ جائے گا، تو تبدیلی ہو گی تو کوئی تبدیلی آئے گی،
کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ وہی پالیسیز چل رہی ہیں بلکہ اس سے بھی کئی شدت پکڑ رہی ہیں۔‘ ’میں نہیں جانتا، مجھے کوئی اندازہ نہیں کہ کیوں ہے، لیکن مجھے اتنا پتہ ہے کہ ہمارے اوپر اس سے زیادہ تشدد شروع ہو گیا ہے جب باجوہ گیا تھا۔‘ عمران خان نے یہ بھی کہا کہ اسٹیبلشمنٹ نے 2018 کے انتخابات میں ان کی جماعت کی نشستیں جان بوجھ کر کم کروائی تھیں تا کہ ان پر کنٹرول کیا جا سکے۔ ’میرے خیال میں انہوں نے ہماری نشستیں کم کروائی تھیں، انہوں نے ہمیں کنٹرول کرنے کے لیے ہماری نشستیں کم کروائی تھیں۔ میں 2018 کی بات کر رہا ہوں۔‘ ’بالکل ہمارے خیال میں انہوں (اسٹیبلیشمنٹ) نے بالکل ہماری سیٹیں کم کروائی ہیں، ہمیں بالکل سیٹیں زیادہ نہیں ملیں، ہمیں اتنی سیٹیں نہیں ملیں جو ہمیں ملنی چاہیے تھیں۔‘
تحریک انصاف کے سربراہ نے ایک مرتبہ پھر سابق فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ پر شدید تنقید کی اور الزام لگایا کہ انہوں نے ان کے خلاف امریکہ میں مہم چلائی۔ ’جنرل باجوہ نے بڑا گندا کردار ادا کیا ہے، اس نے حسین حقانی کو ہائر کیا ہوا تھا، ہماری حکومت کے پیسے سے۔ اور وہ بڑی میرے خلاف مہم چلا رہا تھا کہ باجوہ امریکہ کے حق میں ہے اور عمران امریکہ کے مخالف ہے۔‘ ’میری حکومت گرائی کس نے، آرمی چیف نے، آرمی چیف قانون کے اوپر تھا
اس کو کوئی پوچھنے والا نہیں تھا، وہ سازش کرتا رہا اور آخر میں آ کے اس نے ان لوگوں کے ساتھ مل کے اور ساتھ پھر اس نے امریکیوں کو بھی میرے خلاف کر دیا تو ہماری حکومت گرا دی۔‘ ’جب عوام ہمارے ساتھ کھڑے ہو گئے، تو بجائے اس میں اتنی عقل ہوتی کہ میں غلط فیصلہ کر بیٹھا ہوں، عوام کے خلاف کبھی ملک کی اسٹیبلشمنٹ نہیں جاتی، وہ جا کے ہمارے خلاف ہو کے ان کے ساتھ کھڑا ہو گیا جن کی وجہ سے عوام ہمارے ساتھ آئی تھی، یعنی یہ جو اوپر جرائم پیشہ لوگ آ کے بیٹھ گئے ہیں جن کے اوپر گیارہ سو ارب روپے کے بدعنوانی کے مقدمات تھے، جب وہ ان کے ساتھ کھڑا ہوا تو قوم اور ادارے میں اور فاصلہ ہو گیا۔‘