(تحریر:علامہ محمد علی فاضل مدظلہ)
قارئین! اس موضوع کے پیشِ نظر ہم ایمان مجسم کی دعا و مناجات اور عبادت کے بارے میں قدرے تفصیل سے عرض کرنا مناسب سمجھتے ہیں۔ چنانچہ خداوندِ عالم سورہ ذاریات آیت 56 میں فرماتا ہے :
’’وَمَا خَلَقْتُ الجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّالِیَعْبُدُوْنِ‘‘
اور میں نے جن و انس کو خلق ہی اس لئے کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔
عبادت ، معرفت کے بغیر ناممکن ہے پہلے معرفت پھر عبادت۔
جیسا کہ اسی آیت کے سلسلے میں حضرات معصومین علیہم السلام سے مروی ہے کہ
’’اِلَّالِیَعْبُدُوْنِ‘‘ سے مراد ’’اِلَّا لِیَعْرِفُوْنِ‘‘ ہے، یعنی میری معرفت حاصل کریں۔
جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو اللہ نے معرفت کے لئے پیدا کیا ہے اور وہ اس ذاتِ کامل کی معرفت کے بعد اس کی بندگی کرتے ہیں اور ایسی ہی صورت میں ’’عبد‘‘ کے لئے کمال اور ارتقاء ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ کسی کی عبادت کا محتاج نہیں ہے ، لہٰذا انسان کی خلقت کی غرض اسی صاحبِ کمال کی بندگی کرنے سے پوری ہوتی ہے، نہ کہ کسی اور کی بندگی کرنے سے۔
اللہ نے انسان کو بندگی کے لئے خلق کیا ہے، یعنی اس نے انسان کی خلقت کے اندر بندگی کا شعور ودیعت فرمایاہے ، ارشاد ہوتا ہے:
’’فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَالنَّاسَ عَلَیْہَا لَاتَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ذَالِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّم‘‘ (روم/30)
وہ دین قیّم جس میں انحراف نہیں عین فطرت ہے، اگر اللہ کی بندگی فطری نہ ہوتی تو اس بندگی سے انسان کو سکون حاصل نہ ہوتا ، جیسے مچھلی اگر پانی میں زندہ رہنے کے لئے پیدا نہ ہوتی تو اسے پانی میں سکون نہ ملتا۔
قارئین! آئیے دیکھتے ہیں کہ ’’عبادت ‘‘کے معنی کیا ہیں؟ تو کتبِ لغت کی طرف رجوع کرنے سے جو معنی ملتے ہیں وہ ہیں ’’اللہ کو ایک جاننا، خدمت کرنا، خضوع و خشوع کرنا اور ذلیل ہونا‘‘جبکہ ’’عبودیت اور عبدیت‘‘ کے معنی ہیں ’’آباء و اجداد سے اطاعت اور غلامی میں چلے آنا‘‘
قرآن مجید میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’عبادت ‘‘ کی کس قدر اہمیت ہے؟ چنانچہ قرآن کے مختلف مقامات پر مختلف عناوین کے ساتھ اس کا 278 مرتبہ ذکر کیا گیا ہے اور جیسا کہ بتایا جا چکا ہے معرفت کے بغیر عبادت کا کوئی فائدہ نہیں اور معرفت جتنا زیادہ ہوگی عبادت اتنا کامل ہوگی ، اور عبادت جس قدر کامل ہوگی اسی قدر درجہ قبول کو پہنچے گی اور جس قدر خلوص سے کی جائے گی اسی قدر اس کی قدر و منزلت زیادہ ہوگی۔
ابھی بتایا جا چکا ہے کہ عبدیت اور عبودیت کے معنی ہیں اطاعت اور غلامی میں چلے آنا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عبد ہمیشہ اور ہر وقت اپنے مالک کی خدمت اور غلامی میں رہے اور اس کی زندگی میں کوئی لمحہ ایسا نہ آنے پائے جو مالک کی نافرمانی میں گزرے اور یہی ہے عبادت کی اصل روح ، اور یہ جو ہمارے ہاں مشہور ہے کہ عبادت نام ہے نماز اور روزے کا ، تو یہ عبادت کی اعلیٰ اور معروف ترین اقسام میں سے ہیں ورنہ اطاعتِ مولا میں گزرنے والا ہر ہر لمحہ عبادت ہے چاہے ’’عبد‘‘سویا ہوا ہو یا جاگ رہا ہو، چل پھر رہا ہو یا بیٹھا ہوا ہو، محراب مسجد میں ہو یا میدانِ جنگ میں ،روزے سے ہو یا کھاپی رہا ہو ، کھیت میں ہل چلا رہا ہو یا دکان میں بیٹھا سودا سلف بیچ رہا ہو، قلم بدست ہو یا ہاتھوں میں بیلچہ ہو، اپنے بچوں کا پیٹ پال رہا ہو یا یتیموں کی کفالت کررہا ہو، اپنے گھر والوں کی یاد میں ہو یا غریب الوطن اور ابنائے سبیل کی امداد کی فکر میں ، یہ سب کچھ عبادت ہے۔
یہی وجہ ہے کہ حضرات معصومین علیہم السلام نے عبادت کے اصل مفہوم کو سمجھا اور اس پر عمل پیرا ہوئے اور اس قدر عمل کیا کہ خدا کو خود کہنا پڑا (سورہ طہٰ آیت نمبر1)’’طٰہٰ، مَا اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْآنَ لِتَشْقیٰ‘‘ اے طیب و طاہر رسولؐ! آپ پر قرآن اس لئے نازل نہیں کیا کہ آپ اس قدر مشقت اٹھائیں۔
(سورہ مزمل آیت1تا 4)
’’یٰا اَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ قُمِ اللَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلاً، نِصْفَہٗ اَوِانْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلاً اَوْ زِدْ عَلَیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیْلاً‘‘
اے کپڑوں میں لپٹنے والے ! رات کو اٹھا کیجئے مگر کم، آدھی رات یا اس سے بھی کم کر لیجئے، یااس سے کچھ بڑھا دیجئے اور قرآن کو ترتیل کے ساتھ پڑھا کیجئے۔
ملاحظہ فرمایا آپ نے کہ خلوص نیت اور آ قا سے قلبی لگاؤ کی وجہ سے انجام پانے والا ہر عمل ایسی عبادت میں شمار ہورہا ہے کہ آقا کو اس سے کم کرنے کی تاکید کرنا پڑ رہی ہے، یہی کیفیت ہمارے دوسرے ائمہ اطہار علیہم السلام کی ہے، حتیٰ کہ کثرتِ عبادت کی وجہ تو ان میں سے ایک کا نام سید الساجدین اور زین العابدین مشہور ہو گیا ہے یعنی سجدہ کرنے والوں کے سردار اور عبادت کرنے والوں کی زینت اور یہ ہمارے چوتھے امام اور چھٹے معصوم حضرت علی بن الحسین علیہما السلام ہیں اور بروز قیامت بھی آپ کو اسی نام سے پکارا جائے گا۔
چنانچہ آپ کی عبادت کائنات میں شہرہ آفاق تھی، آپ کی ایک کیفیت یہ تھی کہ وضو شروع کرتے تھے تو چہرہ کا رنگ بدل جاتا تھا، کہ رب العالمین کی بارگاہ میں حاضری دینا ہے۔
نماز میں بسا اوقات جسم بید کی مانند لرز جاتا تھا کہ مالکِ یوم الدین کی بارگاہ میں کھڑے ہیں مدینہ منورہ میں آپ کا ایک باغ تھا جس میں خرما کے پانچ سو درخت تھے، جب باغ میں داخل ہوتے تھے تو ہر درخت کے نیچے دو رکعت نماز اداکرتے تھے۔
بعض اوقات نماز میں سورۃ الحمد کی تلاوت کرتے ہوئے ’’مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن‘‘ کی تکرار فرمایا کرتے تھے اور لرزتے رہتے تھے کہ میں اس کی بارگاہ میں کھڑا ہوں جو روزِ قیامت کا مالک ہے جس کا سارا ملک اس کے قبضہ قدرت میں ہے اور کسی کا کوئی اختیار نہیں اور مال و اولاد میں سے کوئی کام آنے والا نہیں ہے۔
یہ تھا حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی عبادت کا ایک مختصر سا جائزہ جسے تفصیل سے بیان کیا جائے تو اس کے لئے ایک عرصہ درکار ہے، لیکن یہی امام زین العابدین اور سید الساجدین ہیں کہ جب انہیں ان کے فرزند ارجمند حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے عبادت قدرے کم کرنے کا مشورہ دیا تو آپ نے ارشاد فرمایا :
’’ذرا وہ صحیفہ تو لے آؤ جس میں جد امجد حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کی عبادتو ں کا تذکرہ ہے!‘‘
جب وہ صحیفہ لایا گیا تو آپ نے اسے کھولا اور رو دئیے فرمایا :
’’مَن یَّبْلُغُ ذَالِکَ؟‘‘ اس منزل عبادت کو کون پا سکتا ہے؟
یہ کیوں نہ ہو ؟ اگر امام علی ابن الحسین ؑ کو آپ کی عبادت نے ’’زین العابدین‘‘ بنایا ہے تو امیرالمومنین علی ۔ کی فقط ایک ضربت ثقلین کی عبادت سے بھاری ہے جس کے متعلق سرکارِ سرورِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایاہے:
’’ضَرْبَۃُ عَلِیٍّ یَوْمَ الْخَنْدَقِ اَفْضَلُ مِنْ عِبَادَۃِ الثَّقَلَیْن‘‘ خندق کے دن علیؑ کی ایک ضربت ثقلین کی عبادت سے افضل ہے۔
جبکہ بعض روایات میں یہ بھی ملتا ہے کہ حضور سرورِ کائنات نے فرمایا:
’’۔۔۔اَفْضَلُ مِنْ اَعْمَالِ اُمَّتِیْ اِلیٰ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ ‘‘ میری امت کے قیامت کے دن تک کے اعمال سے افضل ہے، اور ایسا کیوں نہ ہو جبکہ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ آقا و مولا کی رضا و خوشنودی میں خلوصِ دل سے انجام پانے والا ہر عمل عبادت ہے اور خلوص جتنا زیادہ ہوگا عمل کی اہمیت اتنی بڑھ جائے گی اور وہ ثقلین کی عبادت پر بھی فضیلت حاصل کر لے گی۔
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کا زہد و تقویٰ، دنیا سے بے رغبتی اور اسے طلاق دینے کی روایات تو اظہر من الشمس اور متواتراتِ قطعیہ کا درجہ رکھتی ہیں، اور اس بارے میں خود آپ علی الاعلان ارشاد فرماتے نظر آتے ہیں کہ :
’’وَاللّٰہِ لَدُنْیَاکُمْ ھٰذِہٖ اَھْوَنُ فِیْ عَیْنِیْ مِنْ عِرَاقِ خِنْزِیْرٍ فِی یَدِ مَجْذُوْمٍ‘‘
خدا کی قسم تمہاری یہ دنیا میری آنکھوں میں خنزیر کی اس چچوڑی ہوئی ہڈی سے بھی زیادہ حقیر ہے جو کسی جذامی کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔
جبکہ نہج البلاغہ کے خطبہ 222 میں فرماتے ہیں:
’’وَاِنَّ دُنْیَاکُمْ عِنْدِیْ لَاَہْوَنُ مِن وَّرَقَۃٍ فِیْ جَرَادَۃٍ تَقْضِمُہَا، مَا لِعَلِیٍّ وَلِنَعِیْمٍ یَّفْنیٰ وَلَذَّۃٍلاَّیَبْقیٰ‘‘
تمہاری یہ دنیا تو میرے نزدیک اس پتی سے بھی زیادہ بے قدر اور حقیر ہے جو کسی ٹڈی کے منہ میں ہو اور وہ اسے چبا رہی ہو ، علی ؑ کو فنا ہونے والی نعمتوں اور مٹ جانے والی لذتوں سے کیا غرض؟
جن کے بارے میں حضرت عمر بن عبد العزیز کہتے ہیں کہ:’’ہمیں اس امت میں پیغمبرِ اکرم ﷺ کے بعد کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا جو علی بن ابی طالب ۔ سے بڑھ کر عابد و زاہد ہو‘‘
اس سے ہمارے عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ علی بن ابی طالب ۔ کو دنیا اور اس کی رونقوں اور لذتوں سے کوئی غرض نہیں تھی، لہٰذا دنیا میں جو کام بھی ہوتا تھا محض رضائے الٰہی کی خاطر ہوتا تھا اور آپ جو کام بھی کرتے محض ثواب و مرضات خداوندی کے لئے ہوتا، یہی وجہ ہے کہ آپ کی عبادت خلوص پر مبنی ہوتی اور اگر آپ کو میدان جنگ میں تیر لگ جاتا تو وہ تیر اس وقت نکالا جاتا جب آپ نماز کی حالت میں ہوتے اور اس وقت آپ کو پتہ بھی نہیں ہوتا تھا کہ تیر نکالا جارہا ہے، اس لئے کہ نماز میں فنا فی اللہ ہو کر جمالِ حق کے منشاء ہونے میں مستغرق اور ماسوی اللہ سے بالکل بے خبر ہوتے تھے۔
بقول مفسرین سورہ فتح کی آیت 29، آپ ہی کی شان میں نازل ہوئی ہے:
’’۔۔۔تَرَایھُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا سِیْمَاہُمْ فِی وُجُوْہِہِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ۔۔۔‘‘
تو ان کو دیکھے گا کہ (اللہ کے سامنے ) جھکے سربسجود ہیں، خدا کے فضل اور اس کی خوشنودی کے خواستگار ہیں، کثرتِ سجود کے اثر سے ان کی پیشانیوں پر نشانات پڑے ہوئے ہیں۔
کتاب مناقب ابن شہر آشوب میں ، کتاب روضۃ الواعظین سے نیشابوری کی روایت کے مطابق کہ عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں اتری:
’’۔۔۔اَمَّنْ ہُوَ قَانِتٌ آنآءَ اللَّیْلِ سَاجِداً وَّقَاءِماً یَّحْذَرُ الْآخِرَۃَ وَیَرْجُوْا رَحْمَۃَ رَبِّہ ۔۔۔‘‘(زمر/9)
کیا جو شخص رات کے اوقات میں سجدہ کر کے اور کھڑے ہو کر خدا کی عبادت کرتا ہو اور آخرت سے ڈرتا ہو اور اپنے رب کی رحمت کا امید وار ہو ۔۔۔(ناشکرے کافر کے برابر ہو سکتا ہے؟)
ایک شخص کہتا ہے کہ میں حضرت علی ۔ کی خدمت میں مغرب کے وقت حاضر ہوا تو آپ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، اسی طرح آپ نماز اور تلاوتِ قرآن میں طلوعِ فجر تک مشغول رہے ، پھر از سرِ نو وضو کیا اور مسجد میں تشریف لے آئے اور نمازِ صبح کی امامت فرمائی پھر نماز کی تعقیبات میں مشغول ہو گئے ، اور یہ سلسلہ طلوعِ آفتاب تک جاری رہا ، اس کے بعد آپ کے پاس لوگ اپنے مقدمات کا فیصلہ جات لے کر آئے، اور یہ سلسلہ قریب ظہر تک جاری رہا ، پھر آپ نے نمازِ ظہر کیلئے تجدیدِ وضو کیا ، اور نماز ظہر کی امامت فرمائی، پھر نمازِ عصر تک تعقیباتِ ظہر میں مشغول رہے، پھر عصر کی نماز پڑھائی اور مسندِ قضا پر بیٹھ گئے اور نمازِ مغرب تک لوگوں کے مقدمات کا تصفیہ فرماتے رہے یہ گویا آپ کے روزانہ کا معمول تھا۔
اسی کتاب میں حضرت امام محمد باقر ۔ فرماتے ہیں کہ: قرآن مجید میں جہاں پر بھی ’’۔۔۔ اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ۔۔۔‘‘ یعنی جولوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کئے ۔۔۔ آیا ہے وہیں پر اس سے مراد حضرت علی ۔ اور اس کے شیعہ ہیں (اور انہی کے لئے بے پایان اجر ہے)
اسی کتاب ہی میں ہے کہ حضرت امام محمد باقر ۔ فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کی سورۃ فاطر کی آیت 32 میں ہے کہ ’’وَ مِنْھُمْ سَابِقٌ بِّالْخَیْرَاتِ بِاِذْنِ اللّٰہِ‘‘ یعنی ان میں سے کچھ لوگ خدا کے اختیار سے نیکیوں میں اوروں سے گوئے سبقت لے گئے ہیں‘‘
کا مصداق بخدا علی بن ابی طالب علیہ السلام ہیں ۔
چنانچہ اسی بارے میں شاعر کہتا ہے :جس کا ترجمہ پیشِ خدمت ہے کہ : میدانِ جنگ میں دشمن کے گروہوں کو منتشر کرنے والا اور گردنوں کے مارنے والا بت شکن اور مشکل کشا __علی ۔ __ہے ، وہ محرابِ عبادت میں عابد و زاہد ، رکوع اور سجود کو رات کی تاریکیوں میں بجالاتا ہے، دوپہر کی شخصیت گرمیوں میں روزے سے ہوتا ہے اور اگر روزے کی افطاری کے وقت دروازے پر سائل آجاتا ہے تو کھانا اسے دے کر خود بھوکا سو جاتا ہے۔
اسی کتاب ہی میں عروہ بن زبیر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہمارے درمیان میں نیک اعمال کی گفتگو چل نکلی تو ابودرداء کہنے لگے:
’’سب سے بڑے عبادت گزار علی بن ابی طالب ۔ ہیں‘‘
پھر وہ اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ :’’میں نے انہیں ایک خلوت کے مکان میں دردناک آواز دل سوز انداز میں ان الفاظ کے ساتھ اپنے خالق ومالک سے مناجات کرتے سنا:
میرے معبود ! کتنے عذاب ایسے ہیں جو تونے مجھ سے برطرف کئے ہیں، بلکہ ان کے بدلے میں تو نے اپنے کرم سے مجھ سے دور کئے ہیں‘‘
بارالٰہا! اگر میری عمر تیری نافرمانی میں گزری ہے اور میرے نامہ اعمال میں گناہوں کا اضافہ ہوا ہے پھر بھی میں تیری مغفرت کا امیدوار ہوں اور تیری رضامندی کے سوا کسی اور چیز سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے نہیں ہوں۔
اس کے بعد آپ نے نماز کی کئی رکعتیں ادا کیں، پھر دعا اور گریہ و بکاء میں لگ گئے اور اپنے رب سے مناجات کرنے لگے۔
’’اِلٰہِیْ اُفَکِّرُ فِیْ عَفْوِکَ فَتَھُوْنَ عَلٰی خَطِیْءَتِیْ ثُمَّ اذْکُرُ الْعَظِیْمَ مِنْ اَخْذِکَ فَتَعْظَمَ عَلٰی بَلِیَّتِیْ‘‘
’’بارالٰہا! جب میں تیری بخشش کی طرف دیکھتا ہوں تو مجھے میرے گناہ حقیر نظر آتے ہیں، اور پھر جب میں تیری گرفت کو نظر میں لاتا ہوں تو میری مصیبت مجھے عظیم نظر آتی ہے‘‘
آہ! آہ!! میں نے اپنے نامہ اعمال میں برائیوں کو پڑھا ہی نہیں اور اگر پڑھا بھی تو اسے بھلا دیا، لیکن تو نے انہیں قلمبند کردیا اور انہیں نہیں بھلایا، جس کے نتیجے میں تو کہے گا کہ ’’اسے پکڑو!‘‘ ہائے اس وقت مجھ گرفتارِ بلا کا کیا حال ہوگا؟ جسے نہ تو اپنا قبیلہ چھڑا پائے گا اور نہ ہی قوم کے افراد کسی کام آسکیں گے۔
آہ! وہ آگ جو دل گردے جلا ڈالے گی !! آہ و ہ آگ جس کے جلا دینے والے شعلے بھڑکتے ہوں گے !
آہ! وہ آگ کی سختیاں جس کے اونچے اور بھڑکنے والے شعلے اپنی لپیٹ میں لے لیں گے!!
اس کے بعد آپ ؑ نے زور زور سے رونا شروع کردیا کہ آواز سنائی نہیں دے رہی تھی، پھر یکدم خاموش ہو گئے ، میں سمجھا کہ نیند غالب آگئی ہے، لہٰذا نمازِ صبح کے لئے آپ کو بیدار کروں، جب نزدیک سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ گویا ایک خشک لکڑی زمین پر پڑی ہوئی ہے، جب میں نے ہلایا تو آپ کو بے حس و حرکت پایا ، میں نے کہا: ’’اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ‘‘ خدا کی قسم علی ؑ اس دنیا سے کوچ فرما گئے ہیں ، پھر میں جلدی سے آپ کے گھر کے دروازے پر آیا اور گھر میں پیغام دیا کہ علی ؑ اس دنیا سے کوچ فرماگئے ہیں ، جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہانے پوچھا ’’تم نے انہیں کس حالت میں دیکھا ہے؟‘‘ میں نے تمام ماجرا بیان کیا تو انہوں نے فرمایا: ’’خدا کی قسم !ً یہ علی ؑ کے معمول کی حالت ہے جو ہر روز ان پر طاری ہوتی ہے اور غش کئے ہوئے ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے‘‘
پھر پانی لایا گیا جس سے علیؑ کے رخِ انور پر چھینٹے مارے گئے، جس سے آپ کو غشی سے افاقہ ہوا، انہوں نے مجھے روتے ہوئے دیکھ کر مجھ سے فرمایا: کیوں رو رہے ہو؟‘‘
میں نے وجہ بتائی، جس پر آپ نے فرمایا:
’’ابودرداء! اُس وقت تمہاری کیا حالت ہوگی جب دیکھو گے کہ مجھے حساب و کتاب کیلئے بلایا جارہا ہے اورتمام مجرمین کو عذاب ملنے کا یقین ہو چکا ہو اور مجھے تندخو اور درشت فرشتے اپنے گھیرے میں لئے ہوں اور میں جبار بادشاہ کے حضور کھڑا ہوں اور میرے قریبی دوست مجھے چھوڑ چکے ہوں، اور اہلِ دنیا میری حالت دیکھ کر میرے حال پر رحم کھارہے ہوں اور میں اس ذات کے سامنے کھڑا ہوں کہ جس سے کوئی بات بھی مخفی نہیں ہوتی‘‘
یہی بات ابن فہد حلی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب ’’عدۃ الداعی‘‘ ص 149 میں اور علامہ ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ کی جلد18 حکمت 75 کے ضمن میں لکھتے ہیں:
ہم یہاں پر اپنے قارئین کیلئے اس امر کی وضاحت کرتے چلیں کہ حضرت علی ۔ ہوں یا جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا ہمارے دیگر ائمہ اطہار علیہم السلام، کبھی کسی نے گناہ کا ارتکاب تو بجائے خود اس کا سوچا تک نہیں، مگرسورہ مومنون کی 56 ویں آیتِ مجیدہ نے اس بارے میں ان سے گناہ اور لغزش و خطا کی ان الفاظ میں نفی کی ہے:
’’وَالَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَااَتَواوَّ قُلُوْبُہُمْ وَجِلَۃٌ اَنَّھُمْ اِلٰی رَبِّھِمْ رَاجِعُوْنَ‘‘
وہ لوگ اطاعت کی بجاآوری میں تاحدِ امکان کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ آخر کار انہیں رب کی طرف لوٹ جانا ہے، وہ وہاں پر کیا جواب دیں گے؟ ، لہٰذا ان کے طیب و طاہر اور پاکیزہ ہونے کے باوجود ان کے دل عظمتِ پروردِ گار کی وجہ سے دھڑکتے رہتے ہیں ، اسی طرح اسی سورت کی آیت 57، 58 میں ہے:
’’اَلَّذِیْنَ ہُم مِّنْ خَشیَۃِ رَبِّھِمْ مُّشْفِقُوْنَ وَالَّذِیْنَ ہُم بِّآیَاتِ رَبِّھِمْ یُؤْمِنُوْنَ‘‘
ایسے لوگ اپنے رب کے خوف کی وجہ سے ہمیشہ ڈرتے رہتے ہیں اور یہی لوگ ہی اپنے رب کی آیات پر ایمان رکھتے ہیں۔
سورہ انفال کی آیت نمبر 2 میں ارشاد ہوتا ہے
’’اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہِ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُم ‘‘
مومن تو صرف وہی ہو تے ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل کانپ جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔
اسی لئے جناب سیدہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے ابو درداء کے جواب میں فرمایا: ’’اَبُو دَرْدَاء ! اَلْغَشْیَۃُ الَّتِیْ تَأْخُذُہٗ مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ‘‘ ان پر خوفِ خدا کی وجہ سے غشی طاری ہے(الکنیٰ والالقاب ج1 ص 65) اور جیسا کہ ہم اپنی سابقہ گفتگو میں عبادت کے معنی کے ذیل میں بتا چکے ہیں کہ ’’عبادت‘‘ خدا وند عالم کی عظمت کے پیشِ نظر اس کے لئے اپنی طرف سے فروتنی، ذلت اور عاجزی کا اظہار کرنا اور عبادت اپنے صحیح معنوں میں خضوع اور خشوع کے ساتھ ہی بجا لائی جا سکتی ہے اور سرکار رسالت مآب ﷺ فرماتے ہیں :’’بہترین انسان وہ ہے جو عبادت کا دلدادہ اور اس پر فریفتہ ہو اسے دل و جان سے دوست رکھتا ہو اور خود کو اس کے اختیار میں دیدے اور اسے اس بات کی پرواہ نہ ہو کہ اس کی زندگی خوشی کے ساتھ گزر رہی ہے یا غموں میں گھری ہوئی ہے ‘‘
جبکہ خود امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں : خالص عبادت یہ ہے کہ انسان خدا وند کے علاوہ کسی سے امیدیں وابستہ نہ کرے اور سوائے ذاتِ خدا کے کسی سے نہ ڈرے ، اسی طرح عبادت کے سلسلے میں مولا علی ۔ ہی فرماتے ہیں کہ :
’’کچھ لوگ خدا کی اس لئے عبادت کرتے ہیں کہ آخرت کے فوائد اور جنت کی لذتوں سے بہرہ مند ہوں تو یہ تاجروں والی عبادت ہوتی ہے، کچھ لوگ جہنم کی آگ سے بچنے کے لئے اس کی عبادت کرتے ہیں، تو یہ غلاموں والی عبادت ہے جبکہ کچھ لوگ خدا کی نعمتوں کے شکر اور اسے لائق عبادت جان کر اس کی عبادت کرتے ہیں، تو یہ آزاد منش لوگوں کی عبادت ہے اور یہی عبادت قابلِ قدر اور لائقِ تحسین ہے خداوندِ عالم بھی ایسی ہی عبادت کی قدر دانی کرتا ہے اور فرماتا ہے:’’اِنَّ ھٰذَا کَانَ لَکُمْ جَزَآءً وَکَانَ سَعْیُکُمْ مَّشْکُوْرًا ‘‘یقیناًیہ تمہارے لئے جزا ہے اور تمہاری محنت قابلِ قدر ہے ‘‘(دہر /22)اور یہ قدر دانی اس بنا پر ہے کہ ’’یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ وَیَخَافُوْنَ یَوْمًا کَانَ شَرُّہٗ مُسْتَطِیْرًا‘‘ اور وہ اپنی نذر پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی سختی ہر طرف پھیلی ہوگی(دہر/7) اور وہ ’’یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلیٰ حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا‘‘ اور وہ اپنی خواہش کے باوجود، خدا کی محبت میں مسکین، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں : ’’اِنَّمَانُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللّٰہِ لَانُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآءً وَّلَا شَکُوْرًا‘‘ ہم تمہیں صرف اللہ کی رضا کے لئے کھلا رہے ہیں، ہم تم سے نہ تو معاوضہ چاہتے ہیں اور نہ ہی شکر گزاری(دہر 8،9)
مذکورہ آیات سورہ دہر سے تعلق رکھتی ہیں جو اہلِ بیت ؑ کی شان میں اس وقت نازل ہوئی جب انہوں نے ایثار و قربانی کی لازوال مثال قائم کرتے ہوئے مسکینوں، یتیموں اور اسیروں کو کھانا کھلایا اور خودپانی سے روزہ افطار کیا، یقیناًاس عبادت میں علی ۔ سرِ فہرست ہیں۔
قارئین محترم جانتے ہیں کہ جس طرح نماز عبادت ہے، اسی طرح روزہ بھی عبادت ہے اور زکواۃ بھی عبادت ہے، نماز اور روزہ تو بیک وقت جمع ہو سکتے ہیں لیکن نماز اور زکوٰۃ بیک وقت صرف علی ۔ہی کی عبادت میں جمع ہیں ، جیسا کہ خدا وندِ عالم سورہ مائدہ کی آیت 55 میں ارشاد فرماتا ہے :
’’اِنَّمَا وَلِیُّکمُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَالَّذِیْنَ آمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکوٰۃ وَہُمْ رَاکِعُونَ‘‘
تمہارا ولی صرف اللہ اور اس کا رسول اور وہ اہلِ ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالتِ رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔
یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب مولا علی ۔ نے مسجدِ نبوی میں سائل کو حالتِ رکوع میں انگشتری عطا فرمائی تھی اور مفسر تفسیر الکوثر نے اس کے راوی یہ ائمہ اور اصحاب بتائے ہیں : حضرت علی ۔، امام حسین ۔، امام محمد باقر ۔، امام جعفر صادق ۔ ، ابن عباس، عمار یاسر، عبد اللہ بن سلام، سلمہ بن کہیل، انس بن مالک، ابوذر غفاری اور جابر بن عبد اللہ انصاری وغیرہم۔
قاضی یحیٰ نے المواقف ص405 میں شریف جرجانی نے شرح مواقف جلد5 ص17 میں علاؤ الدین قوشجی نے شرح تجرید میں کہا ہے کہ: اس بات پر اجماع ہے کہ یہ آیت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی شان میں اتری ہے اور عصرِ نزول قرآن کے شاعردربار رسالت حضرت حسان بن ثابت نے اپنے اشعار میں امیر المومنین علیہ السلام کی ذات کو ان الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے:
فَأَنْتَ الَّذِیْ اَعْطَیْتَ اِذْ کُنْتَ رَاکِعًا
زَکوٰۃً فَدَتْکَ النَّفْسُ یَا خَیْرَ رَاکِعٖ
فَأَنْزَلَ فِیْکَ اللّٰہُ خَیْرَ وِلَایَۃٍ
وَبَیَّنَہَا فِی مُحْکَمَاتِ الشَّرَاءِعِ
یا علی ؑ ! آپ ؑ ہی نے حالتِ رکوع میں زکوٰۃ ادا کی ہے، اے بہترین رکوع کرنے والے! ہماری جانیں آپ پر قربان جائیں۔
اسی بنا پر اللہ نے آپ کے بارے بہترین ولایت کو نازل فرمایا ہے اور اسے اپنی محکم آیات میں واضح طور پر بیان کر دیا ہے۔
چنانچہ علی بن ابی طالب علیہ السلام نے زندگی کے ہر مرحلہ پر ایسی عبادت کی کہ خداوند عالم نے اس کی قدر دانی کی حتیٰ کہ رسول پاک ﷺ کے بقول’’ آپ ؑ کے چہرے کی طرف دیکھنا عبادت ہے‘‘’’اَلنَّظَرُ اِلٰی وَجْہِ عَلِیٍّ عِبَادَۃ‘‘اگر کسی کو آپ کے چہرے کی زیارت کا شرف حاصل نہ ہو سکے اس کے لئے آپ کا ذکر عبادت قرار دیا گیا کہ :’’ذِکْرُ عَلِیٍّ عِبَادَۃ‘‘ اگر کوئی ایسا سخت موقع آجائے جہاں آپ کے ذکر پر پابندی ہو تو وہاں آپ کی محبت عبادت ہے، ارشاد ہوتا ہے: ’’حُبُّ عَلِیٍّ عِبَادَۃ‘‘
ایسا کیوں نہ ہو جبکہ آپ نے عبادت کا حق ادا کرنے کے باوجود اپنے مالک و معبود کی بارگاہ میں اظہارِ عجز کرتے ہوئے عرض کیا :’’مَاعَبَدْنَاکَ حَقَّ عِبَادَتِکَ‘‘ یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی ہم تیری عبادت کا حق ادا نہیں کر پائے اس مقام پر ہم دربارِ شام میں پیش آنے والے ایک اہم واقعہ کا ذکر کرتے ہیں :
ضرار بن ضمرہ ضبابی جو امیرالمومنین ؑ کے خواص میں سے تھے ایک مرتبہ مولا علی ؑ کی شہادت کے بعد شام گئے اور امیرشام نے انہیں اپنے دربار میں بلایا اور ان سے کہا :
’’ علی ؑ کے بارے میں مجھے کچھ بتاؤ!‘‘ ضرار نے کہا:
’’ اس بارے میں مجھے معاف کردیں، میں کچھ نہیں کہہ سکتا‘‘ اس نے کہا:
معافی قطعاً نہیں مل سکتی، ضرور بتاؤ!! تو ضرار نے کہا:
اگر تم مُصِر ہو تو سنو!!
’’ کَانَ وَاللّٰہِ بَعِیْدَ الْمُدیٰ، شَدِیْدَ الْقُویٰ ، یَقُوْلُ فَصْلاً وَّیَحْکُمُ عَدْلاً یَّتَفَجَّرُ الْعِلْمُ مِنْ جَوَانِبِہٖ وَیَنْطِقُ الْحِکْمَۃَ مِن نَّوَاحِیْہِ، یَسْتَوْحِشُ مِنَ الدُّنْیَا وَزَہْرَتِہَا، وَےَسْتَأْنِسُ بِالَّلیْلِ وَوَحْشَتِہٖ، وَکَانَ وَاللّٰہِ غَرِیْزَ الْعَبْرَۃِ، طَوِیْلَ الْفِکْرَۃِ، یُقَلِّبُ کَفَّیْہِ وَیُخَاطِبُ نَفْسَہٗ وَیُنَاجِیْ رَبہٗ‘‘
خدا کی قسم ! علی ؑ یقین کامل کے مالک تھے ، ہر لحاظ سے قوی، حق بات کہتے تھے، عدل پر مبنی فیصلے کیا کرتے تھے، آپ کے وجود سے علم کے سوتے پھوٹتے تھے تمام وجود سے حکمت کے موتی جھڑتے تھے، دنیا اور اس کی زرق برق سے وحشت کرتے تھے اوررات کی تاریکی اور اس کی وحشت سے مانوس تھے، خوفِ خدا میں ان کی آنکھوں سے مسلسل اشک رواں تھے، طویل فکر کے مالک تھے، ہاتھوں کو مل کر اپنے آپ کو ملامت کرتے تھے اور اپنے رب سے مناجات کرتے تھے، موٹا کپڑا پہنتے تھے اور روکھی سوکھی روٹی پر گزارہ کیا کرتے تھے ، خدا کی قسم وہ ہمارے درمیان خود ہم جیسے تھے، جب ہم ان کے پاس جاتے تو وہ ہمیں اپنے نزدیک بٹھاتے ، جب ان سے سوال کرتے تو اس کا جواب عنایت فرماتے، باوجودیکہ محفل میں ہمیں ان کا قرب حاصل ہوتا اور ہم ان کے ہم نشین ہوتے مگر ان کا رعب اور ہیبت اس قدر تھی کہ ہمیں بات کرنے کی جرأت نہیں ہوپاتی تھی، ان کی عظمت اس قدر تھی کہ ہم ان کو آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتے تھے، جب وہ مسکراتے تو معلوم ہوتا کہ ان کے لبوں کے ساتھ موتی جڑے ہوئے ہیں، متدین افراد کی عزت کرتے تھے اور فقراء و مساکین کے ساتھ محبت کیا کرتے تھے، نہ تو کوئی طاقتور انسان اپنے باطل دعویٰ میں ان سے اپنے حق میں فیصلے کی توقع رکھ سکتا تھا اور نہ ہی کوئی کمزور شخص ان کے عدل سے ناامید ہوتا تھا۔
’’اُشْھِدُ بِاللّٰہِ لَقَدْ رَأَیْتُہٗ فِیْ بَعْضِ مَوَاقِفِہٖ وَقَدْ اَرْخیٰ اللَّیْلُ سُدُو لَہٗ وَغَارَتْ نُجُوْمُہٗ وَہُوَ قَآءِمٌ فِیْ مِحْرَابِہٖ قَابِضٌ عَلیٰ لِحْیَتِہٖ یتَمَلْمَلُ تَمَلْمَلُ السَّلِیْم وَیَبْکِیْ بُکَآءَ الْحَزِیْنِ فکانی اَسْمَعْہٗ وَہُوَ یَقُوْلُ‘‘
میں اس امر کی شہادت دیتا ہوں کہ میں نے بعض موقعوں پر آپ کو دیکھا جبکہ رات اپنے دامن ظلمت کو پھیلا چکی تھی تو آپ محراب عبادت میں ایستادہ ریش مبارک کو ہاتھوں میں پکڑے ہوئے مارگزیدہ کی طرح رورہے تھے اور کہہ رہے تھے :’’یَا دُنْیَا، یَا دُنْیَا اِلَیْکِ عَنِّیْ!! اَبِیْ تَعَرَّضْتِ اَمْ اِلیّ تَشَوَّقْتِ؟ لَاحَانَ حِیْنُکِ، غُرِّیْ غَےْرِیْ لَاحَاجَۃَ لِیْ فِیْکِ قَدْ طَلَّقْتُکِ ثَلَاثًا لَّا رَجْعَۃَ فِیْہَا، فَعَیْشُکِ قَصِیْر، وَخَطَرُکِ یَسِیْر، وَمُلْکُکِ حَقِیْر، آہٍ مِّنْ قِلَّۃِ الزَّادِ وَطُوْلِ الطَّرِیْقِ وَبُعْدِ السَّفَرِ وَعَظِیْمِ الْمَورِد!!‘‘
اے دنیا! اے دنیا!! دور ہو مجھ سے کیا میرے سامنے ا پنے کو لاتی ہے؟ یا میری دلدادہ فریفتہ بن کر آئی ہے؟ تیرا وہ وقت نہ آئے (کہ تومجھے فریب دے سکے ) بھلا یہ کیونکر ہو سکتا ہے؟ جا کسی اور کو دھوکہ دے ، مجھے تیری خواہش نہیں ہے، میں تو تجھے تین بار طلاق دے چکا ہوں کہ جس کے بعد رجوع کی گنجائش نہیں ، تیری زندگی تھوڑی، تیری اہمیت بہت کم اور تیری آرزو ذلیل و پست ہے۔
افسوس زادِ راہ تھوڑا، راستہ طویل ، سفر دور دراز اور منزل سخت ہے۔
چنانچہ جب امیر شام نے ضرار کی زبانی یہ واقعہ سنا تو اس کی آنکھیں اشک بار ہوگئیں اور کہنے لگا:’’رَحِمَ اللّٰہُ اَبَاالْحَسَن کَانَ وَاللّٰہِ ذَالِکَ‘‘ یعنی خدا ابوالحسن پر رحم کرے وہ واقعاً ایسے ہی تھے ‘‘پھر ضرار سے مخاطب ہو کر کہا:
’’ تمہاری علی ؑ کے ساتھ کس حد تک محبت تھی؟‘‘کہا:
’’جس طرح مادرِ موسیٰ ؑ کی موسیٰ ؑ کے ساتھ‘‘اس نے پوچھا:
’’تمہیں علی ؑ کی موت کا کتنا غم ہے؟‘‘ضرار نے کہا :
بس یہ سمجھ لو کہ میرا غم اتنا ہی ہے جتنا اس ماں کا ہوتا ہے کہ جس کی گود میں اس کا اکلوتا بچہ ذبح کردیا جائے!!!
یہ کہا اور دربار سے آنسو بہاتا اٹھ کر باہر آگیا۔
علی ؑ مولا مقام عبادت میں اس حد تک بلند و بالا ہیں کہ اپنے معبود سے مخاطب ہو کر عرض کرتے ہیں:
’’مَاعَبَدتُّکَ طَمَعًا لِّلْجَنَّۃِ وَلَا خَوْفًا لِّلنَّارِ، بَلْ وَجَدتُّکَ اَہْلاً لِّذَالِکَ فَعَبَدتُّکَ‘‘
میں تیری عبادت اس لئے نہیں کرتا کہ تیری جنت کی لالچ ہے اور نہ اس لئے کہ تیری جہنم کا خوف ہے بلکہ تجھے لائقِ عبادت سمجھ کر تیری عبادت کرتا ہوں۔
بہر حال علی بن ابی طالب ۔نے عبادت کا وہ حق ادا کیا کہ حالتِ نماز میں شرفِ شہادت حاصل ہوا اور بوقتِ آخر ارشاد فرمایا:
’’فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃ‘‘ رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا۔بشکریہ شفقنا نیوز