(تحریر: علی احمدی)
حال ہی میں عبری زبان میں شائع ہونے والے ایک صیہونی اخبار نے تہلکہ خیز خبر شائع کی ہے جس میں صیہونی ملٹری انٹیلی جنس ادارے "امان” کی جانب سے ایک خطرناک وارننگ کا ذکر کیا گیا ہے۔ خبر کے مطابق صیہونی ملٹری انٹیلی جنس نے خبردار کیا ہے کہ آئندہ برس تک جعلی ریاست اسرائیل میں ایک بڑی خانہ جنگی کے امکان میں اضافہ ہو گیا ہے۔ "امان” کی جانب سے جاری کردہ اس وارننگ پر مشتمل رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ حقیقت بہت ہی واضح طور پر دکھائی دے رہی ہے کہ ایران، حزب اللہ اور حماس اسرائیل کے خلاف شدید جارحانہ کاروائیوں کی تیاری میں مصروف ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل خود کو درپیش مسلسل اندرونی بحرانوں کے باعث کمزور ہو گیا ہے اور اس کی دفاعی صلاحیتوں میں بے تحاشہ کمی واقع ہوئی ہے۔
صیہونی ملٹری انٹیلی جنس کی اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ایران، حزب اللہ اور حماس کی اختیار کردہ حکمت عملی کے نتیجے میں مختلف محاذوں پر محدود پیمانے پر جھڑپوں کا امکان پایا جاتا ہے لیکن ساتھ ہی یہ خطرہ بھی موجود ہے کہ ان میں سے کوئی محدود جھڑپ نہ چاہتے ہوئے غیر متوقع طور پر بھرپور جنگ میں تبدیل ہو جائے۔ صیہونی اخبار ہارٹز نے اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ صیہونی ملٹری انٹیلی جنس حکام نے گذشتہ چند ماہ میں اس منظرنامے کو "مکمل طوفان” کا نام دے رکھا ہے۔ رپورٹ میں اس ممکنہ منظرنامے کے تحقق میں فلسطین کے کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ خاص طور پر مسجد اقصی میں فلسطینی نمازیوں اور اعتکاف پر بیٹھے مسلمانوں پر صیہونی پولیس کا حملہ، مغربی کناے میں مزاحمتی کاروائیوں میں اضافہ اور غزہ سے راکٹ حملوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔
صیہونی ملٹری انٹیلی جنس ادارے "امان” کی رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ جنگ کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے اور اس کے بنیادی اسباب مشرق وسطی پر امریکہ کی عدم توجہ، مقبوضہ فلسطین میں جاری عدم استحکام اور اسرائیل پر براہ راست حملہ کرنے کیلئے ایرانی حکام میں بڑھتی خوداعتمادی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کی جانب سے مشرق وسطی پر عدم توجہ کی بنیادی وجہ عالمی اثرورسوخ کے میدان میں چین سے مقابلہ بازی پر اصرار کرنا اور یوکرین جنگ سمیت روس کی فوجی طاقت اور سرگرمیوں کا مقابلہ کرنا ہے۔ "امان” نے اپنی رپورٹ میں امریکہ کے بعض ایسے اقدامات کا ذکر بھی کیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ واشنگٹن کی نظر میں خطے کی اہمیت کم ہو گئی ہے۔ مثال کے طور پر ایران کی جانب سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر حملوں کا جواب نہ دینا۔
اسی طرح امریکہ کی جانب سے اپنے جدید جنگی طیاروں کو مشرق وسطی سے اوقیانوس خطے میں منتقل کر دینا اور شام میں اپنے فوجی اڈوں پر حملہ کرنے والے مسلح گروہوں کے خلاف موثر انداز میں کاروائی نہ کرنا بھی ایسی ہی علامات ہیں۔ صیہونی انٹیلی جنس ادارے کی رپورٹ کے مطابق ایران اب تک اپنے اتحادی گروہوں کو تل ابیب پر حملہ کرنے کی ترغیب دلا رہا تھا اور ان کی مالی اور فوجی مدد کر رہا تھا لیکن گذشتہ کچھ عرصے سے ایران نے عملی طور پر ان گروہوں کا ساتھ دینا شروع کر دیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے: "جس چیز نے ایران کو اپنی حکمت عملی اس سمت لے جانے پر مجبور کیا ہے وہ اسرائیل کی جانب سے ایران میں کاروائیاں نیز شام میں حزب اللہ کیلئے بھیجی جانے والی ایران کی فوجی امداد کو فضائی حملوں سے نشانہ بنانا ہے۔” رپورٹ کے ایک اور حصے میں صیہونی اور امریکی مسلح افواج میں باہمی تعاون میں کمی کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔
صیہونی ملٹری انٹیلی جنس ادارے کی رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ خطے میں امریکہ کی مرکزی کمان "سینٹکام” اب پہلے کی طرح تل ابیب کو انٹیلی جنس معلومات فراہم نہیں کر رہا اور اسے خطے سے متعلق اپنے منصوبوں سے بھی آگاہ نہیں کرتا۔ رپورٹ میں بیان کردہ حقائق ان چیزوں سے بہت مختلف ہیں جو امریکہ کے فوجی اور سیاسی حکام اپنے تل ابیب دوروں کے دوران بیان کرتے ہیں۔ صیہونی ملٹری انٹیلی جنس کے مطابق امریکی فوجی اور سیاسی حکام کے ان دوروں کا اصلی ترین مقصد اس بابت اطمینان حاصل کرنا ہوتا ہے کہ اسرائیل مشرق وسطی میں کوئی ایسا اقدام انجام نہ دے جو امریکی مفادات کو خطرے میں ڈال سکتا ہو۔ رپورٹ کے مطابق امریکی حکام اس بات پر پریشان ہیں کہ اسرائیل کی پالیسیاں انہیں ایران سے براہ راست جنگ کی جانب دھکیل سکتی ہیں۔
صیہونی ملٹری انٹیلی جنس کی اس رپورٹ میں گذشتہ چند ماہ کے دوران بعض عرب ممالک میں ایران کی جانب جھکاو پیدا ہونے کی اصل وجہ بھی خطے سے متعلق امریکہ کی ترجیحات میں تبدیلی قرار دی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس بات کا سب سے بڑا ثبوت سفارتی تعلقات بحال کرنے پر مبنی ایران اور سعودی عرب میں حالیہ معاہدہ ہے۔ یاد رہے 10 مارچ 2023ء کے دن چین میں ایران، سعودی عرب اور چین کے اعلی سطحی حکومتی عہدیداران کے درمیان ایک اہم اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں ایران اور سعودی عرب نے سات برس تک منقطع رہنے کے بعد سفارتی تعلقات دوبارہ بحال کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس اجلاس کے نتیجے میں طے پانے والے معاہدے میں کہا گیا تھا کہ ایران اور سعودی عرب ایکدوسرے سے سفارتی تعلقات بحال کریں گے اور آئندہ دو ماہ کے اندر دونوں ممالک کے سفارتخانے کھول دیے جائیں گے۔بشکریہ اسلام ٹائمز