Breaking News
Home / کالمز / جی7 کیخلاف ایران اور چین کا انتباہ

جی7 کیخلاف ایران اور چین کا انتباہ

(تحریر: مجید وقاری)

چین کی وزارت خارجہ نے جاپان کے شہر ہیروشیما میں جی 7 سربراہی اجلاس کے شرکاء کے بیانات کے جواب میں اعلان کیا کہ اس گروپ نے چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے ساتھ ساتھ مخالفانہ اور معاندانہ رویہ اپنایا ہے۔ چین کی وزارت خارجہ نے جاپان کے شہر ہیروشیما میں منعقد ہونے والے اجلاس میں گروپ آف سیون کے رہنماؤں کے چین مخالف بیانات کے خلاف اپنے احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ اس بیان میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ گروپ آف سیون اس ملک سے متعلق معاملات میں جوڑ توڑ، چین کی ساکھ کو داغدار کرنے، اس پر حملہ کرنے اور چین کے سنگین تحفظات کی پرواہ کیے بغیر ملک کے اندرونی معاملات میں دشمنانہ مداخلت پر اصرار کرتا ہے۔
یاد رہے کہ جرمنی، فرانس، اٹلی، جاپان، انگلینڈ، امریکہ اور کینیڈا جی 7 کے رکن ممالک ہیں۔

یہ پہلے سے ہی پیش گوئی کی جا چکی تھی کہ امریکہ G7 سربراہی اجلاس، جن اہداف اور پروگراموں میں سے ایک کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، اس میں چین کے خلاف تائیوان کے جزیرے کا مسئلہ ہے۔ مختلف سیاسی، اقتصادی اور حتیٰ کہ سکیورٹی کے شعبوں میں چین کا سامنا کرنے میں امریکہ کی ناکامی نے امریکہ کو چین کے خلاف اتحاد بنانے کی سمت میں قدم بڑھایا ہے اور اس لیے وہ چین پر دباؤ ڈالنے کے لیے ہر موقع کا استعمال کرتا ہے۔ ہیروشیما میں G7 سربراہی اجلاس نے امریکا کو اسی طرح کا موقع فراہم کیا ہے۔ صدر جو بائیڈن چین کے خلاف اپنے اتحادیوں کا نام نہاد اتفاق رائے ظاہر کرنے کے لیے مختلف طرح کے اقدامات کرتے رہتے ہیں۔

سیاسی اور بین الاقوامی امور کے ماہر لی کان کہتے ہیں: "اگرچہ امریکہ چین پر دباؤ ڈالنے کے لیے جی 7 سربراہی اجلاس جیسے بین الاقوامی اجلاسوں کو استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن چین اچھی طرح جانتا ہے کہ یورپی ممالک چین پر دباؤ ڈالنے کے لئے امریکہ کے ہاتھوں استعمال نہیں ہونگے۔ اگرچہ صنعتی ممالک کے رہنماء چین کے خلاف بیانات دیتے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ چین کے خلاف واشنگٹن کے موقف سے مکمل ہم آہنگ ہیں، کیونکہ یورپ کو چینی منڈیوں کی ضرورت ہے۔

گروپ آف سیون کے رہنماؤں کے مداخلت پسندانہ بیانات پر چین کی ناراضگی اور سخت مخالفت کا اظہار
چین نے G7 اجلاس کے میزبان کی حیثیت سے G7 اجلاس کے رہنماؤں کے مداخلت پسندانہ بیانات، خاص طور پر تائیوان کے موضوع پر اپنی ناراضگی اور سخت مخالفت کا اظہار کیا ہے۔ چین کے نقطہ نظر سے، امن اور استحکام کے بارے میں گروپ آف سیون کے بیانات عالمی میدان میں اس گروپ کے رکن ممالک کے اقدامات سے میل نہیں کھاتے۔ یہ وہی مسئلہ ہے، جو بین الاقوامی امن کی راہ میں رکاوٹ اور خطے کے استحکام کو نقصان پہنچاتا ہے، نیز دوسرے ممالک کی ترقی کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ امریکہ امن اور اتحاد جیسے الفاظ اور فقرے استعمال کرتا ہے، لیکن واشنگٹن اور اس کے اتحادیوں کا طرز عمل اس کے مخالف ہے۔ امریکہ کی پالیسیاں نہ صرف امن اور ہم آہنگی پیدا نہيں کرتیں، بلکہ عالمی حالات کو عدم استحکام اور بحران کی طرف لے جاتی ہیں، جن میں سے ایک یوکرین کی جنگ میں امریکہ کا حالیہ کردار ہے۔ امریکہ یوکرین میں جلتی پر تیل کا کام کر رہا ہے، جس سے دنیا کو شدید عدم استحکام اور عدم تحفظ کا سامنا ہے۔

امریکہ کی امن کی بات جھوٹ سے زیادہ کچھ نہیں
بین الاقوامی امور کے ماہر کاٹو اس بارے میں کہتے ہیں: "ہیروشیما اور ناگاساکی میں جس طرح ایٹم بم گرایا تھا، اس سے دنیا میں امن اور سلامتی کے قیام میں امریکہ کے خلوص کو واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ امریکہ نے ہیروشیما جیسے شہروں پر بم گرائے اور لاکھوں لوگوں کو ہلاک اور معذور کیا، نسلیں گزر جانے کے بعد بھی اس کے اثرات ہیروشیما اور ناگاساکی کے لوگوں کو ستاتے رہتے ہیں، اس لیے دنیا اچھی طرح جانتی ہے کہ امریکہ کی امن کی بات جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔”

بیجنگ حکومت نے چین کے اندرونی معاملات میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی مداخلت کے بارے میں بارہا خبردار کیا ہے۔ تائیوان چین کی مادر وطن کا ایک حصہ ہے، جسے امریکہ اور اس کے اتحادی جزیرے کی آزادی کے حمایت کرکے بیجنگ حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ادھر ہینری کسنجر سمیت امریکی ماہرین بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ تائیوان، بیجنگ کی ریڈ لائن ہے اور واشنگٹن کو تائیوان کے بارے میں چین کے تحفظات اور انتباہات کو سنجیدگی سے لینا چاہیئے۔ بصورت دیگر دنیا کو بہت مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جن پر قابو پانا آسان نہیں ہوگا۔

ادھر ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے گروپ سات کے سربراہی اجلاس کے بیان کے اس حصے کی شدید مذمت کی ہے، جس میں ایران کے خلاف بے بنیاد اور من گھڑت الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ ایران کے دفتر خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے ایران کے پرامن جوہری پروگرام کے خلاف عائد کئے جانے والے بے بنیاد الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کا ایٹمی پروگرام پرامن ہے، جس کا فوجی نوعیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ناصر کنعانی نے سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس پر عمل درآمد کی حمایت کے لئے تمام ملکوں کو دعوت دیئے جانے سے متعلق گروپ سات کے رہنماؤں کے اقدام کو نہایت عجیب اور ان ملکوں کی متضاد پالیسیوں کا آئینہ دار قرار دیا، چونکہ یہ ممالک خود اس قرارداد کی خلاف ورزی اور ایرانی قوم کے خلاف زیادہ سے زیادہ غیر قانونی پابندیوں کو نافذ کرنے والے رہے ہیں۔

ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بین الاقوامی ایٹمی سمجھوتے کو ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کے بارے میں نمائشی تشویش دور کرنے کے لئے ایران کی نیک نیتی کا حامل اور کثیر جانبہ سفارتی مہم کا نتیجہ قرار دیا اور کہا کہ قابل افسوس بات یہ ہے کہ امریکہ نے اس بین الاقوامی سمجھوتے سے غیر قانونی اور یکطرفہ طور پر علیحدگی اختیار اور اسی طرح دیگر یورپی فریقوں نے عمل درآمد نہ کرکے اس سمجھوتے کو بھاری نقصان پہنچایا ہے۔ ناصر کنعانی نے کہا کہ ایران ہمیشہ بین الاقوامی معاہدوں پر کاربند رہا ہے اور وہ این پی ٹی اور سیف گارڈ معاہدے کے تحت آئی اے ای اے کے ساتھ تعمیری مفاہمت و تعاون جاری رکھنے کا سنجیدہ عزم رکھتا ہے۔ ایران کے دفتر خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے ایران کے خلاف انسانی حقوق کے مسئلے سے گروپ سات کی جانب سے سیاسی اور ایک حربے کے طور پر استفادہ کئے جانے کی شدید مذمت کی اور کہا کہ ان ممالک کو چاہیئے کہ ایران کے خلاف بے بنیاد الزامات کے بجائے اندرون و بیرون ملک ایرانیوں کے انسانی حقوق کی سسٹمی خلاف ورزی اور ایرانی قوم کے خلاف غیر قانونی و ظالمانہ پابندیوں کے نفاذ کا جواب دیں۔بشکریہ دنیا نیوز

نوٹ:ادارےکا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Check Also

حزب اللہ کے نصراللہ اسرائیل کے خلاف کب تک اپنے آپ کو روکے رکھیں گے؟

(شہاب الدین صدیقی) غزہ پر اسرائیلی حملے کے پہلے چار ہفتوں تک سید حسن نصراللہ …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے