برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ کا کہنا ہے کہ عراق جنگ کی حمایت کرنا ان کے سیاسی کیریئر کا سب سے بڑا پچھتاوا ہے۔ برطانوی اخبار دی آبزرور کے مطابق ویلز میں ایک لٹریچر فیسٹول سے خطاب کرتے ہوئے ڈیوڈ ملی بینڈ کا کہنا تھا کہ عراق جنگ کا نتیجہ مغرب کے اخلاقی دیانت اور بین الاقوامی امن اور انصاف قائم کرنے کے دعوؤں کو ’حقیقی نقصان‘ کی صورت میں نکلا۔ ان کا کہنا تھا کہ عراق جنگ نے مغرب میں دوغلے پن کے الزامات پر روس مخالف موقف کو بھی نقصان پہنچایا۔’میں نے جنگ کے حق میں ووٹ دیا۔ میں نے حکومت کے موقف کی تائید کی اور میرے ذہن میں کوئی اشکال نہیں کہ یہ (فیصلہ) کتنا غلط تھا۔‘ ڈیویڈ ملی بینڈ، جو کہ اس وقت انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی کے سی ای اور ہیں، نے سامعین پر زور دیا کہ وہ کینیا کے صدر ویلیم رٹو کی بات پر غور کریں جنہوں نے دنیا کے دوسرے حصوں خصوصاً افغانستان اور فلسطین پر زیادہ توجہ دینے پر زور دیا۔ ملی بینڈ نے کہا کہ ‘جی، یوکرین میں بہت غربت ہے لیکن ایتھوپیا، افغانستان اور فلسطین کے بارے میں کیا خیال ہے۔‘ ’میرا خیال ہے کہ اگر ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ مغرب کا کردار عالمی سیاست میں کیا ہو تو ہمیں افغانستان اور فلسطین کو بہت زیادہ سنجیدہ لینا ہوگا۔‘ انہوں نے عراق کی جنگ کو ’تزویراتی غلطی‘ قرار دیا۔ ڈیوڈ ملی بینڈ کا کہنا تھا کہ عراق کی جنگ بعد میں جو کچھ یوکرین میں ہوا اس کے لیے جواز نہیں، تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ مغرب کا دوغلاپن بہت ہی سنجیدہ نکتہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یوکرین نے مغرب کو متحد کیا لیکن اس نے مغرب کے علاوہ بڑی حد تک دنیا کو تقسیم کر دیا۔ ’ 40 سے 50 مملک نے روس کی مذمت سے انکار کیا۔ ان کے انکار کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ روسی حملے کو سپورٹ کر رہے تھے بلکہ ان کا احساس تھا کہ مغرب دوغلے پن کا شکار ہے اور گذشتہ 30 سالوں کے دوران عالمی مسائل سے نمٹنے میں کمزوری کا شکار رہا ہے۔‘