(تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم) گذشتہ دنوں فلسطین کے مغربی کنارے میں غاصب صیہونی فوجیوں کی درندگی اور سفاکیت نے انسانیت کے چہرے کو شرمندہ کر دیا ہے۔ غاصب صیہونی فوجیوں نے ایک دو سالہ معصوم بچے کو بے دردی سے سر میں گولی کا نشانہ لگا کر موت کی نیند سلا دیا ہے۔ فلسطین کے مغربی کنارے میں صیہونی غاصبوں کے ہاتھوں قتل ہونے والا معصوم دو سالہ بچہ محمد التیمی ہے۔ یہ وہ بچہ ہے کہ جس نے آنکھ کھولی تو اپنے بنیادی آزادی کے حق سے خود کو محروم پایا۔ صیہونیوں کے تسلط میں رہا۔ ابھی دو سال کی عمر میں ہی تھا کہ صیہونیوں کی درندگی نے ثابت کر دیا کہ فلسطینی چاہے ستر سالہ بوڑھا ہو یا دو سالہ بچہ ہو، صیہونی اس کو قتل کرتے ہیں۔ فلسطین کے اس معصوم فرزند کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوچکی ہیں۔ ہر درد رکھنے والا دل افسردہ اور ہر آنکھ اشک بار ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس دو سالہ معصوم بچے کا دردناک قتل عالمی ضمیر کو بیدار کر پائے گا؟ کیا دنیا کی خاموش تماشائی حکومتیں اس معصوم دو سالہ بچے کے خون کے چھینٹوں سے بیدار ہو پائیں گی؟ کیا ہمارا اپنا ضمیر جاگے گا؟ ان سوالوں کا جواب آنا باقی ہے۔ محمد التمیمی تو دو سال کی عمر میں شہادت کا سفر طے کرکے یقیناً حوض کوثر پر پہنچ چکا ہوگا اور ہماری طرف دیکھ کر اس سوال کے جواب کا منتظر ہوگا کہ کیا میرا لہو دنیا کی ان بے ضمیر حکومتوں اور حکمرانوں کو جگانے میں کامیاب ہوگا کہ جن کی سرپرستی میں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل مقبوضہ فلسطین میں قابض ہونے کے ساتھ ساتھ ظلم اور بربریت کی مرتکب ہو رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر اس معصوم بچے کی تصاویر دل دہلا رہی ہیں۔ ہر ذی شعور انسان ان تصاویر کو دیکھ کر صدمہ میں ہے۔
ظلم کی انتہاء تو یہ ہے کہ معصوم بچے کا قتل ہوا، جب اس بچے کی تدفین کی گئی تو اس کے گھر والوں پر ایک اور ظلم کا پہار توڑ دیا گیا اور ان کا گھر بھی صیہونی غاصب حکومت کے حکم پر مسمار کر دیا گیا۔ ایسی صورتحال میں عالمی برادری اور ہم سب صرف اور صرف فلسطینی عوام کے اس بہیمانہ قتل عام کو دیکھ رہے ہیں۔ عالمی برادری کی عادت ہی بن چکی ہے کہ فلسطینیوں کی لاشوں پر سے گزرتے چلے جاؤ، ان کے مسمار شدہ مکانات کے ملبے پر چڑھتے چلے جاؤ۔ گویا یہ عالمی برادری تو کانوں سے بہری اور آنکھوں سے اندھی ہے۔ آج دو سالہ معصوم بچہ محمد التمیمی تو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے، لیکن اس جیسے اور معصوم فلسطینی بچے ہم سے سوال کرتے ہیں کہ کیا ان کی زندگیاں محفوظ ہیں۔؟ کیا فلسطین پر قابض اور غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی درندے افواج کے ہاتھوں معصوم بچوں کو پناہ ملے گی؟ یا یہ کہ عالمی برادری اور اداروں نے غاصب صیہونیوں کو معصوم فلسطینی بچوں کو قتل کرنے کا لائسنس دے رکھا ہے۔ یہ سوال بھی ابھر رہا ہے کہ ایک دو سالہ معصوم بچے کو گولیوں سے مار دینے سے بڑا جرم اور سفاکیت اور کیا ہوگی؟ اس سے بڑھ کر شیطانی عمل اور کیا ہوسکتا ہے؟ غاصب صیہونی حکومت اپنے جرائم کی ہمیشہ کی طرح پردہ پوشی کرنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ دو طرفہ فائرنگ میں معصوم بچہ مارا گیا ہے۔
کیا ایسا ممکن ہے کہ کوئی دو سالہ معصوم بچے کو گود میں لئے فائرنگ کر رہا ہو؟ غاصب صیہونی افواج جرم پر جرم کا ارتکاب کر رہی ہیں۔ عینی شاہدین نے بھی کہا ہے کہ کوئی کراس فائرنگ کا واقعہ نہیں ہوا بلکہ غاصب صیہونی افواج نے جان بوجھ کر معصوم دو سالہ فلسطینی بچہ کو گولیوں کا نشانہ بنا کر قتل کیا ہے۔ غاصب صیہونی افواج کی ایک اور دہشت گردانہ کارروائی جو گاؤں نبی صالح میں انجام پائی، اس میں ایک صحافی بلال تمیمی کو اسی طرح گولیوں کا نشانہ بنا کر قتل کیا گیا تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ 2000ء کے آغاز میں اسرائیل کی درندہ صفت فوج نے ایک بارہ سالہ معصوم بچے محمد الدرہ کو اس کے والد جمال الدرہ کے سامنے براہ راست گولیوں کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا تھا۔ اس حادثہ میں جمال الدرہ شدید زخمی ہوگئے تھے۔ ایک اور سفاکانہ کارروائی میں اسرائیلی درندہ فوجیوں نے سولہ سالہ فلسطینی نوجوان محمد الخضیر کو پیٹرول پینے پر مجبور کیا اور بعد ازاں پیٹرول چھڑک کر زندہ جلا دیا تھا۔ اسی طرح ایک اور فلسطینی بچہ سات سالہ حجر البحطینی کو گھر مسمار کرتے وقت گھر میں موجودگی کا یقین ہونے کے بعد بم دھماکہ میں قتل کیا گیا تھا۔ پندرہ سالہ محمد بلحان کو مارکیٹ میں گھر کے لئے سامان خریدتے وقت سر میں گولی مار کر قتل کرنے والی اسرائیلی وحشی فوج ہی ہے۔ پندرہ سالہ مصطفی علی صباح کو اسرائیلی فوجیوں نے دل میں نشانہ لگا کر گولی مار کر قتل کیا۔ عمر عوادین کو غاصب اسرائیلی فوجیوں نے موٹر سائیکل پر سوار ہوتے وقت پیٹھ میں گولی مار کر قتل کیا۔ پانچ سالہ علاء قدوم اسرائیل کے میزائل کا نشانہ بنا۔ سات سالہ ریان یاسر بھی غاصب اسرائیلیوں کے ہاتھوں قتل ہوا۔ فہرست بہت طویل ہے۔
غاصب صیہونی افواج کے 75 سالہ جرائم کی طویل تاریخ ہے۔ ان داستانوں پر مکمل کتابیں تحریر کی جا سکتی ہیں۔ لیکن سوال ایک ہی ہے کہ کیا ان معصوم بچوں کا قتل اور ان کا ناحق بہنے والا لہو عالمی برادری کو جھنجھوڑنے میں کامیاب ہو رہا ہے؟ کیا عالمی برادری کا سویا ہو ضمیر بیدار ہوگا۔؟ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ 2000ء سے اب تک دو ہزار سے زائد فلسطینی بچے اسرائیلی افواج کی دہشت گردانہ کارروائیوں میں جان کھو چکے ہیں، درجنوں ایسے ہیں، جو اپاہج ہوچکے ہیں، درجنوں ایسے بھی ہیں، جن کی زندگی اور موت کے درمیان کی کیفیت موجود ہے۔ ان سب فلسطینی بچوں کا قصور صرف اتنا تھا کہ یہ فلسطینی ہیں۔ لہذا اس لئے بم دھماکوں، گولیوں، گھروں کی مسماری کے ملبہ تلے اور نہ جانے کس کس طرح سے اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں قتل ہونا ان کا مقدس ٹھہرا ہے۔
دو سالہ محمد التمیمی نے مشکل سے کچھ بولنا سیکھا تھا اور شاید وہ اپنی ٹوٹی پھوٹی زبان سے اپنے والدین کو پکارتا ہوگا، لیکن اس لمحہ کے بارے میں سوچیں کہ جب اس کو اسرائیلی فوجی کی بڑی رائفل سے نکلی آگ برساتی گولی نے نشانہ بنایا ہوگا تو یقیناً اس نے اپنی ٹوٹی پھوٹی زبان سے اپنی ماں اور باپ کو ہی پکارا ہوگا۔ کیا یہ سب کچھ عالمی برادری کے ضمیر کو جگانے کے لئے کافی نہیں ہے۔؟ شاید کسی کو نہیں معلوم کہ محمد التمیمی کے آخری خیالات کیا ہوں گے؟ شاید یہ دو سالہ بچہ جوان ہو کر ایک ڈاکٹر یا انجیئنر بن سکتا تھا۔ اپنے باقی بہن بھائیوں کے لئے ایک پیار کرنے والا بھائی اور ہمدرد بن سکتا تھا۔ بس اس بچے کا قصور تو یہی تھا کہ وہ فلسطینی تھا۔ کیا عالمی برادری کا ضمیر جاگے گا؟ میں ایک لکھاری ہونے کی حیثیت سے ہمیشہ یہ سوال اٹھاتا رہوں گا کہ عالمی برادری اور دنیا میں انسانی حقوق کا دم بھرنے والے عالمی ادارے اور اسی طرح کے دیگر ادارے کہ جو جانوروں کو تکلیف پہنچنے پر واویلا برپا کر دیتے ہیں، کیا کبھی دو سالہ فلسطینی محمد التمیمی کے قتل پر خواب غفلت سے بیدار ہوں گے؟ کیا کبھی فلسطینیوں کے بہیمانہ اور سفاکانہ قتل عام پر ان کا ضمیر جاگے گا؟ اگر آج بھی ہمیں دو سالہ بچہ کا خون بیدار نہیں کر رہا تو پھر شاید ہم کبھی بیدار نہ ہوں۔بشکریہ اسلام ٹائمز