وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ ’عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) چاہتا ہے کہ پاکستان سری لنکا بنے اور پھر ہم مذاکرات کریں۔‘ جمعرات کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس چیئرمین سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں فنانس بل پر سینیٹ کی سفارشات کی تیاری کے حوالے سے جائزہ لیا گیا۔اجلاس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی شرکت کی اور ارکان کی جانب سے اُٹھائے گئے نکات اور سوالات کے جواب دیے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ ’ہمارے خلاف جیو پولیٹکس ہو رہی ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ کر جائے۔ سٹیٹ بینک پاکستان کا بینک ہے کسی عالمی ادارے کا نہیں۔ سٹیٹ بینک ایکٹ میں ایسی ترامیم ہوئیں جو ریاست کے اندر ریاست کو ظاہر کرتی ہیں۔ یہ ترامیم سٹیٹ کے اندر سٹیٹ کی طرف لے گئیں۔ ہم نے سٹیٹ بینک ایکٹ میں مزید ترامیم کی ہیں لیکن ابھی مکمل نہیں ہوئیں۔‘ انہوں نے کہا ’ہماری اوّلین ترجیح ہے کہ جو ادائیگیاں کرنی ہیں وہ بروقت کی جائیں۔
بانڈز سمیت کوئی ادائیگی تاخیر کا شکار نہیں ہوئی۔ پیرس کلب کے پاس قرض ری شیڈول کے لیے نہیں جائیں گے۔ چار برسوں میں 70 ارب ڈالر کا قرض 100 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا۔‘ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ’پاکستان خودمختار ملک ہے ہم آئی ایم ایف کی ہر بات نہیں مان سکتے۔ آئی ایم ایف کے کہنے پر نوجوانوں کو آئی ٹی میں رعایت دینے پر پابندی عائد نہیں کر سکتے۔ اگر آئی ٹی میں روزگار نہ بڑھائیں گے تو کیا 0.29 فیصد شرح نمو پر رہیں۔‘ ان کے بقول آئی ٹی کی ترقی سے نوجوانوں کو روزگار دینا چاہتے ہیں۔ ’رواں سال آئی ٹی برآمدات 2.5 ارب ڈالر رہیں گی۔ آئندہ سال آئی ٹی کی برآمدات 4.5 ارب ڈالر تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ آئی ٹی کی برآمدات کو اگلے پانچ سال میں 15 ارب ڈالر تک لے جانے کا ہدف ہے۔‘
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف کی حالیہ بیان بازی پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’آئی ایم ایف چاہتا ہے ہم کسی شعبے میں بالکل ٹیکس استثنیٰ نہ دیں۔ بطور خودمختار ملک ہمیں اتنا حق تو ہونا چاہیے کہ کچھ ٹیکس چھوٹ دیں۔ ہمیں پتہ ہے کہاں سے کتنا ٹیکس اکٹھا کرنا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ ’سات ہزار 200 ارب سے ٹیکس ہدف بڑھا کر نو ہزار 200 ارب روپے رکھا ہے۔ یہ ہدف ٹیکس چھوٹ کے علاوہ ہے۔ ٹیکس چھوٹ والے شعبوں سے کوئی بجٹ نہیں آ رہا، آئی ایم ایف کو اس پر اعتماد میں لیں گے۔‘ بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ نواں جائزہ لازمی ہوگا اور اسی سال ہوگا۔
قومی اسمبلی اجلاس کے دوران وزیر خزانہ نے ارکان اسمبلی کی جانب سے اُٹھائے گئے نکات کے جواب میں کہا کہ کئی وزارتوں اورمحکموں نے عیدالاضحیٰ سے قبل سرکاری ملازمین کوتنخواہوں کی ادائیگی کے لیے رابطہ کیا ہے۔ اس حوالے سے سیکریٹری خزانہ کوہدایات جاری کردی ہے کہ تمام سرکاری ملازمین کو 23 جون بروز جمعے تک اس ماہ کی تنخواہیں اداکی جائے تاکہ ملازمین عید کے حوالہ سے اپنی ضروریات کو پورا کرسکیں۔ اسحاق ڈار نے مزید کہا کہ وزارت خزانہ اور ایف بی آر کی ٹیمیں قومی اسمبلی اورسینیٹ کے علاوہ کمیٹیوں میں بھی موجود ہیں جو اراکین کی جانب سے بجٹ پربحث کا ایک ایک نکتہ نوٹ کررہی ہے۔ ان میں سے قابلِ عمل تجاویزکو بجٹ میں شامل کیا جائے گا۔