سپریم کورٹ نے ریویو آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کیس کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران تمام فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پنجاب میں انتخابات کرانے کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی نظرِثانی درخواست اور ریویو آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آگئے اور اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 188 نظر ثانی کے حدود کو محدود کو نہیں کرتا، آئین کی انٹری 55 پارلیمنٹ کا قانون سازی کا اختیار دیتا ہے، آرٹیکل کے 184/3 کے مقدمات میں نظر ثانی کا دائرہ بڑھانا امتیازی سلوک نہیں، سپریم کورٹ میں اپیلیں ہائیکورٹس یا ٹریبونلز فیصلوں کے خلاف آتی ہیں، آرٹیکل 184/3 کا مقدمہ براہ راست سپریم کورٹ میں سنا جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نظر ثانی کا دائرہ بڑھے اس کی مخالفت نہیں کی گئی، سوال جس انداز سے نظر ثانی دائرہ بڑھایا گیا اس پر ہے، بھارتی سپریم کورٹ میں اس نوعیت کے کیسز میں اپیل کا حق نہیں دیا گیا، سوال یہ ہے کیا قانون سازی سے نظر ثانی کا دائرہ اتنا بڑھایا جا سکتا ہے، نظر ثانی کا اتنا دائرہ بڑھانے کی وجوہات بھی سمجھ نہیں آتیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 188کے تحت عدالت کو نظر ثانی کا اختیار ہے، آرٹیکل 188 کے تحت کوئی لمٹ نہیں، 184 (3)کے تحت آنے والے مقدمات اور اپیل کو ایک طرح ٹریٹ نہیں کیا جاسکتا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانون سازی کرنے کا اختیار قانون سازوں کے پاس موجود ہے، نظر ثانی اور اپیل کو ایک جیسا کیسے دیکھا جا سکتا ہے؟ عدالت کو حقائق کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا، اگر نظر ثانی کا دائرہ اختیار بڑھا دیا جائے تو کیا یہ تفریق نہیں ہوگی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ کے پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار سے متعلق متعدد فیصلے موجود ہیں، آرٹیکل 184/3 کے مقدمات میں نظرثانی کے لیے الگ دائرہ کار رکھا گیا ہے، نظرثانی اپیل کے حق سے کچھ لوگوں کے ساتھ استحصال ہونے کا تاثر درست نہیں، اس دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل صاحب آہستہ آہستہ دلائل سے ہمیں سمجھائیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ مقدمے کے حقائق نظرثانی کا دائرہ کار بڑھانے سے تبدیل نہیں ہوسکتے، نظرثانی میں متاثرہ فریق کو ہر قانونی نکتہ اٹھانے کی اجازت ہونی چاہیے، ایسے قانونی نکات جو پہلے نہ اٹھائے گئے ہوں وہ بھی مقدمے کے حقائق تبدیل نہیں کر سکتے، بھارتی سپریم کورٹ بھی نظرثانی میں نئے نکات اٹھانے کو تسلیم کر چکی ہے۔ جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ آپ چاہتے ہیں عدالت قانون سے اپیل والا لفظ حذف کر دے؟ جواب میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ ابھی میں اس نکتے پر نہیں آیا تھا، نظرثانی قانون کی لفاظی زیادہ اچھی نہیں اس میں مسائل ضرور ہیں، نظر ثانی میں نئے گراؤنڈز لینے سے بھی حقائق پر بھی فرق نہیں پڑے گا، بھارتی سپریم کورٹ 2002 والے فیصلے میں نئے گراؤنڈز کو درست کہہ چکی ہے، نظرثانی قانون کی زبان میں مسئلہ ہوسکتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ اگر 184 (3) کا اسکوپ بڑھ گیا ہے تو اس پر نظر پر بھی اسکوپ بڑھنا چاہیے، پہلے فیصلہ دینے والے ججز نظر ثانی کے لیے قائم لارجر بینچ کا حصہ بن سکتے ہیں، بینچ کی تشکیل کا معاملہ عدالت پر ہی چھوڑا گیا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ یعنی تین رکنی بینچ اگر فیصلہ دے تو کیا 4 رکنی بنچ نظرثانی کر سکے گا؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ لارجر سے مراد لارجر ہے، جتنے بھی جج ہوں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم آئینی دائرہ کار کی بات کر رہے ہیں، نظر ثانی میں کوئی غلطی ہو تو پہلے کا فیصلہ دیکھنا ہوگا، اپیل میں آپ کو پہلے فیصلے میں کوئی غلطی دکھانا ہوتی ہے، آپ کیس کی دوبارہ سماعت کی بات کر رہے ہیں اس کا کوئی تو گراؤنڈ ہوگا۔ انہوں نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ ہم آپ کی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ 184 (3) کے خلاف ریمڈی ہونی چاہیے، آپ وہ ریمڈی آئینی تقاضوں کے مطابق دیں، ریمڈی دینے کے گراؤنڈز کو واضح کرنا ضروری ہے، عدالت کو نظر آئے کے ناانصافی ہوئی ہے تو 187 کا اختیار استعمال کر لیتی ہے، عدالت کو آرٹیکل 187 کے استعمال کے لیے اعلان نہیں کرنا پڑتا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عمران ٹوانہ کیس میں عدالت قرار دے چکی، ٹھوس وجوہات کے بغیر قانون کالعدم نہیں ہوگا، شکوک و شبہات موجود ہو تو فیصلہ چیلنج شدہ قانون کے حق میں آئے گا۔
دریں اثنا اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے ریویو ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں کو خارج کرنے کی استدعا کر دی، انہوں نے کہا کہ نظر ثانی قانون عدلیہ کی آزادی میں مداخلت نہیں، اگر کسی کو اعتراض ہو کہ یہ قانون نہیں بن سکتا تو پہلے ہائی کورٹ سے رجوع کر سکتا تھا۔ جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ یہ قانون براہ راست سپریم کورٹ کے اختیارات کے متعلق ہے، کیا اس قانون کو چیلنج کرنے کا متعلقہ فورم یہی نہیں بنتا؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون کسی بھی ایکٹ سے متعلق کوئی تخصیص نہیں کرتا، معاملہ ہائی کورٹ سے ہوکر بھی سپریم کورٹ ہی آنا تھا۔ اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی روسٹرم پر آگئے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سجیل سواتی آپ کس کی نمائندگی کر رہے ہیں؟ سجیل سواتی نے جواب دیا کہ میں الیکشن کمیشن کی نمائندگی کر رہا ہوں، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ تو اس کیس میں فریق ہی نہیں ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ اس کیس میں وفاق نے جواب دینا تھا، انہوں نے دے دیا۔ سجیل سواتی نے کہا کہ مجھے صرف 10 منٹ دیے جائیں، عدالت کا زیادہ وقت نہیں لوں گا، تاہم چیف جسٹس نے انہیں ہدایت دی کہ آپ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں تحریری طور پر دے دیں۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل نے روسٹرم پر آکر عدالت کو آگاہ کیا کہ مجھے وزیراعظم نے بلایا ہے، اسی قانون سے متعلق مشاورت کرنی ہے، بعد ازاں اٹارنی جنرل کمرہ عدالت چھوڑ کر وزیر اعظم ہاؤس کے لیے روانہ ہوگئے۔
دریں اثنا پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے وڈیو لنک پر جوابی دلائل کا آغاز کردیا، انہوں نے کہا کہ اٹارنی جنرل اپنے دلائل میں بنیادی سوال کا جواب دینے میں ناکام رہے ہیں، اٹارنی جنرل کا پیش کیا گیا بھارتی فیصلے کا حوالہ ہم سے مطابقت نہیں رکھتا۔ چیف جسٹس نے بیرسٹر علی ظفر سے استفسار کیا کہ آپ مزید کتنا وقت لیں گے؟ بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ میں آدھ گھنٹہ لوں گا یا 15 سے 20 منٹ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم سوچ رہے تھے کہ آپ اگر ہمیں لکھ کر دیتے، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ کوشش کرتا ہوں کہ 15 منٹ میں دلائل مکمل کروں۔ انہوں نے کہا کہ نظر ثانی کے لیے لارجر بنچ بنانے سے پورے کیس کی سماعت دوبارہ ہوگی، بینچ میں شامل نئے ججز کو دوبارہ کیس سننا ہی ہوگا، اگر صرف نظرثانی کی بات ہے تو فیصلے میں غلطی ہو تو پہلا بینچ خود ہی درست کرسکتا ہے۔ تمام فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر سپریم کورٹ نے نظر ثانی قانون کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپس میں مشاورت کرکے جلد فیصلہ سنائیں گے، دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ 15 جون کا ہونے والی گزشتہ سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ آئینی ترمیم کے ذریعے اپیل کا حق دیا جا سکتا لیکن نظرثانی میں قانون کے ذریعے اپیل کا حق دینا درست نہیں ہے اور ہمیں حکومت کی جلد بازی میں کی گئی اس قانون سازی کے طریقہ کار سے اتفاق نہیں۔