فوجی عدالتوں میں آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے مقدمات چلانے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران وفاقی حکومت نے بینچ پر اعتراض اٹھا دیا جس کے بعد کیس کی سماعت کرنے والا 7 رکنی بینچ بھی ٹوٹ گیا اور 6 رکنی بینچ نے سماعت کا سلسلہ آگے بڑھایا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ 21 ویں آئینی ترمیم کا فیصلہ دیکھیں، مسلح افواج پر ہتھیار اٹھانے والوں پر آرمی ایکٹ کے نفاذ کا ذکر ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، معروف قانون دان اعتزاز احسن اور سول سائٹی کی جانب سے عام شہریوں مقدمات آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف درخواستوں پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تشکیل دیے گئے 9 رکنی بینچ نے 22 جون کو سماعت کا آغاز کیا تھا، تاہم دورانِ سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود کے اعتراضات کے بعد 9 رکنی لارجر بینچ ٹوٹ گیا تھا جس کے بعد 7 رکنی بینچ نے سماعت کا دوبارہ آغاز کیا تھا۔ مذکورہ درخواستوں پر آج سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آئے اور وفاقی حکومت کی جانب سے جسٹس منصور علی شاہ پر اعتراض اٹھادیا، جسٹس منصور علی شاہ کے 7 رکنی بینچ سے علیحدہ ہونے کے بعد سپریم کورٹ کا 6 رکنی بینچ سماعت کی۔
6 رکنی لارجر بینچ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل ہے۔ سماعت کے آغاز پر چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان روسٹرم پر آئے اور عدالت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ہماری درخواست پر نمبر نہیں لگا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس معاملے ہر بعد میں آئیں گے، ابھی ہم ایک سیٹ بیک سے ریکور کر کے آرہے ہیں۔چیف جسٹس نے حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے مزید ریمارکس دیے کہ یہاں دلائل کے بجائے دیگر حربے آزمائے جا رہے ہیں، آپ نے درخواست میں بھی مختلف استدعائیں کر رکھی ہیں۔ حامد خان نے کہا کہ میں اِن میں سے صرف ملٹری کورٹ والی استدعا پر فوکس کروں گا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس معاملے کو بعد میں دیکھیں گے۔
سلمان اکرم راجا کے دلائل
دریں اثنا درخواست گزار جنید رزاق کے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میرے مؤکل کے بیٹے کا معاملہ ملٹری کورٹس میں ہے، ٹرائل صرف آرٹیکل 175 کے تحت تعینات کیا گیا جج کر سکتا ہے، ایف پی ایل ای کیس کا جب فیصلہ ہوا تب اختیارات کی تقسیم کا اصول واضح نہیں تھا۔ جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ ایف پی ایل ای کے ساتھ اس کیس سے کیسے متعلقہ ہے؟ اپنے پہلے دن کے سوال پر جاؤں گی کہ آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 ڈی کا اطلاق کس پر ہوتا ہے؟ جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا افواج کے افسران کا بھی ملٹری کورٹس میں کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا؟
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ برطانیہ اور امریکا میں مخصوص حالات میں فوجی افسران کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوتے ہیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ ایف پی ایل ای کیس تو ریٹائرڈ آرمی آفیشلز کے ٹرائل پر تھا۔ جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ایک آرمی آفیسر کا بھی ملٹری کوٹس میں ٹرائل یا کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا؟ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ اگر کسی عدالت میں ٹرائل سے میرے آئینی حقوق متاثر نہیں ہوتے تو پھر خصوصی عدالت میں کیس چل سکتا ہے، بینکنگ کورٹ یا اے ٹی سی جیسی خصوصی عدالتوں میں آئینی حقوق متاثر نہیں ہوتے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ابھی کسی کا ٹرائل شروع ہوا؟ سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ ابھی کسی کا ٹرائل شروع نہیں ہوا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ پھر مفروضوں پر بات نہ کریں کہ ٹرائل ہو گا تو یوں ہوگا، ایسے تو کل ملٹری افسران کے ٹرائل پر بھی بات کی جائے گی، ہمارے پاس کل آخری ورکنگ ڈے ہے، متعلقہ بات ہی کریں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ آرٹیکل 175 کی شق 3 کو بنیادی انسانی حقوق سے کیسے جوڑ رہے ہیں، اس کا اطلاق تو پھر فوجی عدالتوں پر بھی ہوگا، 175 کی شق 3 کا یہاں کیا تعلق ہے؟ سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ آرٹیکل 175 کی شق 3 شفاف ٹرائل کی دی گئی ضمانتوں کے آرٹیکل 9 اور 10 کے ذریعے مؤثر ہوتا ہے، کسی شخص کو شفاف ٹرائل کے حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں کوئی عدالتی نظیر دکھا دیں، 175 کیسے ملٹری ایکٹ سے منسلک ہے، ایک گھڑی ہے جسے گرینڈ کومپلیکیشن (Grand Complication) کہتے ہیں، آپ گرینڈ کومپلکیشن نہ بنائیں، آپ اپنے دلائل مختصر اور صرف کیس سے متعلق دیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ ایف بی ایل ای کیس میں تو ریٹائرڈ فوجیوں کی فوج کے اندر تعلق کا معاملہ تھا، جو اس سے مطابقت نہیں رکھتا، کیا سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے یا نہیں؟ آپ آرمی ایکٹ کی شقیں چیلنج کر رہے ہیں لیکن وجوہات نہیں بتا رہے۔ سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ ایک کیس میں یہ اصول طے کر چکی ہے کہ جوڈیشل امور جوڈیشری ہی چلا سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فوجی عدالتوں سے متعلق متعدد فیصلے موجود ہیں، آپ جو بات کر رہے ہیں وہ فوجیوں کے حق میں جاتی ہے، ہم بہت سادہ لوگ ہیں، ہمیں سادہ الفاظ میں بتائیں، جو باتیں یہاں کرر ہے ہیں ہارورڈ یونیورسٹی میں جا کر کریں۔ سلمان اکرام راجا نے کہا کہ آرٹیکل 175 تھری کے تحت جوڈیشل اختیارات کوئی اور استعمال نہیں کر سکتا، میں ملٹری کورٹس میں سویلین کے ٹرائل کی حد تک ہی بات کر رہا ہوں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ تو ہمیں یہ ہی بتائیں کہ کیا سویلین کو بنیادی حقوق سے محروم کیا جا سکتا ہے؟ سلمان اکرا راجا نے جواب دیا کہ کسی پر الزام لگا کر فیئر ٹرائل سے محروم نہیں کیا جا سکتا، سویلینز کی 2 اقسام ہیں، ایک وہ سویلین ہیں جو آرمڈ فورسز کو کوئی سروسز فراہم کرتے ہیں، فورسز کو سروسز فراہم کرنے والے سویلین ملٹری ڈسپلن کے پابند ہیں، دوسرے سویلینز وہ ہیں جن کا فورسز سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں، جو مکمل طور پر سویلینز ہیں ان کا ٹرائل 175/3 کے تحت تعینات جج ہی کرے گا۔
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ ہم ملٹری کورٹس کو کیسے کہیں کہ وہ عدالتیں نہیں ہیں؟ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ایسی کئی عدالتیں اور ٹریبونل ہیں جن کا آرٹیکل 175/3 سے تعلق نہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ملٹری کورٹس کے فیصلے چیلنج نہیں ہو سکتے؟ سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ آرمی چیف کے سامنے یا ان کی بنائی کمیٹی کے سامنے چیلنج ہو سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کورٹس میں اپیل کا دائرہ وسیع ہو، یہ کہنا کہ ملٹری کورٹس ڈسٹرکٹ کورٹ کی طرح ہو تو کیس کا دائرہ کار وسیع کر دے گا، ہم آسٹریلیا یا جرمنی کی مثالوں ہر نہیں چل سکتے۔ جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ملٹری کورٹ ایک متوازی نظام ہے،جیسے عدالت نہیں کہہ سکتے؟ سلمان اکرام راجا نے جواب دیا کہ جی میں یہ ہی کہہ رہا ہوں کیونکہ وہاں سویلین کو بنیادی حقوق نہیں ملتے، آرمی ایکٹ کے تحت ملٹری کورٹس میں ڈسپلن کی خلاف ورزی پر ٹرائل ہوتا ہے، سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ڈسپلن کی خلاف ورزی کا معاملہ نہیں ہے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دے کہ یہ ایک اچھا پوائنٹ ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ آپ سویلین کی حد تک ہی ٹرائل چیلنج کر رہے ہیں نا؟ آپ آرمی آفیشل کے ٹرائل تو چیلنج نہیں کر رہے؟ سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ نہیں میں آرمی آفیشلز کے ٹرائل چیلنج نہیں کر رہا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ امریکی قانون ان عام شہریوں کے بارے میں کیا کہتا ہے جو ریاست کے خلاف ڈٹ جائیں؟ سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ امریکا میں عام شہریوں کی غیر ریاستی سرگرمیوں پر بھی ٹرائل سول عدالتوں میں ہی ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فیصل صدیقی ایڈوکیٹ نے کہا تھا دنیا میں ملٹری کورٹس میں سویلین کا ٹرائل ہوتا ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا ہمارے خطے میں سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوتا ہے؟ سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ بھارت میں ایسا نہیں ہوتا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 21 ویں آئینی ترمیم کا فیصلہ دیکھیں، مسلح افواج پر ہتھیار اٹھانے والوں پر آرمی ایکٹ کے نفاذ کا ذکر ہے۔ دریں اثنا عدالت نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر جاری سماعت میں سوا 2 بجے تک وقفہ کر دیا۔
سویلین کے فوجی ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہو گئی، جنید رزاق کے وکیل سلمان اکرم راجا دلائل دے رہے ہیں۔ وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 ڈی کو اس لیے چیلنج کیا کہ اس کے تحت سویلین کا ٹرائل نہیں ہو سکتا، میرے مؤکل جنید رزاق کو اٹھا لیا گیا۔ وکیل سلمان کا کہنا تھا کہ جنید رزاق کے بیٹے ارزم رزاق کو ایک الزام لگا کر اٹھایا گیا۔ اعتزار احسن کی درخواست میں فریق بنائے گئے چیئرمین پی ٹی کے وکیل عزیز بھنڈاری کے دلائل شروع وکیل چیئرمین پی ٹی آئی عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ہم تمام درخواست گزاروں کو سپورٹ کرتے ہیں، ہم چاہتے ہیں اوپن ٹرائل ہو، اگر کوئی قصور وار ہے تو اسے سزا ملنی چاہیئے۔ ان کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے واقعات کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی مقاصد کے اہداف اور خواہشات کے حصول کی بات نہ کریں۔ چیف جسٹس نے چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل کو ہدایت کی کہ آپ صرف قانون کی بات کریں۔ وکیل عزیر بھنڈاری کا کہنا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی چاہتے ہیں کہ کھلی عدالت میں ٹرائل ہو۔
’امید ہے کیس کی سماعت کے دوران کسی سویلین کا ملٹری ٹرائل نہیں کیا جائے گا‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ امید ہے کہ اس کیس کی سماعت کے دوران کسی سویلین کا ملٹری ٹرائل نہیں کیا جائے گا، جو افراد گرفتار کیے گئے ان کی مکمل تفصیلات بھی فراہم کریں۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ 102 زیر حراست افراد کو اہل خانہ سے ملنے کی اجازت دی جائے گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ زیر حراست افراد کے کھانے کی بھی شکایت آئیں ہیں، زیر حراست افراد کو ریڈنگ میٹیریل بھی فراہم کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ خاندان کو کیوں قیدی بنایا گیا ہے،
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ درخواست گزار جنید رزاق کی فیملی کب سے قید میں ہے۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ 9 مئی سے ارم رزاق و دیگر کا کچھ پتہ نہیں چل رہا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اتنے دن گزر گئے ابھی تک کچھ پتہ نہیں، اٹارنی جنرل آپ اس معاملے کو دیکھیں، ان کو خاندان سے ملنے کی اجازت دیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ شکایت کس کی جانب سے تھی، خاندانوں کو کیوں اٹھایا ہے؟ مجھے توقع ہے کہ عدالتی کارروائی مکمل ہونے تک کوئی ملٹری ٹرائل نہیں ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کو کوئی شکایت ہے تو نام بتادیں میں متعلقہ حکام سے بات کرنے کی کوشش کروں گا۔ وکیل لطیف خان کھوسہ نے بتایا کہ وکیلوں تک رسائی بھی نہیں دی جارہی، نہ خاندان کو ملنے دیا جا رہا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے نام بتا دیں تو میں اگے بات کروں گا، چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل ذاتی طور پر اس معاملے کو دیکھیں۔ بعد ازاں، عدالت نے سماعت کل صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کردی۔
جسٹس منصورعلی شاہ بینچ سے علیحدہ
قبل ازیں فوجی عدالتوں میں آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے مقدمات چلانے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں پر آج 7 رکنی بینچ نے سماعت کا آغاز کیا تھا۔ 7 رکنی لارجر بینچ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل تھا۔ سماعت کے آغاز پر وفاقی حکومت نے جسٹس منصور علی شاہ کے بینچ میں شامل ہونے پر اعتراض اٹھا دیا، اٹارنی جنرل نے روسٹروم پر آ کر بینچ کے حوالے سے وفاقی حکومت کی ہدایات سے عدالت کو آگاہ کیا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک درخواست گزار جسٹس منصور علی شاہ کے رشتہ دار ہیں، اس لیے ان کے کنڈکٹ پر اثر پڑ سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کی خواہش پر بینچ نہیں بن سکتے، حکومت عدلیہ کی تضحیک نہ کرے، حکومت ہمیں ہم خیال ججز کا طعنہ دیتی ہے، آپ کس بات پر اس عدالت کے معزز جج پر پر اعتراض اٹھا رہے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میرا ذاتی طور پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ ہم نے ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کیا، ہم نے عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد نہ کرنے والوں کو سزا نہیں سنائی، عدالت کے فیصلوں پر عمل درآمد اخلاقی ذمہ داری ہے، ہمارے پاس فیصلوں پر عمل کے لیے کوئی چھڑی نہیں، بہت سے لوگوں کے پاس چھڑی ہے لیکن ان کے پاس اخلاقی جواز کیا ہے؟ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ میں نے تو پہلے ہی دن آکر کہا تھا کسی کو کوئی اعتراض ہے تو بتا دیں۔
دریں اثنا جسٹس منصور علی شاہ نے خود کو 7 رکنی بینچ سے الگ کر لیا جس کے نتیجے میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف کیس کی سماعت کے لیے تشکیل کردہ 9 رکنی لارجر بینچ ٹوٹنے کے بعد 7 رکنی بینچ بھی ٹوٹ گیا۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ مفادات کے ٹکراؤ پر اعتراض اٹھا رہے ہیں، آپ ایک بہت اچھے کردار اور اچھی ساکھ کے مالک وکیل ہیں، ایک پوری سیریز ہے جس میں بینچ پر باربار اعتراض اٹھایا جا رہا ہے، پہلے یہ بحث رہی کہ پنجاب الیکشن کا فیصلہ 3 ججوں کا تھا یا 4 کا، جواد ایس خواجہ صاحب ایک درویش انسان ہیں، آپ ایک مرتبہ پھر بینچ کو متنازع بنا رہے ہیں۔ دوران سماعت شعیب شاہین نے کہا کہ یہ کسی کا ذاتی کیس نہیں یہ بنیادی حقوق کا کیس ہے جبکہ حامد خان نے ججز سے کیس سننے کی استدعا کی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ سمجھنے کی کوشش کریں، یہ ججز کا اپنا فیصلہ ہے، میں یہ کیس نہیں سن سکتا۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ میں اپنا کنڈکٹ اچھی طرح جانتا ہوں، کوئی ایک انگلی بھی اٹھا دے میں پھر کبھی اس بینچ کا حصہ نہیں رہتا۔ حامد خان نے کہا کہ اس موقع پر اعتراض کی کوئی حیثیت نہیں، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اب معزز جج خود ہی معذرت کر چکے ہیں۔ اس دوران فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ جسٹس ایم آر کیانی نے اپنے طلبہ سے مذاق میں ایک بات کہی تھی، انہوں نے کہا تھا کیس ہارنے لگو تو بینچ پر اعتراض کر دو، وفاقی حکومت اب یہی کر رہی ہے۔ دریں اثنا عدالتی عملے کی جانب سے فریقین کے لیے جاری ہدایت میں کہا گیا کہ 11 بجے دوبارہ آئیے گا، چیف جسٹس نیا بینچ تشکیل دیں گے۔ واضح رہے کہ گزشتہ سماعت میں سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل کا آغاز کیا تھا۔
درخواستوں کا متن
واضح رہے کہ 21 جون کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے فوجی عدالتوں میں آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے مقدمات چلانے کے خلاف دائر 4 درخواستوں کو سماعت کے لیے مقرر کرتے ہوئے اپنی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔ چیئرمین پی ٹی آئی، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، معروف قانون دان اعتزاز احسن اور سول سائٹی کی جانب سے عام شہریوں مقدمات آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔ 20 جون کو جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے وکیل ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین کے توسط سے دائر درخواست میں سپریم کورٹ سے فوجی عدالتوں کے ذریعے شہریوں کے ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کی تھی۔
وکیل عزیر چغتائی کے توسط سے عدالت عظمیٰ میں دائر کی گئی درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عام عدالتیں ہوتے ہوئے ملٹری عدالتوں کے ذریعے عام شہریوں کا ٹرائل غیر آئینی قرار دیا جائے اور آرمی ایکٹ کے مختلف سیکشنز آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہیں جنہیں کالعدم قرار دیا جائے۔ اس درخواست سے قبل مختلف شہروں سے سول سوسائٹی کے 5 ارکان نے اپنے وکیل فیصل صدیقی کے ذریعے 9 مئی کے تشدد کے سلسلے میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کو غیر قانونی قرار دینے کی درخواست دائر کی تھی۔ اسی طرح 18 جون کو پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر وکیل اعتزاز احسن نے 9 مئی کے واقعات میں ملوث شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
اعتزاز احسن کی جانب سے وکیل سلمان اکرم راجا نے درخواست دائر کی جس میں شہریوں کےفوجی عدالتوں میں ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے اور وفاقی حکومت کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی۔ درخواست میں کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت نے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے کور کمانڈر فیصلہ پر ربر اسٹمپ کا کردار ادا کیا، سویلین کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 اور 59 آئین سے متصادم ہیں، آرمی ایکٹ قانون کے سیکشن 2 اور 59 کو کالعدم قرار دیا جائے۔