پاکستان کی سپریم کورٹ نے سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی کارروائی پر حکمِ امتناع جاری کرنے کی استدعا ایک بار پھر مسترد کر دی ہے۔ استدعا اٹارنی جنرل کی یقین دہانی پر مسترد کی گئی۔ منگل کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں چھ رکنی لارجر بینچ نے فوجی عدالتوں میں نو مئی کے واقعات میں ملوث سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں کی سماعت کی۔ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بھی بینچ کا حصہ ہیں۔عدالت کے استفسار پر اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کروائی کہ قانون کے مطابق ٹرائل کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں گے اور ابھی ملزمان کے حوالے سے تحقیقات جاری ہیں۔ ’تحقیقات حتمی ہو بھی جائیں تو پھر بھی ٹرائل میں وقت درکار ہوگا۔
سمری ٹرائل نہیں کیا جائے گا اور ٹرائل شروع ہو بھی گیا تو ملزمان کو وکلاء کرنے کی مہلت دی جائے گی۔‘ چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ ملزمان کو یا الزامات یا چارج کی نقول فراہم کی جائیں۔ درخواست گزار وکلاء نے استدعا کی عدالت آئندہ سماعت تک فوجی عدالتوں کی کارروائی روک دے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ابھی ہم حکم امتناعی نہیں دے رہے۔ میں عید کے فوری بعد دستیاب ہوں گا۔ کوئی اہم پیش رفت ہوتی ہے تو مجھے آگاہ کیا جا سکتا ہے۔‘ دوران سماعت چیٸرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل عزیر بھنڈاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ میرے دلائل صرف سویلین کے ملٹری ٹرائل کے خلاف ہوں گے جبکہ فوجیوں کے خلاف ٹرائل کے معاملے سے میرا کوئی لینا دینا نہیں۔‘ انہوں نے کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کل پریس کانفرنس میں کہا کہ ٹرائل جاری ہے جو اٹارنی جنرل کے بیان سے متضاد ہے۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’میں آج بھی اپنے بیان پر قائم ہوں۔
ابھی تک کسی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل شروع نہیں ہوا۔‘ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ہمیں آپ کی بات پر یقین ہے۔‘ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلا لیا اور استفسار کیا کہ ’اٹارنی جنرل بتاٸیں کہ ملزمان کے خلاف کون سا قانون استعمال کیا جا رہا ہے؟‘ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ نو مٸی واقعات سے جڑے ملزمان کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی ٹو ڈی ٹو کے تحت کارروائی کی جا رہی ہے، ٹو ڈی ون کے تحت ان ملزمان کا ٹراٸل ہوتا ہے جن کا کسی طرح فوج کے ساتھ تعلق ہو۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ’دلچسپ بات یہ ہے کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ ہمارے پاس دستیاب نہیں، ایکٹ کی عدم دستیابی کے باعث ہوا میں باتیں ہو رہی ہیں۔‘ وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ اکیسویں آئینی ترمیم کا اکثریتی فیصلہ شرط عائد کرتا ہے کہ جنگی حالات ہوں تب سویلین کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہوگا۔
’آئین کا آرٹیکل 175 تھری جوڈیشل سٹرکچر کی بات کرتا ہے۔ آئین کا آرٹیکل 9 اور 10 بنیادی حقوق کی بات کرتے ہیں اور یہ تمام آرٹیکل بھلے الگ الگ ہیں مگر آپس میں ان کا تعلق بنتا ہے۔‘ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ایکٹ کو پورا پڑھا جائے تو یہ تب لاگو ہوتا ہے جب دشمن کو فائدہ دینے کے لیے کچھ کیا جائے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’افسران میں سب سے اہم چیز مورال ہوتی ہے۔ کوئی عمل جو آرمی افسر کا مورال کم کرے وہ دشمن کو فائدہ پہنچاتی ہے۔‘ اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں بتایا کہ میں نے تحریری معروضات سمیت تمام تفصیلات فراہم کر دی ہیں۔ نو مئی کا واقعہ جس کے بعد ملزمان کی حوالگی کا عمل شروع ہوا اور ساری کارروائی کا بیشتر حصہ رولز میں موجود ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا حراست میں لینے کے عمل میں قانونی تقاضے پورے کیے گئے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ٹرائل کا طریقہ اور حقوق سے متعلق تفصیل بتاوں گا۔
اس موقع پر اٹارنی جنرل نے سفید فائل چیف جسٹس کے حوالے کر دی اور بتایا کہ 102 افراد کی مکمل تفصیل اس میں موجود ہے۔ اہل خانہ کی زیر حراست افراد سے ہفتہ کی بنیاد پر ملاقات ہوسکتی ہے اور والدین اہل خانہ ہفتے میں ایک بار متعلقہ افسر کو درخواست دے کر ملاقات کر سکتے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل کی طرف سے دی گئی 102افراد کی فہرست اٹارنی جنرل کو واپس کرتے ہوئے کہا کہ ’کوشش کریں عمران ریاض عید اپنے گھر والوں کے ساتھ کریں، صحافیوں اور وکلاء سمیت ریاست کا ہر شہری عزت اور احترام کا مستحق ہے۔‘ سپریم کورٹ نے سماعت جولائی کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کر دی۔