(بقلم: ڈاکٹر علی رضا معاف)
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: "اے لوگو! جو میں نے تم سے کہا، تم بھی کہہ دو، اور "علی (علیہ السلام) کو "امیرالمؤمنین” کے عنوان سے سلام کرو اور کہو! "سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا” (سناہم نے اور مانا ہم نے)، تیری بخشش درکار ہے، اے ہمارے پروردگاراور تیری ہی طرف رجوع ہونا ہے”، اور کہہ دو! "تمام تر حمد و ثناء [اور شکر و سپاس] ہے اللہ کے لئے، جس نے ہمیں اس راستے پر لگایا اور اگر اللہ ہمیں اس راہ پر نہ لگاتا تو ہم ہدایت کا یہ راستہ نہيں پا سکتے تھے، بلاشبہ ہمارے پروردگار کے پیغمبر حق [اور سچائی] کے ساتھ آئے”
ڈاکٹر پروفیسر علی رضا معاف نے ایک مضمون کے ضمن میں مسئلۂ عدیر کے 22 قرآنی اور حدیثی نکتوں کی طرف اشارہ کیا ہے؛ لکھتے ہیں: غدیر کی عید اکبر کے سلسلے میں ضروری ہے کہ قرآن اور حدیث کی روشنی میں اس اہم اسلامی اور انسانی واقعے کا جائزہ لیا جائے:
الف) آیت تبلیغ:
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ۚ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ؛ (سورہ مائدہ، آیت 67)
اے رسول! جو کچھ [علی بن ابی طالب (علیہما السلام) کی امامت و ولایت کے بارے میں] آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر اتارا گیا ہے۔ اسے (لوگوں تک) پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اپنا فریضۂ رسالت پورا ہی نہیں دیا ہے؛ اور [ہاں] اللہ آپ کو لوگوں (کے شر) سے محفوظ رکھے گا، بے شک خدا کافروں کی جماعت کی راہنمائی نہیں کرتا [اور انہیں منزل تک نہیں پہنچاتا]”۔
آیت کریمہ کے نکات:
1۔ تبلیغ [پہنچانا] وصول کرنے سے مختلف ہے۔ تبلیغ کا مطلب محض پڑھنا اور تلاوت کرنا ہی نہیں ہے۔ تبلیغ وصول ہے لیکن مصداق کی تفسیر، تشریح، غور و بیان کے ساتھ ہے۔ یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو حکم ہؤا ہے کہ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی ولایت کو مسئلے کو اس انداز سے پہنچا دیں کہ اس میں کوئی شک و شبہہ نہ ہو اور اس میں مخالفین اور مرض سے بھرے دلوں کے مالک لوگوں کے لئے حیلوں اور بہانوں کی گنجائش نہ ہو۔
2۔ ولایت امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے حکم کا ابلاغ اس قدر اہم تھا کہ اگر نہ انجام کو نہ پہنچتا تو یہ دین اور اس کے تمام اجزاء کے عدم ابلاغ کے مترادف تھا۔ (وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ؛ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو تو گویا آپ نے تبلیغ رسالت کا کام انجام ہی نہیں دیا ہے)۔
3۔ "يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ” کی عبارت اس حقیقت کی آئینہ دار ہے کہ آنحضرت کو جس چیز کے ابلاغ و تبلیغ کا حکم ہؤا تھا، وہ آپ کی رسالت و نبوت کے عہدے سے تعلق رکھتی تھی۔
4۔ آیت کریمہ میں عبارت "وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ” (خدا آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا) اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے کہ گویا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) لوگوں کی ایک جماعت کی فتنہ انگیزیوں اور عدم پیروی سے فکرمند ہوکر امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی ولایت کے آسمانی حکم کو مؤخر کرتے رہے تھے یا شاید مؤخر کرنا چاہتے تھے؛ اور لوگوں کی وہ جماعت کفار، مشرکین اور اہل کتاب پر مشتمل نہیں تھی! جن کی طرف سے آپ فکرمند تھے، کیونکہ یہ آیت آنحضرت کی حیات طیبہ کے آخری ایام میں نازل ہوئی ہے اور اس زمانے میں کفار و مشرکین اور اہل کتاب کمزور ہو چکے تھے اور ان سے مسلمانوں کو کوئی خطرہ لاحق ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ چنانچہ وہ ولایت امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے ابلاغ کے حکم کے نفاذ میں رکاوٹ نہیں بن سکتے تھے۔ چنانچہ اس عبارت میں "النَّاسِ” سے مراد وہ منافقین تھے جنہوں نے اپنے مقاصد کے حصول کے حوالے سے اپنی امیدوں کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی وفات یا شہادت سے وابستہ کیا ہؤا تھا؛ اور وہ سمجھتے تھے کہ صرف اسی صورت میں وہ اسلام پر کاری ضرب لگا سکتے ہیں؛ جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے جانشین کا تعین ان کے تمام منصوبوں کو خاک میں ملا سکتا تھا؛ اور ان ہی سے مخالفت اور فتنہ انگیزی کی توقع کی جاتی تھی۔
5۔ اس پیغام اور ابلاغ کے مخالفین کو قرآن نے "کافروں کی جماعت” قرار دیا ہے اور فرمایا ہے خدا ان کی راہنمائی نہيں کرتا۔ "اِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي <الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ>”۔
6۔ بعض احادیث کے مطابق، آیت میں "مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ” (جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر اتارا گیا ہے) سے مراد "آیت ولایت” ہے جس کا اعلان آنحضرت "لوگوں” کی فتنہ انگیزی کے اندیشے سے مؤخر کرتے رہے تھے۔
ب) آیت ولایت
"إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ؛ ایمان والو بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں”۔ (سورہ مائدہ، آیت 55)
آیت کے نکات:
7۔ ولایت ایک قسم کی قربت و اتصال ہے جو ایک قسم کے ربط و تعلق – یعنی رابطے، محبت، نصرت اور تصرف – کی نشاندہی کرتی ہے؛ چونکہ ولایت، محبت اور نصرت صرف بعض مؤمنوں سے مختص نہیں ہے، اور تمام مؤمنین ایک دوسرے کے محب اور ناصر و مددگار ہیں، لہٰذا آیت ولایت میں ولایت سے مراد "ولایتِ تصرف” (حکمرانی اور سرپرستی) ہے۔ یعنی "وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ” سے مراد وہ لوگ ہیں جو "ولایتِ تصرف” کا استحقاق رکھتے ہیں۔
8۔ چونکہ آیت ولایت میں "الَّذِينَ آمَنُوا” (وہ جو ایمان لائے ہیں)، اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) پر معطوف ہے، لہٰذا یہ ولایت کی نوعیت وہی ہے جو اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو حاصل ہے اور خدا اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی ولایت کی تمام خصوصیات کی حامل ہے۔
9۔ آیت میں "إِنَّمَا” حصر پر دلالت کرتا ہے چنانچہ ولایت سے ایک خاص ولایت مراد ہے، جو خدا، اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و الہ) اور بعض مؤمنین تک محدود ہے؛ یعنی یہ وہ ولایت عامہ نہیں ہے جس میں تمام مؤمنین شامل ہیں۔ اور وہ وہی ولایت ہے جو صرف اور صرف "امامت و قیادت و زعامت” اور "حکمرانی اور تصرف” کے ساتھ ہی سازگار اور ہم آہنگ ہے۔
ج) آیه اکمال
"الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن دِينِكُمْ فَلاَ تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينا؛ (سورہ مائدہ، آیت 3)
آج کافر لوگ تمہارے دین [کی ناکامی اور شکست سے] سے نا اُمید ہو گئے ہیں تو ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو۔ آج میں نے تمہارے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو بحیثیت دین، پسند کر لیا”۔
آیت کے نکات:
کسی شیۓ کے کمال کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ اس میں ہے، اور جو کچھ اس کا مقصد ہے، وہ حاصل ہو جائے۔ یعنی شیۓ اس انداز سے کامل ہوئی کہ اس کا مقصود و مطلوب حاصل ہو گیا۔ چنانچہ اکمال دین سے مراد یہ ہے کہ دین اسلام کے معارف و احکام اور اجزاء و معطیات میں ایک نئے جزء کا اضافہ ہؤا، ایسا جزء جو دین کو انتہائی مقصد تک پہنچاتا ہے اور اگر وہ جزء نہ ہو تو دین کامل نہیں ہے اور وہ اپنے انتہآئی مقصد تک نہیں پہنچتا۔
11۔ اتمامِ شیۓ، یعنی شیۓ کا اس حد تک پہنچنا، کہ جہاں اس کو باہر سے کسی دوسری چیز کی ضرورت نہیں ہے۔
12۔ "الْيَوْمَ” سے مراد وقت کا ایک خاص دور نہیں بلکہ ایک خاص دن ہے جو خاص اور بہت اہم اور منفرد خصوصیت کا حامل ہے: "يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن دِينِكُمْ – أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ – أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي – رَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينا؛ کافر لوگ تمہارے دین سے ناامید ہو گئے – میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا – میں نے تم پر اپنی نعمت پوری کردی – میں نے تمہارے لئے اسلام کو بحیثیت دین پسند کیا”۔
اور بلا شبہ یہ دن تاریخ اسلام میں ایک حساس دن اور سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
13۔ آیت میں دین اسلام سے جن نا امید ہونے والے کافروں کا تذکرہ ہؤا ہے؛ اور خداوند متعال نے اس سے خوفزدہ نہ ہونے کا حکم دیا ہے، وہ درحقیقت منافقین ہیں، اور اہل کتاب یا مشرکین یا کفارِ مکہ نہیں ہیں؛ کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی رسالت کے آخری برسوں میں اہل کتاب، مشرکین اور کفارِ مکہ بہت کمزور ہو چکے تھے اور مؤمنین ان سے نہیں ڈرتے تھے۔
14۔ علامہ سید محمد حسین طباطبائی اپنی تفسیر "المیزان” میں "دین سے کفار کی ناامیدی” پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"منافق کافروں کی نا امیدی اس وقت عملی صورت میں نمایاں ہوتی ہے جب خدائے متعال دین کی پاسداری کے لئے پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے بعد کے دور کے لئے کسی فرد کو متعین فرماتا ہے۔ کیونکہ وہ سمجھ لیتے ہیں کہ دین مزید "فرد پر منحصر” ہونے کے مرحلے سے گذر کر "نوع پر منحصر” ہونے کے مرحلے میں اور "حدوث [ہونے Happening]” و زوال کے مرحلے سے بقاء اور دوام کے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور اپنی حیات کو جاری رکھ سکتا ہے”۔
15۔ رہبر انقلاب امام سید علی خامنہ ای (حفظہ اللہ) اپنے ایک خطاب میں "الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن دِينِكُمْ” کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"اللہ کے کسی بھی فرعی حکم کے بارے میں نہیں فرمایا گیا ہے کہ "الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن دِينِكُمْ”؛ چنانچہ یہ قضیہ کچھ اور ہے؛ احکام فرعیہ کے سوا۔ وہ قضیہ کیا ہے؟ وہ قضیہ اسلامی معاشرے کی قیادت و زعامت ہے، یہ اسلامی معاشرے میں حکومت و امامت کا قضیہ ہے۔ جی ہاں! ممکن ہے کہ خلاف ورزی کی جائے، جیسا کہ خلاف ورزی کی گئی؛ بنی امیہ، بنی عباس اور دوسروں نے امامت و خلافت وغیرہ کے نام سے ملوکیت قائم کرکے بادشاہانہ انداز سے حکومت کی۔ [لیکن] اس سے فلسفۂ غدیر کو کوئی زک نہیں پہنچتی؛ [فلسفۂ غدیر قائم رہتا ہے]۔ غدیر میں "تعیین” کا واقعہ در حقیقت "ضابطے کی تعیین” کا واقعہ ہے، قاعدے کی تعیین ہے۔ ایک قاعدہ اسلام میں وضع کیا گیا؛ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اپنی زندگی کے آخری مہینوں میں اس قاعدے کو وضع کیا۔ [اب] یہ قاعدہ کیا ہے؟ امامت کا قاعدہ، ولایت کا قاعدہ ۔۔۔ یہ قاعدہ غدیر میں وضع کیا گیا۔ یہ قاعدہ وضع ہؤا تو "يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن دِينِكُمْ” [کا اعلان ہؤا]؛ دشمن مایوس و نا امید ہوگئے اس سے کہ اس دین کا رخ موڑ سکیں اور اس کو بدل دیں؛ کیونکہ دین کا رخ اور راستہ اس وقت تبدیلی کا شکار ہوتا ہے جب وہ بنیادی نقطہ اور وہ بنیادی مرکزہ بدل جائے؛ یعنی طاقت کا مرکزہ، انتظام کا مرکزہ، زعامت و سربراہی کا مرکزہ، [جو] اگر بدل جائے تو سب کچھ بدل جاتا ہے”۔ (مورخہ 20 ستمبر سنہ 2016ع)
16۔ متعدد شیعہ اور سنی مصادر میں منقولہ احادیث کے مطابق یہ آیت غدیر کے دن امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی ولایت کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور آنجناب کی ولایت کے بارے میں اس آیت کا نزول، "مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَهَذَا عَلِيٌّ مَوْلَاهُ” میں لفظ "مولا” کے معنی پر گہرا اثر مرتب کرتا ہے؛ اور وہ یوں کہ اولاً جو چیز اکمالِ دین، اتمامِ نعمت اور دین اسلام سے [منافق] کافروں کی مایوسی کا سبب بنتی ہے، عقلاً امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی دوستی ہی کا اعلان نہیں ہے بلکہ یہ ایک عظیم واقعہ ہے جو آنجناب کی ولایت و امامت و پیشوائی کے اعلان سے عبارت ہے؛ ثانیاً خداوند حکیم عزّ و جلّ کا پسندیدہ اسلام وہ ہے جو ولایت امیرالمؤمنین (علیہ السلام) سے متصل ہو، کیونکہ آپ کی ولایت کے اعلان کے بعد اللہ نے اس کے اکمال اور نعمت کے اتمام کا اعلان کیا۔ [اور آیت تبلیغ میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے ارشاد ہؤا کہ اگر آپ نے یہ ابلاغ نہ فرمایا تو آپ کی رسالت انجام کو نہیں پہنچے گی: فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ]۔
د) دوسرے نکات
17۔ سقیفہ تاریخ اسلام میں سیاسی علمانیت (Secularism) کے نظریئے کے نفاذ کا آغاز تھا، جبکہ غدیر نے اس نظریئے کو باطل کرکے رکھ دیا ہے۔ غدیر کی حقیقت اسلامی حکومت ہے؛ حضرت امام سید روح اللہ خمینی (رضوان اللہ علیہ) حقیقتِ غدیر کے بارے میں فرماتے ہیں:
"اس عید کا احیاء نہ [صرف] اس لئے ہے کہ چراغانیاں ہوں، قصیدہ خوانیاں ہوں اور مداحیاں ہوں؛ یہ سب اچھے [اعمال] ہیں لیکن مسئلہ یہ نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں سکھایا جا رہا ہے کہ کس طرح اتّباع اور پیروی کریں، ہمیں سکھا رہے ہیں کہ غدیر اُس زمانے تک محدود نہیں ہے، غدیر کو تمام زمانوں اور ادوار و اعصار میں ہونا چاہئے، اور جو روش حضرت امیر (علیہ السلام) نے اس حکومت میں اختیار کی ہے، اس کو حکومتوں اور [معاشروں] کے منتظمین کی روش ہونا چاہئے۔ غدیر کا مسئلہ ایک حکومت کی تخلیق [اور قیام] کا مسئلہ ہے؛ یہی [حکومت] قابل نصب و تعیین ہے، ورنہ تو معنوی [اور روحانی] مراتب و مقامات قابل نصب و تعیین نہیں ہیں؛ یہ ایسی چیز نہیں ہے جس کو نصب و تعیین کے ذریعے معرض وجود میں لایا جا سکے؛ جبکہ اس [حکومت] کو نصب و اور متعین کیا جا سکتا ہے۔ اور ہاں وہ معنوی اور روحانی مقامات و مراتب [امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی ذات با برکات میں] موجود تھے اور آپ تمام اوصاف کا مجموعہ تھے، جو اس امر کا باعث بنے ہيں کہ [اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی طرف سے یہ بزرگوار حکومت پر نصب ہوئے ہیں، لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ ان اوصاف کو صوم و صلاۃ اور اس قسم کے اعمال کے زمروں میں لایا جاتا ہے، اور ولایت ان سب کو نافذ کرتی ہے۔ جو ولایت حدیث غدیر میں ہے، وہ حکومت کے معنی میں ہے، نہ کہ روحانی اور معنوی مقامات و مراتب کے ہم معنی۔۔۔
مسئلہ، حکومت کا مسئلہ ہے، مسئلہ، سیاست کا مسئلہ ہے، حکومت عِدْلِ سیاست [اور سیاست کی نظیر و مانند] ہے اور "حکومت” "سیاست” کے پورے معنی ہیں۔ خداوند متعال نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو حکم دیا کہ یہ حکومت اور یہ سیاست حضرت امیر (علیہ السلام) کو تفویض کریں۔ جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سیاست کرتے تھے اور حکومت سیاست کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یہ سیاست اور یہ حکومت جو سیاست کے ساتھ گوندھ لی گئی ہے، یہ عید غدیر کے دن حضرت امیر (علیہ السلام) کے لئے ثبت ہوئی……
بدقسمتی سے ۔۔۔ کچھ کجیاں اور ناہمواریاں پیدا ہوئیں، یعنی بہت زیادہ اعوجاج اور انحراف پیدا ہؤا ہے لیکن ان میں سب سے بڑا اعوجاج یہ ہے کہ اموی خلفاء اور عباسی خلفاء ۔۔۔ کے زمانوں سے کچھ ہاتھ [اور کچھ عناصر] ظاہر ہوئے ہیں جو کہنا چاہتے ہیں کہ دین سیاسی مسائل سے جدا ہے اور سیاست حکومت سے جدا ہے۔ یہ سلسلہ بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس وہم کو تقویت ملی ہے، یہاں تک کہ دنیا کے بازیگر اس منصوبے پر پہنچے کہ دین کو صرف تعبّدی مسائل [اور عبادات و بندگی] تک محدود کرنا چاہئے۔ ان بازیگروں نے ایسا ہی کیا اور ہم نے بھی باور کر لیا تھا کہ دین کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے، سیاست تو شہنشاہوں (Emperors) کے لئے مختص ہے! جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم خدا اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کو [معاذ اللہ] غلط سمجھیں، کیونکہ حکومت سیاسی ہی ہے، حکومت دعا پڑھنا، نہیں ہے، حکومت نماز نہیں ہے، حکومت روزہ نہیں ہے حکومت، عدل و انصاف کی حکومت، ان سب [دعا، روزہ، نماز و عبادات] کو قائم کرتی ہے، تاہم خود حکومت ایک سیاسی مشینری ہے۔ جو بھی کہتا ہے کہ دین سیاست سے جدا ہے، تو اس نے اللہ کو جھٹلایا ہے، اس نے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو جھٹلایا ہے، اس نے آئمۂ ہدایت (علیہم السلام) کو جھٹلایا ہے۔۔۔
غدیر [ہمیں] یہ سمجھانے کے لئے آیا ہے کہ سیاست کا تعلق سب سے ہے؛ ہر عصر میں ایک حکومت کو ہونا چاہئے سیاست کے ساتھ، تاہم عادلانہ اور منصفانہ سیاست جو سیاست کے ذریعے صلاۃ کو قائم کرے، صوم کو قائم کرے، حج کو قائم کرے، تمام معارف و تعلیمات کو فروغ دے اور دروازوں کو کھلا چھوڑ دے، یعنی ماحول کو پرامن کر دے کہ، صاحبان افکار اپنے افکار کو گرمجوشی کے ساتھ اور پرسکون انداز سے، پیش کریں۔ چنانچہ ایسا نہیں ہے کہ ہم سمجھ لیں کہ یہ جو ولایت ہے یہ وہی امامت ہے جو فروع دین کے متوازی ہے! بالکل نہیں؛ یہ ولایت درحقیقت حکومت ہی ہے”۔ (صحیفۂ امام، ج20، ص111-118)
18۔ غدیر اتحاد بین المسلمین کا محور و مدار ہے، اور تفرقے اور انتشار کا سبب نہیں ہے، کیونکہ اولاً اکثر سنی علماء اور محدثین کا اتفاق ہے کہ غدیر کا واقعہ رونما ہؤا ہے اور غدیر کے مقام پر امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی ولایت و خلافت کا اعلان ہو چکا ہے؛ اور ثانیاً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی شہادت کے بعد کے تاریخی ایام کے دشوارترین حالات میں بھی، خود امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کا سیاسی رجحان امت مسلمہ کے اتحاد و یکجہتی پر استوار تھا؛ خواہ شہادت رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے بعد خلیفہ کے انتخاب کے وقت، خواہ مسلمانوں کے معاملات آگے بڑھانے میں خلفاء کو مشورہ دیتے وقت، [یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ خلیفۂ ثانی عمر بن خطاب بہت سارے مواقع پر آپ کے مشوروں کی بنیاد پر مسائل کے حل ہوجانے کے بعد کہتے رہے ہیں: لَوْلَا عَلِيٌّ لَهَلَكَ عُمَرُ؛ اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا” (الکافی، الکلینی، ج7، ص424؛ الفخر الرازي؛ محمد بن عمر البكري الشافعي، التفسير الكبير (دار إحياء التراث العربي – بيروت، الطبعة: الثالثة – 1420ھ)، ج21، ص380؛ الباقلانی، تمهید الاوائل، ص476؛ ماوردی شافعی، ج12، ص115 و ج 13 ، ص213 ؛ منصور بن محمد سمعانی، تفسير القرآن، ج5 ، ص154؛ ابوبکر بن عربی، العواصم من القواصم، ج1 ، ص203)]، خواہ چھ رکنی شوریٰ کے معاملے میں۔ (جب آپ نے اپنے چچا عباس بن عبدالمطلب کی طرف سے شوریٰ کی رکنیت سے منع کئے جانے کے جواب میں فرمایا: "إِنِّى أَكْرَهُ الْخِلاَفَ؛ میں اختلاف کو ناپسند کرتا ہوں”۔ (ابن ابي الحديد، شرح نهج البلاغه، ج1، ص191)، خواہ تیسرے خلیفہ کے خلاف اٹھنے والی بغاوت کے مسئلے میں، (جس کے دوران آنجناب عثمان کے گھر کھانا اور پانی بھجواتے رہے اور اپنے بیٹوں حسن اور حسین (علیہما السلام) کو ان کی حفاظت کے لئے بھجوایا اور وہ دونوں خلیفہ پر ہونے والے حملے میں زخمی ہوئے)۔
19۔ ذیل کی آیت کریمہ میں عبارت "مَعَ سُلَيْمَانَ” سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام اور خدائے متعال پر ایمان، صرف اور صرف اللہ کے ولی کی ولایت کے راستے سے گذرتا ہے، ارشاد ہؤا:
"قِيلَ لَهَا ادْخُلِي الصَّرْحَ ۖ فَلَمَّا رَأَتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَّةً وَكَشَفَتْ عَنْ سَاقَيْهَا ۚ قَالَ إِنَّهُ صَرْحٌ مُمَرَّدٌ مِنْ قَوَارِيرَ ۗ قَالَتْ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمَانَ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ؛ (سورہ نمل، آیت 44)
کہا گیا اس (بلقیس) سے کہ داخل ہو ایوانِ قصر میں۔ تو جب اس نے اسے دیکھا تو گمان کیا کہ گویا بہت زیادہ پانی ہے (جھیل کی طرح) اور پائینچے پنڈلیوں سے اوپر چڑھا لئے [بزعم خود، پانی میں داخل ہونے کے لئے]، سلیمان نے کہا ارے یہ تو [پانی نہیں بلکہ] شیشے سے منڈھا ہؤا ہموار احاطہ ہے۔ اس [ملکۂ سبا] نے کہا اے میرے پروردگار یقیناً میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اب میں سلیمان کے ساتھ جہانوں کے پروردگار کی فرمانبردار بنی”۔
20۔ خطبۂ غدیر کے سلسلے میں ایک انتہائی اہم نکتہ یہ ہے کہ اس خطبے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے بارہ اماموں کے نام بڑے واضح انداز سے بیان فرمائے ہیں اور کئی فقروں میں امام حسن اور امام حسین (علیہما السلام) کی امامت کا ذکر کیا ہے۔
مشہور خطبۂ غدیر کے آخری چند فقرے کچھ یوں ہیں:
"مَعاشِرَ النّاسِ، فَبايِعُوا اللهَ وَبايِعُوني وَبايِعُوا عَلِيّاً أميرَالْمُؤْمِنينَ وَالْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ وَالاَئِمَّةَ مِنْهُمْ فِي الدُّنْيا وَالاْخِرَةِ كَلِمَةً باقِيَةً ; يُهْلِكُ اللهُ مَنْ غَدَرَ وَيَرْحَمُ مَنْ وَفَى. "فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَى نَفْسِهِ وَمَنْ أَوْفَى بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْراً عَظِيماً؛ [سورہ فتح، آیت 10]”۔
اے لوگو! اللہ کے ساتھ بیعت کرو اور میرے ساتھ بیعت کرو اور امیرالمؤمنین اور حسن و حسن اور ان کی نسل کے ائمہ (علیہم السلام) کے ساتھ بیعت کرو، اس امامت کے عنوان سے جو دنیا میں اور آخرت میں، ان کے درمیان باقی ہے۔ ہلاک کردے اللہ اس کو جو غداری اور خیانت کرے اور رحم فرمائے اس پر جو وفا شعار ہے۔ "تو جو عہد [اور اس بیعت] کو توڑے گا اس نے اسے اپنے ہی نقصان میں توڑا ہے اور جو اللہ کے ساتھ اپنے کئے ہوئے عہد و پیمان کو پورا کرے گا، تو اللہ اسے اجر عظیم [اور بڑا صلہ] عطا کرے گا”۔
"مَعاشِرَ النّاسِ، قُولُوا الَّذي قُلْتُ لَكُمْ وَسَلِّمُوا عَلى عَلِيٍّ بِإمْرَةِ الْمُؤْمِنينَ، وَقُولُوا: "سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ”، [سورہ بقرہ، آیت 285] وَقُولُوا: "الْحَمْدُ لِلّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَـذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلا أَنْ هَدَانَا اللّهُ لَقَدْ جَاءتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ [سورہ اعراف، آیت 43]”۔
اے لوگو! جو میں نے تم سے کہا، تم بھی کہہ دو، اور "علی (علیہ السلام) کو "امیرالمؤمنین” کے عنوان سے سلام کرو اور کہو! "سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا” (سناہم نے اور مانا ہم نے)، تیری بخشش درکار ہے، اے ہمارے پروردگاراور تیری ہی طرف رجوع ہونا ہے”، اور کہہ دو! "تمام تر حمد و ثناء [اور شکر و سپاس] ہے اللہ کے لئے، جس نے ہمیں اس راستے پر لگایا اور اگر اللہ ہمیں اس راہ پر نہ لگاتا تو ہم ہدایت کا یہ راستہ نہيں پا سکتے تھے، بلاشبہ ہمارے پروردگار کے پیغمبر حق [اور سچائی] کے ساتھ آئے”
"مَعاشِرَ النّاسِ، إنَّ فَضائِلَ عَلِيِّ بْنِ أَبي طالِب عِنْدَ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ ـ وَقَدْ أَنْزَلَها فِي الْقُرْآنِ ـ أَكْثَرُ مِنْ أَنْ أُحْصِيَها في مَقام واحِد، فَمَنْ أَنْبَأَكُمْ بِها وَعَرَفَها فَصَدِّقُوهُ؛
اے لوگو! یقیناً اللہ عزّ و جلّ کے ہاں علی بن ابی طالب کے فضائل – جنہیں یقیناً اس نے قرآن میں اتارا ہے – اس سے کہیں زیادہ ہیں کہ انہیں ایک ہی مجلس میں بیان کر سکوں۔ تو جس نے تمہیں ان کی خبر دی، اور انہیں پہچانا، تو اس کی تصدیق کرو”۔
"مَعاشِرَ النّاسِ، مَنْ يُطِعِ اللهَ وَرَسُولَهُ وَعَلِيّاً وَالاَئِمَّةَ الَّذينَ ذَكَرْتُهُمْ فَقَدْ فازَ فَوْزاً عَظيماً؛
اے لوگو! جس نے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور علی (علیہ السلام) اور ان اماموں کی اطاعت و فرمانبرداری کی جس کا میں نے تذکرہ کیا، تو اس نے عظیم کامیابی حاصل کی ہے”۔
"مَعاشِرَ النّاسِ، السّابِقُونَ إلى مُبايَعَتِهِ وَمُوالاتِهِ وَالتَّسْليمِ عَلَيْهِ بِإمْرَةِ الْمُؤْمِنينَ أُولئِكَ هُمُ الْفائِزُونَ في جَنّاتِ النَّعيمِ؛
اے لوگو! جو لوگ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے ساتھ بیعت کرنے، اور آپ کی ولایت قبول کرنے، اور امیرالمؤمنین کے عنوان سے آپ کو سلام کرنے میں پیش رو ہونگے، وہ کامیاب اور فلاح یافتہ ہیں اور نعمتوں کے باغوں میں سرخ رو و سر بلند ہونگے”۔
21۔ ولایت کے معنی
رہبر انقلاب اسلامی امام سید علی خامنہ ای (حفظہ اللہ) خطبہ غدیر میں "ولایت” کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"دوسرا پہلو، جس کے لفظ اور مضمون پر آج روشنی ڈالنا چاہتا ہوں وہ لفظ "ولایت” ہے جو واقعۂ غدیر میں کئی مرتبہ دہرایا گیا ہے:
"مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَهَذَا عَلِيٌّ مَوْلَاهُ”۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اس تاریخی واقعے اور اس عظیم تعین و تقرر میں حکومت کو لفظ "ولایت” کے ساتھ بیان کیا۔ عربی سمیت متعدد دوسری زبانوں میں، اس شیئے کے لئے – جس کا نام حکومت، زمام داری، حکمرانی [فرمانروائی] و غیرہ ہے – مختلف الفاظ بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ یعنی معاشرے پر حکومت اور فرمانروائی کرنے والے فرد یا جماعت کے بارے میں مختلف الفاظ و عبارات کو بروئے کار لایا گیا ہے، جن میں سے ہر لفظ یا عبارت کا اشارہ ایک خاص جہت اور پہلو کی طرف ہوتا ہے۔
مثلاً لفظ "حکومت” اس بات کی طرف اشارہ ہے اس شخص کی طرف جو بر سر اقتدار ہے یا ایک جماعت کے افراد کی طرف جو بر سر اقتدار ہیں، حکم چلاتے ہیں، اور معاشرہ اور عوام ان کی اطاعت کرتے ہیں۔
ایک عبارت یا لفظ "سلطنت” ہے، جو مسلط ہونے، طاقتور اور مقتدر ہونے اور امور و معاملات کو زیر تسلط لانے کے معنی میں ایا ہے۔ فارسی میں بھی یہی الفاظ و عبارات ہیں۔ بطور مثال زمامداری، حکومت کی ایک جہت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یا مثلاً "حکمرانی” اور "فرمان دہی” جیسے الفاظ ہر ایک، ایک پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اسلام میں زیادہ تر "ولایت” کے لفظ کو بروئے کار لایا گیا ہے۔ خطبۂ غدیر میں بھی اور "إِنَّما وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسولُهُ وَالَّذينَ آمَنُوا الَّذينَ يُقيمونَ الصَّلاةَ وَيُؤتونَ الزَّكاةَ وَهُم راكِعونَ” (المائدہ، 55) میں بھی حکومت کے لئے "ولایت” کا لفظ استعمال ہؤا ہے۔
ولایت، کے معنی عجیب ہیں۔ ولایت کے اصل معنی دو چیزوں کی ایک دوسرے کے ساتھ قرابت کے ہیں۔ فرض کیجئے دو رسیوں کو ایک ساتھ مضبوطی سے بُنا جاتا ہے اور انہیں ایک دوسرے سے الگ کرنا آسان نہیں ہوتا۔ اس کو عربی میں "وِلایت” کہتے ہیں وِلایت یعنی دو چیزوں کے درمیان مستقل اور جڑا ہؤا جاری اور مستحکم باہمی "اتصال و ارتباط” اور "قرب و تعلق”۔ عربی میں اس کے لئے بہت سے معانی بھی آئے ہیں جیسے محبت، قَیُّومِیَّت اور سرپرستی (Guardianship) وغیرہ، عربی میں اس کے سات یا آٹھ معانی ہیں؛ اوراسی بنا پر ان تمام معانی میں، ولایت کے دو فریقوں کے درمیان یہ "قرب” اور قرابت موجود ہے۔ مثلاً "ولایت” کے معنی محبت کے ہیں؛ کیونکہ محبّ اور محبوب، کے درمیان ایک روحانی تعلق اور اتصال پایا جاتا ہے اور انہیں ایک دوسرے سے جدا کرنا، ممکن نہیں ہے۔
اسلام، حکومت کو "ولایت” کے سانچے میں بیان کرتا ہے اور جو شخص حکومت کی چوٹی پر قرار پاتا ہے، اسے "والی” اور "ولی”، "مولا” جیسے الفاظ و عناوین سے متعارف کرایا جاتا ہے، اور یہ الفاظ، لفظ "ولایت” کے مشتقات ہیں۔ اس کے معنی کیا ہیں؟ اس کے معنی یہ ہیں کہ اسلام کے سیاسی نظام میں اقتدار کی چوٹی پر متعین ہونے والے شخص، اور ان لوگوں کے درمیان، ـ جن پر وہ حکومت کرتا ہے، ـ ارتباط، اتصال اور ناقابل جدائی پیوستگی پائی جاتی ہے۔ یہ اس قضیے کے معنی ہیں۔ یہ ہمارے لئے اسلام کے سیاسی فلسفے کی تشریح کرتا ہے۔ جو حکومت ایسی نہ ہو، وہ ولایت نہیں ہے، یعنی ایسی حکومت وہ حکمرانی نہیں ہے جس کا تعین اسلام نے کیا ہے۔ اگر ہم فرض کریں کہ حکومت کی چوٹی پر ایسے افراد ہوں جن کا عوام سے کوئی تعلق نہ ہو، یہ ولایت نہیں ہے۔ اگر ایسے لوگ ہوں جن کا تعلق عوام کے ساتھ خوف و ہراس اور رعب و وحشت پر مبنی ہو اور محبت و التیام اور پیوستگی پر مبنی نہ ہو، تو یہ ولایت نہیں ہے۔ اگر کچھ لوگ فوجی [یا کسی بھی قسم کی] بغاوت کے نتیجے میں بر سر اقتدار آئے ہوں، تو [ان کی] یہ حکومت، ولایت نہیں ہے۔ اگر کوئی موروثی اور خاندانی اور نَسَبی جانشینی [اور ولی عہدی] کے عنوان سے – اور وہ حکمرانی کے لئے شرط کی حیثیت رکھنے والی حقیقی کیفیات و فضائل کے بغیر، جو کہ حکمرانی کے لئے شرط کی حیثیت رکھتے ہیں – بر سر اقتدار آئے ہوں، تو [ان کی] یہ [حکومت] ولایت نہیں ہے۔ ولایت اس وقت ہے جب والی یا ولی اور ان لوگوں کے درمیان، جن کا وہ ولی ہے، قریبی، خلوص بھرا تعلق اور محبت بھرا رشتہ ہو جیسا کہ خود نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) کے بارے میں بھی ہے؛ یعنی "بَعَثَ فيهِم رَسولًا مِن أَنفُسِهِم” (آل عمران, 164) یا "بَعَثَ فِي الأُمِّيّينَ رَسولًا مِنهُم” (جمعہ، 2) (یعنی رسول کے لئے شرط یہ ہے کہ) اللہ نے اسے ان ہی میں سے مبعوث فرمایا ہو؛ یعنی لوگوں میں سے ہی کوئی ہو جو ولایت و حکومت کہ عہدہ دار ہو۔ اسلام کی حاکمیت [اور اسلام میں حکمرانی) کا اصول یہ ہے”۔ (مورخہ 26 اپریل 1997ع)
مترجم کا جملۂ معترضہ
لفظ ولی کی سادہ ترین تشریح
ایران کے ایک سنی عالم دین "علامہ شریف زاہدی”، جو اہل سنت کے مدارس کے فارغ التحصیل ہیں اور تحقیق کے بعد مذہب شیعہ اختیار کر چکے ہیں اپنی کتاب "باید شیعہ می شدم [مجھے شیعہ ہونا چاہئے تھا]” میں لکھتے ہیں:
"ہر وقت سوچتا رہتا تھا کہ کس طرح سے ثابت کروں کہ حدیث غدیر میں "مولا” سے مراد "دوست” نہيں ہے بلکہ اس کے معنی "پیشوا” اور "رہبر و سرپرست اور حاکم” کے ہیں۔ راقم ایک دفعہ "مولوی محمد عمر سربازی” کی کتاب پڑھ رہا تھا۔ کتاب پڑھ کر بند کرلی تو نظر جلد کے اوپر لکھے ہوئے نام پر پڑی؛ لکھا تھا: "<مولانا> محمد عمر سربازی”۔ چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ مولوی حضرات سے لفظ "مولانا” کے معنی پوچھ لوں اور ان سے سوال کروں کو مولوی محمد عمر سربازی کو "مولانا” کیوں کہتے ہیں؟ کئی مولویوں سے پوچھا تو انہوں نے کہا: لفظ "مولانا” میں مولا کے معنی "[بلوچی میں:] ہمارے واجہ، ہمارے رہبر، ہمارے پیشوا!” وغیرہ۔
میں نے ان سے کہا: حیران ہوں! "مولا” کا لفظ آپ کے اکابرین کے لئے رہبر و پیشوا کے معنی میں آتا ہے لیکن اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے کلام میں یہی لفظ "دوست” کے معنی میں آیا ہے!!!
چلتے چلتے بات یہاں تک پہنچی کہ ایک روز ایک سنی دوست مجھ سے ملنے آیا تو میں نے اس کے ساتھ اہل بیت (علیہم السلام) کی حقانیت کے سلسلے میں تفصیلی گفتگو کی اور غدیر خم میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے خطبے سے استناد کیا۔ ہمارا سنی دوست کہہ رہا تھا کہ خطبہ غدیر میں لفظ "مولا” کے معنی "دوست” کے ہیں اور اس کے معنی سرپرست اور پیشوا اور رہبر کے نہیں ہیں۔ میں دلائل لاتا رہا اور وہ بغیر کسی دلیل و سند و ثبوت کے انکار کرتا رہا اور آخرکار وہ وداع کرکے سیستان و بلوچستان کی طرف روانہ ہؤا۔
ہمارے دوست نے گھنٹہ بھر سفر کیا ہوگا کہ میں نے ان سے فون پر رابطہ کیا اور کہا: "آپ سے بہت ہی زیادہ ضروری کام پیش آیا ہے فورا واپس تشریف لائیں”۔
کہنے لگے: "نہیں بھائی، میں واپس نہیں آ سکتا، "میرے گھر والے میرا انتظار کررہے ہیں” اور پھر میں نے کافی فاصلہ طے کرلیا ہے، کیا کام ہے آپ کا مجھ سے؟ فون پر ہی کہہ دیں”۔
میں نے کہا: کام بہت اہم ہے اور میں فون پر نہیں بتا سکتا آپ کو خود یہاں موجود ہونا چاہئے۔
میرے شدید اصرار پر وہ واپس آئے اور جب میرے پاس پہنچے تو کہنے لگے: "آپ کا اہم کام کیا تھا کہ دوبارہ اپنے پاس لوٹا دیا؟
توجہ فرمائیں علامہ زاہدی صاحب کے جواب کو:
میں نے کہا: "میں آپ کا دوست ہوں”
بڑے ناراض ہوئے اور کہنے لگے: یہی بتانے کے لئے مجھے واپس لائے ہیں یہاں؟
میں نے کہا: جی ہاں یہ بتانے کے لئے کہ میں آپ کا دوست ہوں اور آپ کو دوست رکھتا ہوں!
میرے دوست نے کہا: "میرے گھر والے منتظر تھے اور مجھے جانا چاہئے تھا”؛ آپ نے مجھے اتنا طویل فاصلہ طے کرنے کے بعد واپس بلایا صرف یہ کہنے کہ لئے کہ "آپ میرے دوست ہیں یا مجھے دوست رکھتے ہیں؟ کیا مجھے ایذا پہنچانے کا ارادہ تھا؟”۔
میں نے کہا: میرا سوال بھی یہی ہے۔ کیسے ممکن ہے کہ آپ اتنی عجلت سے جارہے ہیں اس لئے کہ "آپ کے گھر والے آپ کا انتظار کررہے ہیں” اور میں جب آپ کو لوٹاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ "میں آپ کو دوست رکھتا ہوں” تو آپ ناراض ہوجاتے ہیں اور مجھے ناقص العقل قرار دیتے ہیں لیکن جب ہزاروں مسلمانوں کے گھر والے منتظر ہوتے ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) ان کو لوٹا دیتے ہیں اور سورج کی شدید تمازت میں تین دن تک روک لیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ "جس کا میں "دوست” ہوں یہ امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) ان کے "دوست” ہیں، تو آپ پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے اس عمل کو معقول سمجھتے ہیں؟ کیا اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے ایسی صورت حال میں فرمایا ہوتا کہ "جس کا میں "دوست” ہوں یہ امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) بھی ان کے "دوست” ہیں۔ تو کیا مسلمان آپ سے ناراض نہ ہوتے اور (معاذ اللہ) مسلمان اپنے پیغمبر کی عقل پر شک نہ کرتے؟
میرے دوست حیرت زدہ ہوچکے تھے اور ان کی زبان بند ہوچکی تھی، انھوں نے محسوس کرلیا تھا کہ کتنی مضحک بات ہے یہ کہ کہا جائے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اتنی شدید گرمی میں تین دن تک مسلمانوں کو روکا اس لئے کہ ان سے کہہ دیں کہ "امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) ان کے دوست ہیں”؛ اور انھوں نے کم از کم یہ اقرار کرلیا کہ "غدیر خم کے واقعے میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا مقصد ایک بہت اہم حقیقت کا اعلان کرنا تھا ورنہ تو دوستی کے اعلان کے لئے ضروری نہیں تھا کہ مسلمانوں کو لوٹا کر تین دن تک نہایت شدید گرمی میں روک لیتے”۔
حوالہ: کتاب "مجھے شیعہ ہونا چاہئے تھا”، مؤلف علامہ شریف زاہدی، ص: 138۔
اور پھر مسلمانوں کو آپس میں دوست ہونا چاہئے، یہ قرآن و سنت کا قطعی حکم ہے اور اس کے لئے صحرائے عرب میں تین دن تک اجتماع کی ضرورت نہیں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
22۔ انقلاب اسلامی کا غدیر، عاشورا اور انتظار سے تعلق
ایران کا اسلامی انقلاب اور غدیر، عاشورا اور انتظارِ ظہور کے درمیان دو اہم اور بنیادی رشتے ہيں:
1۔ اسلامی انقلاب نے غدیر اور عاشورا کی تعلیمات سے جنم لیا ہے؛
2۔ اسلامی انقلاب کا مقصد غدیر اور عاشورا کے اہداف، مشن اور فلسفے کی تکمیل ہے۔
یعنی یہ کہ ایک طرف سے اسلامی کی اعتقادی بنیادیں، فکری اصول اور اقدار کے اصول غدیر، عاشورا اور انتظار پر استوار ہیں۔ اسلامی انقلاب کی تشکیل، کامیابی اور اس کا مستقبل، ان ہی تعلیمات کی روشنی میں قابل تشریح اور امکان پذیر ہے اور دوسری طرف سے اسلامی انقلاب، تاریخ اسلام کے اہم موڑ کے طور پر غدیر، عاشورا اور انتظار کے درمیان ربط و تعلق کی کڑی ہے؛ جو غدیر، عاشورا اور انتظار کی تعلیمات اور اقدار کا فروغ ان کے فلسفے اور مقاصد کے مکمل اظہار اور تکمیل کے لئے ماحول فراہم کرتی ہے۔
وضاحت یہ ہے کہ ان تین تعلیمات (غدیر، عاشورا اور انتظار) نے اسلامی انقلاب (کی تشکیل، کامیابی، استحکام، بقاء اور مستقبل) کے مختلف مراحل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ غدیر کا بنیادی محور (یعنی امامت و ولایت) اور امت کی جائز اور قانونی زعامت ہے جو اسلامی انقلاب کے بنیادی اصولوں میں شامل ہے۔ غدیر کی تعلیمات اور اصولوں کا بنیادی محور (یعنی امامت و ولایت) اور امت کی جائز اور قانونی قیادت ہے جو اسلامی انقلاب کے اہم ستونوں میں سے ایک ہے؛ علاوہ ازیں، تحریک کی قیادت اور اس کے تئیں ایران کے مسلمان عوام کی ہمہ جہت پیروی بھی، ولایت فقیہ کے اصول کے عنوان سے، اسلامی انقلاب سے جنم لینے والے اسلامی سیاسی نظام کا اصل محور ہے۔ عاشورا کی تعلیمات نے بھی – اسلام کی بنیادی اقدار (یعنی انقلاب، جہاد و جدوجہد اور شہادت) کو زندہ کرکے ایرانی قوم کی بیداری اور اس میں انقلابی جذبہ جگانے، اسے اندرونی ظلم و ستم اور استبدادیت اور بیرونی استعمار کے خلاف جدوجہد پر راغب کرنے اور اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد دشمن کی سازشوں اور عداوتوں کے مقابلے میں استقامت اور اسلامی انقلاب کے اعلیٰ اہداف و مقاصد کے حصول کی راہ میں جاں فشانی کرنے کا عزم و حوصلہ دینے – میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اور انتظار – جو حضرت مہدی (علیہ السلام) سے تعلق اور ظہور سے لگاؤ اور آپ کے آنے کی امید – سے عبارت ہے۔ شہید مطہری کے بقول "یہ انتظار تعمیری، برقرار اور محفوظ رکھنے والا، عہد کا پابند رکھنے والا، توانائی اور طاقت بخشنے والا اور متحرک کرنے والا ہے”۔ اس بنا پر انتظار ـ اپنی صحیح تعبیر و تشریح کے ساتھ، یعنی اپنی اور معاشرے کی اصلاح کے لئے اقدام اور عالمی مصلح کے ظہور کے لئے ماحول سازی ـ انقلاب اسلامی کے مختلف مراحل میں مؤثر کردار ادا کرتا ہے، اور دوسری طرف سے ایران کا اسلامی انقلاب بذات خود حضرت مہدی (علیہ السلام) کے عالمی انقلاب کے لئے ماحول سازی کرتا اور ظہور کے لئے تمہید کا کردار ادا کرتا ہے۔
المختصر، اسلامی انقلاب کے فکری اور اعتقادی اصولوں کا آغاز "بعثت” سے ہوتا ہے، "غدیر” میں ارتقائی مرحلہ طے کرتا ہے، "عاشورا” کے ذریعے ان اصولوں کی ابلاغ و تبلیغ کا مرحلہ پایہ تکمیل تک پہنچتا ہے، "انتظار” کے ذریعے یہ مرحلہ باقی اور جاری رہتا ہے یہاں تک کہ امام زمانہ (علیہ السلام) کے "ظہور” کے ساتھ تابندگی کی انتہاؤں پر نمایاں ہو جائے۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی غدیر کے مترادف ہے
انقلاب اسلامی کے رہبر حکیم، امام سید علی خامنہ ای (حفظہ اللہ) عظیم اسلامی عیدوں کے ساتھ اسلامی انقلاب کی کامیابی کی نسبت دلچسپ نکات بیان کرتے ہیں، جو پڑھنے کے لائق ہیں:
"22 بہمن، (11 فروری) ہماری ملت کے لئے ایک حقیقی عید ہے؛ 22 بہمن ہماری قوم کے لئے عید فطر کے مترادف ہے، جس میں ہماری ملت "سخت روزے” کے دور سے عہدہ برآ ہوئی؛ ایسا دور جس میں ہماری ملت کو روحانی اور مادی غذا سے محروم رکھا گیا تھا۔ 22 بہمن [ہمارے لئے] عیدالضحیٰ کے مترداف ہے، کیونکہ اسی روز اور اسی مناسبت سے ہماری ملت نے اپنے اسماعیلوں کو قربان کردیا۔ 22 بہمن، عید غدیر کے متراف ہے، کیونکہ غدیر کے دن ہے ولایت، اتمام نعمت اور نعمت الٰہیہ کی تکمیل، ہماری ملت [اور امت] کے لئے عملی صورت اختیار کر گئی”۔ (24/1/1990)