(سید مجاہد علی)
ملک میں نگران حکومت کے بارے میں چہ مگوئیوں کے علاوہ، انتخابات، عمران خان کے سیاسی مستقبل اور نئی گروہ بندیوں کے بارے میں خبریں توجہ کا مرکز ہیں تاہم عالمی مالیاتی ادارے نے پاکستانی معاشی صورت حال کے بارے میں ایک سنجیدہ اور قابل غور رپورٹ جاری کی ہے۔ اس میں مالی اصلاحات کے تسلسل پر زور دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’کشیدہ سیاسی ماحول اور پالیسی میں اتار چڑھاؤ ملکی معاشی بحالی کو متاثر کر سکتا ہے‘ ۔
حکومت کے علاوہ تمام سیاست دانوں کو ان پہلوؤں پر بات کرنے کی ضرورت ہے جن کا ذکر 120 صفحات کی اس رپورٹ میں کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور گورنر اسٹیٹ بنک جمیل احمد نے دستخط کیے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ موجودہ حکومت ان تمام مالی مسائل سے اتفاق کرتی ہے جن کا ذکر اس رپورٹ میں کیا گیا ہے۔ اگرچہ رپورٹ میں امید دلائی گئی ہے کہ ملکی قومی پیداوار میں اضافہ کی شرح آئندہ دو تین سال میں پانچ فیصد تک پہنچ سکتی ہے لیکن اس کے لئے شرط ہے کہ متفقہ پالیسیوں پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے اور ملک تجارتی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی ہو۔
آئی ایم ایف نے کہا کہ ملکی معیشت کو بدستور خطرات لاحق ہیں۔ مستقبل قریب میں ادائیگیوں میں توازن قائم رکھنے اور ساختیاتی چیلنجز کا سامنا کرنے کے لئے بدستور قرض کی ضرورت ہو گی۔ قرض کی ادائیگی اور ملکی معیشت کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کے لئے حکومت کو اصلاحات کرنا ہوں گی۔ قرضوں کی ادائیگی کے لئے ملکی معیشت کی صلاحیت میں اضافہ ضروری ہے۔ انتخابات کے بعد نئی حکومت کو یہ اقدامات کرنے کے لئے عالمی مالیاتی فنڈ کے علاوہ دیگر اداروں و ممالک سے مزید قرض لینے کی ضرورت ہوگی۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کے معاشی مسائل گنجلک اور تہ دار ہیں۔ معیشت کو شدید اندیشے لاحق ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لئے متفقہ پالیسیوں پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔ موجودہ حکومت نے معاشی استحکام کے مقصد سے بجلی کی قیمت میں پانچ روپے فی یونٹ اور گیس کی قیمتوں میں چالیس فیصد اضافے کی ضمانت دی ہے۔ ملک میں گیس کے شعبہ کا گردشی قرضہ بھی بجلی کے گردشی قرض کی حدوں کو چھو رہا ہے۔ حکومت اس مسئلہ کے حل کے لئے بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ قیمت خرید میں تبدیلی کے لئے مذاکرات کرے گی۔ ان کمپنیوں میں چینی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔
حکومت نے مالی استحکام کے لئے ڈالر کی شرح تبادلہ میں مداخلت نہ کرنے کا وعدہ کیا ہے تاکہ یہ شرح مارکیٹ کے مطابق طے ہو اور مہنگائی کم کرنے اور زرمبادلہ ذخائر میں اضافہ کے امکانات پیدا ہوں۔ زرمبادلہ کی شرح میں استحکام کے بعد حکومت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ انٹر بنک اور مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں 1، 25 فیصد سے زیادہ یا کم فرق نہ ہو۔ اگر متفقہ پالیسیوں اور اقدامات پر عمل کیا گیا اور اصلاحات نافذ کی گئیں اور عالمی اداروں سے قرض فراہم ہوتا رہا تو ملکی قومی پیداوار میں اضافہ کی شرح پانچ فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔ موجودہ مالی سال میں شرح پیدا وار اڑھائی فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے۔ موجودہ مالی سال میں افراط زر کی شرح 25 فیصد رہنے کا امکان ہے لیکن مناسب معاشی ماحول میں اس میں بتدریج کمی ہو سکتی ہے۔ پاکستان میں معاشی اصلاحات کا عمل بہت تاخیر سے شروع ہو رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں اب اٹھائے جانے والے مالی اقدامات بھی مہنگائی میں فوری اضافہ کا سبب بنیں گے لیکن بتدریج صورت حال مستحکم ہونے لگے گی۔ تاہم پالیسیوں کے تسلسل کے نتیجہ میں 26۔ 2025 تک مہنگائی کی شرح دوہرے ہندسے سے کم ہو سکتی ہے۔
آئی ایم ایف کی تجویز کے مطابق آمدنی میں اضافہ کے علاوہ مصارف میں شفافیت بحالی کے مشکل عمل میں اہم ہوگی۔ گورننس میں بہتری، شفافیت اور سرکاری اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے اقدامات ہونے چاہئیں تاکہ مالی مسائل کم ہو سکیں۔ تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ کیا جائے تاکہ روزگار کے مواقع پیدا ہوں اور سرمایہ کاری میں اضافہ ہو۔ ملک میں بدعنوانی کی روک تھام کے لئے سخت اقدامات کیے جائیں۔ ماحولیاتی بہتری کے اقدامات ہوں۔ اس رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ حکومت نے وعدہ کیا ہے کہ زراعت اور تعمیرات کے شعبوں پر ٹیکس عائد کیا جائے گا۔
یہ ایک گمبھیر اور سنجیدہ رپورٹ ہے۔ اس میں روشن مستقبل کے امکانات کی خبر دی گئی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستانی معیشت میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی صلاحیت موجود ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ان متعدد مسائل کا ذکر کیا گیا ہے جن کی وجہ سے معیشت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ خاص طور سے گزشتہ ڈیڑھ دو سال کے دوران سیاسی بحران اور کھینچا تانی کا جو ماحول موجود رہا ہے، اس میں معیشت مسلسل نظر انداز ہوئی۔ پہلے تحریک انصاف کی حکومت نے اور پھر شہباز حکومت نے ضروری معاشی اصلاحات سے گریز کیا تاکہ انہیں عوام کے غم و غصہ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ گو کہ شہباز شریف یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی حکومت نے ملک کی بہتری کے لئے اپنے ووٹ بنک کی بھی پرواہ نہیں کی لیکن حقیقیت یہی ہے کہ اسحاق ڈار نے وزارت خزانہ سنبھالنے کے بعد آئی ایم ایف سے طے شدہ مالی اصلاحات جاری رکھنے کی بجائے اپنے پیش رو مفتاح اسماعیل کے برعکس معاشی اقدامات کی بجائے سیاسی فیصلے کرنا ضروری سمجھا تاکہ متوقع انتخابات میں مسلم لیگ (ن) سیاسی کامیابی حاصل کرسکے۔
یہ صورت حال صرف اس وقت تبدیل ہو سکی تھی جب ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گیا اور شہباز شریف نے ذاتی طور پر آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹیلانا گیوگیوارا سے ملاقاتیں کیں اور آئی ایم ایف کی تمام شرائط منظور کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ ان مذاکرات ہی کے نتیجہ میں آئی ایم ایف پاکستان کو 9 ماہ کے لئے اسٹینڈ بائی انتظام کے تحت 3 ارب ڈالر کا قرضہ دینے پر راضی ہوا تھا۔ موجودہ رپورٹ اسی قرض کے معاہدہ کے حوالے سے پاکستانی معیشت کا جائزہ ہے۔ حکومت اسے اپنی کامیابی کی سند کے طور پر پیش نہیں کر سکتی۔
عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے بعد شہباز شریف کی قیادت میں حکومت قائم کرنے کرتے ہوئے معاشی اصلاح کا اعلان کیا گیا تھا لیکن شہباز شریف کی حکومت مشکل فیصلے کرنے اور ضروری اصلاحات نافذ کرنے سے گریز کرتی رہی ہے۔ گویا حکومت کا مقصد آئندہ انتخابات میں کامیاب کے امکانات پیدا کرنا رہا، معاشی اصلاح کا مقصد کہیں پیچھے رہ گیا۔ ملک کو تباہی کے کنارے پہنچانے کے بعد آئی ایم ایف سے تین ارب ڈالر کا اسٹینڈ بائی معاہدہ کیا گیا۔ حکومت اسے اپنی کامیابی کے طور پر پیش کر رہی ہے لیکن یہ کامیابی سے زیادہ مجبوری کی تصویر کشی ہے۔ اسی لئے وزیر اعظم کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کا قرض ’حلوہ مانڈا نہیں ہے‘ ،
پاکستانی عوام اس وقت جن مالی مشکلات کا بوجھ برداشت کر رہے ہیں وہ کسی ایک حکومت کی غلطیوں کا خمیازہ نہیں ہے بلکہ جوڑ توڑ اور اقتدار کی ہوس میں کی جانے والی سیاست کا نتیجہ ہے۔ فوج کے علاوہ تمام سیاسی پارٹیاں یہی سمجھتی رہی ہیں کہ اگر انہیں فیصلے کرنے کا اختیار مل جائے تو چٹکی بجاتے مسائل حل کر دیے جائیں گے لیکن آئی ایم ایف کی رپورٹ واضح کرتی ہے کہ معاشی بحالی کا کام چٹکیاں بجانے، سیاسی جوڑ توڑ کرنے اور اقتدار کی کھینچا تانی کے ماحول میں ممکن نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے پوری قوم کو متفقہ طور سے خود کفیل ہونے کے عزم سے محنت درکار ہوتی ہے۔ ملکی سیاسی مباحث میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا دعویٰ ہے کہ اگر فوج زور زبردستی کر کے عمران خان کو اقتدار نہ دلواتی تو ملک معاشی ترقی کی معراج چھو رہا ہوتا۔ لیکن اس دعوے کا کوئی عملی ثبوت موجود نہیں ہے۔ البتہ ایک بات طے ہے کہ اگر 2008 کے بعد پہلے پیپلز پارٹی اور پھر مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو مسلسل دباؤ میں نہ رکھا جاتا تو معاشی صورت حال اس قدر خراب نہ ہوتی۔
عمران خان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد آئی ایم ایف اور سی پیک کے حوالے سے تحریک انصاف کے زعما کے متضاد بیانات اور دعوؤں نے بھی معاشی بحالی کے عمل میں رکاوٹیں پیدا کیں۔ عمران خان اسی غلط فہمی کا شکار رہے کہ خیراتی منصوبے شروع کر کے اور روحانی یونیورسٹی قائم کرنے سے ملک ترقی کی شاہراہ پر بگٹٹ دوڑنے لگے گا۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ اس دور میں بھی فوج کے سیاسی کردار نے تحریک انصاف کی حکومت کے لئے آسانیوں سے زیادہ مشکلات پیدا کیں جس کے نتیجہ میں بالآخر وزیر اعظم اور آرمی چیف مدمقابل آ گئے۔ کمزور سیاسی و پارلیمانی نظام کی وجہ سے اس تصادم میں آرمی چیف جیت گیا اور وزیر اعظم ہار گیا۔
موجودہ حکومت کے نمائندے تسلسل سے دعوے کرتے ہیں کہ عمران خان نے عدم اعتماد سے پہلے پیٹرولیم مصنوعات میں اضافہ کر کے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کی خلاف ورزی کی تھی جس کی وجہ سے ملکی معیشت کو مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ شہباز شریف تو عمران خان کے مالی اقدامات کو ’بارودی سرنگیں بچھانے کے مترادف‘ قرار دے چکے ہیں۔ لیکن اس حقیقت کو نظر انداز کیا جاتا ہے کہ پی ڈی ایم نے سیاسی مہم جوئی میں تحریک انصاف کو ایک دن بھی اطمینان سے حکومت کرنے کا موقع نہیں دیا۔ اسی کھینچا تانی میں عمران خان سائفر کہانی گھڑنے اور آئی ایم ایف سے معاہدہ کو نظر انداز کرنے کی غلطیاں کرنے پر مجبور ہوئے۔ اقتدار بچانے کے لئے کوئی بھی پاکستانی لیڈر ایسی ہی کاوش کرتا۔ شہباز شریف کے دور میں اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف کے ساتھ جو مشکلات پیدا کیں، ان کا شمار بھی اسی مزاج میں ہو گا جس کے تحت سیاست دان سیاسی قبولیت کے لئے غلط معاشی فیصلے کرتے ہیں۔
معاشی بگاڑ کی موجودہ صورت ہال سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ الزام تراشی کا دیرینہ طریقہ ترک کیا جائے اور کسی بھی قیمت پر ملک میں سیاسی استحکام پیدا کیا جائے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کے مطابق ساختیاتی اصلاحات کرنے اور ٹیکس ریلیف دینے سے گریز کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ زراعت اور تعمیراتی شعبہ کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی شرط مانی گئی ہے۔ موجودہ حکومت کا تو اب چل چلاؤ ہے تاہم مستقبل کی کوئی بھی حکومت اگر ان شرائط کو پورا کرنے سے گریز کرتی ہے تو ملکی معیشت مسلسل ابتری کا شکار رہے گی۔ پاکستان پر قرضوں کا اس قدر بوجھ ہے کہ ان کی ادائیگی اور باعزت قوم کے طور پر سر اٹھانے کے لئے بہر صورت قومی پیداواری صلاحیت میں اضافہ درکار ہے۔ اس راستے میں درپیش مشکلات سے سب کو مل کر نمٹنا ہو گا۔
زرعی اور تعمیراتی شعبہ پر ٹیکس ملکی معیشت کی بحالی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ بدقسمتی سے با اثر جاگیر دار سیاسی پوزیشن کی وجہ سے اس شعبہ کو ہمیشہ ٹیکس سے بچاتے رہے ہیں۔ اسی طرح رئیل اسٹیٹ میں فوجی اداروں کی حصہ داری اور سرمایہ کاری کی وجہ اس شعبہ کو ٹیکس چھوٹ ملتی رہی ہے۔ نئی حکومت کو ان دونوں چیلنجز کا سامنا ہو گا۔ یہ دو اہم اقدامات کر کے ہی ملک کو ایک بار پھر معاشی لحاظ سے خود انحصاری کی طرف گامزن کرنا ممکن ہو گا۔ اب ذاتی، گروہی یا ادارہ جاتی مفادات کی بجائے قومی مفاد کو ترجیح دینا ضروری ہے۔بشکریہ ہم سب نیوز
نوٹ:ادارے کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔