Breaking News
Home / کالمز / انتخابات اور خان کا سیاسی مستقبل

انتخابات اور خان کا سیاسی مستقبل

(تحریر : عمران یعقوب خان)

ملک میں عام انتخابات وقت پر ہوں گے یا نہیں؟ اس حوالے سے حکومتی یقین دہانیوں کے باوجود تشویش موجود ہے۔ اگرچہ وزیراعظم شہباز شریف کہہ چکے کہ اسمبلی مدت سے پہلے توڑ دی جائے گی۔ یہ خبریں بھی گرم ہیں کہ (ن)لیگ اور پیپلز پارٹی میں طے پا گیا ہے کہ 8اگست کو قومی اسمبلی تحلیل کردی جائے گی گو کہ مریم اورنگزیب نے اس کی تردید کی ہے۔ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ نگران سیٹ اَپ محدود مدت تک کیلئے ہوگا یا پھر طویل مدتی؟ اگر مقتدرہ کی طرف سے گرین سگنل ہوا تو انتخابات مقررہ مدت میں ہو جائیں گے‘ دوسری صورت میں ایسا مشکل نظر آتا ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ نگران سیٹ اَپ کس طرح سے بنتا ہے اور اس کو کون طے کرتا ہے؟ اس عمل سے بھی بہت سے سوالوں کا جواب مل جائے گا۔

سیاسی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس وقت حکومت کیلئے حالات سازگار ہیں کہ وہ الیکشن کی طرف جا سکے۔ آئی ایم ایف اور دوست ممالک سے پیسے بھی مل چکے۔ ڈیفالٹ کا خطرہ بھی ٹل چکا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ تحریک انصاف اس وقت گرم پانیوں میں ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف کئی مقدمات درج ہیں۔ کسی ایک کیس میں ان کی نااہلی ہو سکتی ہے۔ ان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے ان کے خلاف بیان نے صورتحال کو مزید گمبھیر بنا دیا ہے۔ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ حکومت وقت سے پہلے اسمبلی توڑ کر الیکشن کیلئے زیادہ وقت اس لیے لینا چاہتی ہے کہ ایک طرف نواز شریف کی واپسی کی گنجائش بن جائے اور دوسری جانب چیئرمین پی ٹی آئی نا اہل ہو جائیں۔ ادھر پی ٹی آئی کے حصے بخرے بھی ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ جہانگیر ترین نے پی ٹی آئی سے استحکامِ پاکستان پارٹی جبکہ پرویز خٹک نے پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرین بنا لی ہے۔ وہ ایک مضبوط گروپ بنا رہے ہیں جس میں سابق وزیراعلیٰ کے پی محمود خان بھی شامل ہیں۔ مزید جانے مانے نام بھی اس جماعت میں شامل ہو سکتے ہیں۔ پرویز خٹک کے پی میں کافی سیاسی اثرو رسوخ رکھتے ہیں۔ وہ کپتان کی حکومت میں ہوتے ہوئے بھی ان سے کھل کر اختلاف کرتے تھے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا اس وقت بھی یہ کہنا تھا کہ پرویز خٹک کے دِل میں کپتان کو لے کر کچھ اور ہی پک رہا ہے۔ آئندہ انتخابات میں ان کی الگ جماعت بنانے کی وجہ سے کہیں نہ کہیں تحریک انصاف کو دھچکا لگے گا۔ شاید انہی حالات کو دیکھتے ہوئے بہت سے وفاقی وزرا یہ کہہ رہے ہیں کہ اب انتخابات میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔

دوسری طرف ایم کیو ایم نئی مردم شماری پر جو مدعا سامنے لائی ہے اس سے ایسا لگ رہا ہے کہ انتخابات کی راہ میں بند باندھ رہی ہے۔ حکومت پہلے کہا کرتی تھی کہ نئی مردم شماری اور حلقہ بندیوں کے بغیر انتخابات کرانا ممکن ہی نہیں لیکن اب اسے راستہ صاف نظر آنے لگا ہے تو پرانی مردم شماری پر انتخابات کروانے چل نکلی ہے۔ آپ اندازہ لگائیں کہ نئی مردم شماری پر 35 ارب روپے لاگت آئی جبکہ حکومت کہتی تھی کہ اس کے پاس الیکشن کروانے کیلئے 20ارب بھی نہیں۔ ایسے میں سوالات تو اٹھیں گے۔ پہلے حکومت یہ کہتی رہی کہ الیکشن نئی مردم شماری اور نئی حلقہ بندیوں کے مطابق ہوں گے لیکن اب (ن) لیگ کے رہنما یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ الیکشن پرانی مردم شماری کے مطابق ہی ہوں گے۔ یعنی قوم کا اربوں روپیہ مردم شماری میں جھونک کرکہا جا رہا ہے کہ الیکشن پرانی مردم شماری کے مطابق ہوں گے۔ اس پر حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگ رہا ہے۔ کیا ڈیجیٹل مردم شماری کے تمام تقاضے پورے نہیں ہوئے؟ اور اس وجہ سے حکومت اس کے نتائج جاری نہیں کر رہی؟ غالباً 30اپریل تک مردم شماری کا عمل مکمل ہونا تھا لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اعتراضات کی وجہ سے مردم شماری کا عمل متاثر ہوا۔ اب ظاہر ہے اگر نئی مردم شماری کے نتائج جاری ہو گئے تو پھر نئی حلقہ بندیاں بھی کروانا پڑیں گی‘ جس کیلئے کم از کم4ماہ مزید لگ سکتے ہیں‘ اگر ایسا ہوا تو انتخابات اس سال بھی ہوتے نظرنہیں آتے۔ اس لیے اب حکومت نے کہا ہے کہ انتخابات 2017ء کی مردم شماری کے تحت ہی ہوں گے۔ دوسرا نئی مردم شماری پر ایم کیو ایم اور سندھ کی دیگر جماعتوں کو اعتراض ہے۔ حکومت یہ جواز پیش کر رہی ہے کہ اگر نئی مردم شماری پر حلقہ بندیاں ہوں گی تو ایم کیو ایم اس پر بھی اعتراض اٹھائے گی جبکہ ایم کیو ایم 2017ء کی مردم شماری اور حلقہ بندیوں پر الیکشن کروانے پر بھی تیار نہیں۔

مردم شماری اور حلقہ بندیوں پر ماضی میں بھی اعتراضات رہے ہیں۔ نوے کی دہائی میں جب مردم شماری ہوئی تو اس وقت پنجاب نے سندھ میں ہونے والی مردم شماری پر اعتراضات لگائے‘ جس کے سبب یہ مردم شماری متنازع ہوگئی۔ اس وقت وزیراعظم نواز شریف تھے۔ جب ملک کے دوسرے صوبوں کے ساتھ سندھ کی مردم شماری کے اعداد و شمار ظاہر ہوئے تو پنجاب نے سندھ کی مردم شماری کے اعداد و شمار کو مسترد کردیا۔ وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے پورا زور لگایا کہ پنجاب‘ سندھ کی مردم شماری کے نتائج تسلیم کرلے۔ اس مقصد کیلئے وزیراعظم بینظیر بھٹو نے لاہور میں گورنرز کانفرنس بلائی جس میں بشمول پنجاب سارے صوبوں کو قائل کرنے کی کوشش کی گئی کہ اس مردم شماری کو قبول کیا جائے مگر پنجاب کے وزیراعلیٰ نے اس بات کوتسلیم کرنے سے انکار کردیا۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی ایک صوبہ مردم شماری کو قبول نہیں کرتا تو پھر یہ مردم شماری قابلِ عمل نہیں رہتی۔ اب بھی انتخابات کے حوالے سے یہ پیچیدہ مسئلہ بن گیا ہے۔ رواں سال 15مئی کو گنتی کا عمل مکمل ہو چکا تھا لیکن نئی مردم شماری کے نتائج نوٹیفائی ہی نہیں ہو سکے کیونکہ پی ڈی ایم حکومت نے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس ہی نہیں بلایا۔ اس کونسل نے مردم شماری کے حتمی نتائج کی منظوری دینی ہے۔ مردم شماری کی وجہ سے گومگو کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ آئینی ماہرین کے مطابق الیکشن اسی وقت ہو سکتے ہیں جب آئین میں ترمیم کی جائے۔ کیونکہ یہ ضروری ہوتا ہے کہ نئی مردم شماری کے بعد آئین کے آرٹیکل (3)51 میں صوبوں کیلئے قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کو تبدیل کیا جائے جس کیلئے الیکشن کمیشن نئی حلقہ بندیاں کرتا ہے۔

لیکن یہ سب آئینی ترمیم کے بغیر ممکن نہیں اور آئینی ترمیم کیلئے اسمبلی میں دو تہائی اکثریت چاہیے ہوتی ہے جو اس وقت حکومت کے پاس نہیں۔ اس لیے حکومت کے پاس الیکشن پرانی مردم شماری کے تحت کروانے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔ لیکن حکومت کے مخالفین یہ کہتے ہیں کہ کیونکہ نئی مردم شماری کے نتائج جاری نہ ہونے اور نئی حلقہ بندیاں نہ ہونے کی صورت میں نئے ووٹر کا اندراج نہیں ہوگا اور تحریک انصاف سمجھتی ہے کہ نیا ووٹر اس کے ساتھ ہے اور اسے ووٹ ڈالنے سے روکنے کی خاطر حکومت نئی مردم شماری کے نتائج ظاہر نہیں کر رہی؟ جبکہ میں اس بات پر متفق اس لیے نہیں ہوں کہ اگر ایسا ہے تو پھر (ن) لیگ کے ووٹرز بھی تو اس حساب سے بڑھیں گے اور یہ بھی ممکن ہے کہ نئے ووٹرز کا زیادہ جھکاؤ (ن) لیگ کی طرف ہو۔ یہ محض ہوائی باتیں ہیں کہ فلاں کے ووٹ بینک میں اضافے کے خدشے سے حکومت نئی مردم شماری پر انتخابات نہیں چاہتی۔ ان باتوں کا نچوڑ نکالا جائے تو انتخابات کی راہ حکومت کی جانب سے صاف ہو چکی ہے لیکن اب نئی اور پرانی مردم شماری پر بحث نے اور نگران سیٹ اَپ کی ممکنہ طوالت نے الیکشن کے بروقت ہونے پر سوال کھڑے کر دیے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ اگر نگران وزیراعظم کوئی معاشی ماہر بنا تو ممکن ہے الیکشن اگلے سال بھی نہ ہوں لیکن ابھی اگر‘ مگر کے خدشات موجود ہیں جو نگران سیٹ اَپ کے بننے کے بعد ہی ختم یا درست ثابت ہوں گے۔بشکریہ دنیا نیوز

 

نوٹ:ادارے کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Check Also

حزب اللہ کے نصراللہ اسرائیل کے خلاف کب تک اپنے آپ کو روکے رکھیں گے؟

(شہاب الدین صدیقی) غزہ پر اسرائیلی حملے کے پہلے چار ہفتوں تک سید حسن نصراللہ …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے