Breaking News
Home / کشمیر / بھارتی سپریم کورٹ کا کڑا امتحان

بھارتی سپریم کورٹ کا کڑا امتحان

(شکیل فاروقی)

برصغیر جو پہلے ہندوستان کے نام سے موسوم تھا بے تحاشہ دولت سے مالامال تھا، سونے کی چڑیا کہلاتا تھا۔ فرنگی اسے للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے تھے اور ان کی شدید خواہش تھی کہ کسی طرح اس پر قبضہ کر لیا جائے۔

عیاری اور مکاری جو ان کی سرشت میں شامل ہے اور سازش جو ان کے خون میں شامل ہے۔ اسے استعمال کرتے ہوئے انھوں نے سونے کی چڑیا حاصل کرنے کا ایک گھناؤنا منصوبہ تیار کیا۔ پھر ہوا یوں کہ انھوں نے کھیپیوں کا بھیس بنا کر سورت کے راستہ ہندوستان میں داخل ہونے کا راستہ اختیار کیا۔ انھوں نے یہ بہانہ بنا کر کہ وہ اپنا مال و اسباب یہاں رکھنا چاہتے ہیں اپنا پڑاؤ ڈالا۔

برصغیر کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن تھا جب فرنگیوں کے منحوس قدم اس دھرتی پر پڑے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ فرنگیوں کی ایسٹ انڈیا نامی کمپنی نے ہندوستان کی سرزمین پر قبضہ جمانے کا آغاز کردیا۔ پھوٹ ڈالو اور راج کرو، ان کی پالیسی کی بنیاد تھا۔

دیکھتے ہی دیکھتے انھوں نے اپنے ناکام عزائم کا آغاز کر دیا، جس کے نتیجہ میں ہندوستان کے حکمران ان کی چالبازی کا شکار ہونے لگے اور یکے بعد دیگرے زوال کا شکار ہونے لگے اور ’’ اس گھرکو آگ لگ گئی، گھر کے چراغ سے۔‘‘

انگریزوں کی سازش کا حصہ بن کر مقامی حکمرانوں کے خلاف دغا بازی میں دو نام سرفہرست ہیں اس لیے کہا جاتا ہے کہ:

جعفر از بنگال و صادق از دکن ننگ ملت، ننگ دین، ننگ وطن

انگریزوں کے احساس برتری کا عالم یہ تھا کہ ہندوستانی بشمول مسلمانوں اور ہندوؤں کا داخلہ ان ریستورانوں میں ممنوع تھا اور داخلی دروازوں پر ایک تختی لگی ہوئی ہوتی تھی جس پر لکھا ہوا ہوتا تھا کہ ’’ ہندوستانی اور کتوں کا داخلہ ممنوع ہے۔‘‘ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ انگریزوں نے ہندوستانیوں کو اپنے جوتوں کے نیچے دبا کر رکھا ہوا تھا اور وہ نسلی امتیاز کا شکار تھے۔

1947 میں برصغیر کے اپنے غلاموں کو آزاد کرتے ہوئے بھی فرنگی حکمران اپنا کمینہ پن دکھانے سے باز نہ آئے اور ہندوستان کی تقسیم میں بندر بانٹ کرتے رہے اور جاتے جاتے کشمیر کا مسئلہ کھڑا کر کے گئے جو بھارت اور پاکستان کے مابین فساد کی جڑ بنا ہوا ہے اور جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان 4 خوفناک جنگیں لڑی جاچکی ہیں اور ایک اور جنگ کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے اور اگر بھارت کے جواب میں پاکستان بھی ایٹمی قوت نہ بنا ہوتا تو نامعلوم کیا حشر ہوتا۔

اب آتے ہیں بھارت کے ناجائز زیر قبضہ کشمیری مسلمانوں کی اکثریتی ریاست جموں و کشمیر کے مسئلہ کی جانب جو برصغیر کی تقسیم کے وقت برطانوی حکمرانوں کی سراسر زیادتی، بے انصافی اور عیاری کا پیدا کیا ہوا ہے۔

بھارتی آئین کی دفعہ 370 کے خارج کردینے کے حکومتی فیصلہ کے تقریباً 4 سال بعد جس کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل ہوئی۔ بھارتی سپریم کورٹ کی 5 ممبروں پر مشتمل بینچ جس کے سربراہ دھانن جیا یشونتھ چندرچ ور نے دہلی کے 5 اگست 2019 کے اقدام کی سماعت11 جولائی سے شروع کردی ہے۔

دفعہ 370 کے اخراج کے بعد اس ایکٹ کو بھارتی سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے 20 پیٹیشنز دائر کی گئی ہیں۔ ایکٹ کو چیلنج کرنے والے پیٹشنرز نے بھارتی سپریم کورٹ سے التجا کی ہے کہ اس مقدمہ کی جلد سے جلد شنوائی کی جائے۔

بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے مقبوضہ مسلم اکثریت والی ریاست کی خصوصی حیثیت کو واپس بحال کرنے اور پیٹشنرز کو ریلیف دینے کے امکانات کے حوالہ سے کئی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ آیا سپریم کورٹ ایسے حالات میں جب کہ بے جے پی نے ریاست کے تمام اداروں کو جس میں بیوروکریسی، عدلیہ اور فوج شامل ہیں اپنے لوگوں سے بھر دیا ہے، انصاف کرسکتی ہے؟ ایک سوال یہ بھی ہے کہ دفعہ 370 کو چیلنج کرنے والے پیٹشنز کی سماعت کرنے کے لیے بھارتی سپریم کورٹ نے 4 سال کیوں لگا دیے؟ ایک اور سوال یہ بھی ہے کہ اگر بھارتی سپریم کورٹ نے اگست 2019 کے ایکٹ کو غیر موثر اور کالعدم قرار دے دیا تو پھر کیا ہوگا؟

جو لوگ کشمیریوں کے حق میں دیے جانے والے فیصلہ کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بھارتی پارلیمان 5 اگست 2019 ایکٹ کی توثیق کردے۔ ایک مرتبہ دفعہ 370 کی منسوخی کی توثیق کو پارلیمان کے دونوں ایوان اور صدر منظور کر لیتے ہیں تو پھر یہ قانون بن جاتا ہے جس کی تنسیخ ممکن نہیں۔

سپریم کورٹ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ اگر پارلیمان کا منظور شدہ قانون خلاف آئین یا آئین سے متصادم ہے تو وہ اسے منسوخ کرسکتی ہے۔ جموں و کشمیر ری آرگنائزیشن ایکٹ کا سب سے بڑا قانونی سقم یہ ہے کہ اسے جموں کشمیر اسمبلی کی منظوری کے بغیر لاگو کر دیا گیا۔

2016 سے مقبوضہ علاقہ پر گورنر راج قائم ہے کیونکہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی حکومت گر چکی تھی۔ اس لیے 5 اگست 2019 کو جب بھارتی حکومت نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کردیا تو ا س وقت سری نگر میں کوئی منتخب اسمبلی موجود نہیں تھی۔

محبوبہ مفتی کی دلیل یہ ہے کہ ’’ سپریم کورٹ کے دفعہ 370 کے مطابق اس شق کو ا سی صورت میں منسوخ کیا جاسکتا ہے، جب تک اسے جموں و کشمیر کی اسمبلی منظور نہ کردے، کیونکہ 5 اگست 2019 میں سری نگر میں کوئی اسمبلی موجود نہیں تھی، اس لیے مودی سرکار کی شق 370 کو منسوخ کرنا غیر قانونی ہے۔‘‘

اسی طرح نیشنل کانفرنس کے لیڈر عمر عبداللہ کا کہنا ہے کہ ’’ دیر آید درست آید۔‘‘ ا ن کا کہنا ہے کہ ’’ ہمیں اسی دن کا انتظار تھا۔ ’’ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’ ہمیں امید ہے کہ اس مقدمہ کی شنوائی جلد ہوگی اور فیصلہ ہونے میں بھی تاخیر نہیں ہوگی۔‘‘

مودی سرکار چونکہ اس مقدمہ میں تکنیکی اڑنگے لگا رہی ہے اس لیے توقع نہیں کہ اس مقدمہ کا جلد فیصلہ ہوسکے گا۔ بھارتی سپریم کورٹ کی انصاف پسندی کا یہ کڑا امتحان ہے کہ وہ مودی سرکار کے دباؤ میں آئے گی یا نہیں آئے گی؟بشکریہ ایکسپریس نیوز

نوٹ:ادارے کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

 

 

Check Also

ڈیلاس پیس اینڈ جسٹس سینٹر کا کشمیری رہنما یاسین ملک کی رہائی کا مطالبہ

ڈیلاس پیس اینڈ جسٹس سینٹر نے کشمیری رہنما یاسین ملک کی فوری رہائی پر زور …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے