پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ’میاں صاحب اور زرداری صاحب کو ایسے فیصلے لینے چاہیے کہ آگے جا کر میرے اور مریم نواز کے لیے سیاست آسان ہو مشکل نہ ہو۔‘ قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ’لیکن جس طریقے سے ہم چل رہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ہمارے بڑوں نے فیصلہ کیا ہے کہ جو 30 سال کی سیاست آپ لوگوں نے بھگتا ہے آگے جا کر ہم ایسی سیاست کریں۔‘ وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم نے جب حکومت سنبھال لی تو ہماری کوشش تھی کہ جمہوریت کو مضبوط کرے۔’ہم نے ہمیشہ کوشش کی کہ کوئی ایسا کام نہ ہو جس سے تیسری قوت کو فائدہ ہو۔‘
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ہمیں ایسی اپوزیشن ملی جس نے سیاست کو دشمنی میں تبدیل کر دیا تھا۔ ’اس وقت ہم الیکشن کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن سیاسی جماعتوں کو سیاست کچھ اس طرح کرنی چاہیے جس سے ہم جو موجودہ صورتحال بنی ہے، اس کو مفاہمت کی طرف لے جا سکے۔‘ انہوں نے کہا کہ ’پی پی پی کا موقف ہے کہ اگر ہم نئے چارٹر آف ڈیموکریسی نہیں تو پرانے چارٹر آف ڈیموکریسی پر تمام جماعتوں، بشمول ان کے جو اسمبلی سے باہر ہیں، کو ساتھ ملائیں۔ اور اداروں کو بھی اس چارٹر کو یا تو ماننا پڑے گا یا اس ڈائیلاگ کا حصہ بننا پڑے گا.
جس میں ہم مل بیٹھ کر یہ طے کریں کہ واپڈا متعلقہ وزیر چلائے گا یا سپریم کورٹ کا چیف جسٹس۔‘ بلاول بھٹو نے کہا کہ ’ہمیں آخرکار رولز آف دی گیمز آپس میں طے کرنے پڑے گے کہ کسی چارٹر یا کوڈ آف کنڈکٹ کے تحت نہ صرف سیاسی جماعتیں آپس میں سیاست کریں گی، بلکہ ہمارے ادارے دوسرے اداروں کے ساتھ چلیں گے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’سیلیکٹڈ حکومت کی مخالفت کر کے ہم اس بات پر زور دیتے تھے کہ تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کریں، لیکن ہمیں جو 15 ماہ ملے اس میں ہم یہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔‘پی پی پی کے چیئرمین نے کہا کہ جہاں اپوزیشن کی ذمہ داری ہے کہ اپنا رویہ درست کریں، ہم پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ سیاست دان بنیں اور جمہوریت کو مضبوط بنانے کی کوشش کریں۔ اپنی تقریر میں بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ 65 فیصد آبادی جو 30 سال سے کم نوجوانوں پر مشتمل ہے، وہ جو سیاست دیکھتے ہیں تو وہ نہ ہم پر بھروسہ کرتے ہیں اور نہ کسی اور پر۔ ’ملک کا سب سے بڑا اثاثہ ہماری نوجوان نسل ہے جو ملک کو ترقی دے سکتی ہے۔ میری تمام سیاسی جماعتوں سے گزارش ہے کہ ہم اپنا رویہ اور سیاست ایسی رکھیں کہ ان نوجوانوں کی امید باقی رہے۔‘