(محمد سعید آرائیں)
اپنی مدت پوری کرنے والی قومی اسمبلی کے 15 ممبران نے جاتے جاتے تیز ترین قانون سازی کا نیا ریکارڈ قائم کر دیا ہے اور ایک گھنٹے میں 29 بل منظور کر لیے۔ یہ کارنامہ بغیر کورم جاری اجلاس میں انجام دیا گیا جس پر پی ٹی آئی کے ایک منحرف رکن نے اعتراض بھی کیا جس پر اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔
تیز ترین قانون سازی کا ایسا ہی ایک ریکارڈ پی ٹی آئی حکومت میں بھی قائم ہوا تھا، جو اب پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت نے توڑ دیا ہے اور پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے اسپیکر قومی اسمبلی نے صرف 15 ممبران کی موجودگی میں کورم کے بغیر اجلاس جاری رکھ کر حکومت کی مدد کی۔
ارکان قومی اسمبلی نے بنا پڑھے اور بنا دیکھے 24 یونیورسٹیوں اور اداروں کے قیام سے متعلق قانون سازی کر کے نیا ریکارڈ قائم کر دیا۔
قومی اسمبلی کے 342 ممبران میں صرف 15 ممبران ہی فالتو تھے یا حکومت کو دستیاب تھے اور باقی سرکاری چھٹی کے باعث اسلام آباد میں ذاتی نوعیت کے کاموں میں مصروف ہوں گے یا تھوڑے ارکان محرم کے باعث اپنے حلقوں میں موجود ہوں گے ورنہ وہ بھی اسلام آباد ہی میں ہوتے ، چند دنوں کے مہمان یہ ارکان اسمبلی کیسے پیچھے رہ جاتے۔
پروگرام ایکسپرٹس میں تجزیہ کاروں نے 15 ممبران کی طرف سے ایک گھنٹے میں 29 بلوں کے پاس کیے جانے کو عوام اور پارلیمنٹ کی توہین قرار دیا ہے جب کہ وہ خود مان رہے ہیں کہ وہ ایوان میں آئے اور انھوں نے کورم کے بغیر بھی قانون سازی کر ڈالی اور قائمہ کمیٹیوں کو بھی زحمت سے بچا لیا کیونکہ قائمہ کمیٹیوں میں بھی یہی ارکان اسمبلی شامل ہیں اور وہ بھی قائمہ کمیٹیوں کے اجلاس کے لیے وقت نہ نکال پاتے۔
قائمہ کمیٹیوں کا وجود بھی ایک تکلف ہی ہے جو قانونی ضرورت تو ہے مگر قائمہ کمیٹیاں بھی انھی ارکان کی ہیں جو ان کمیٹیوں میں نہیں آتے وہاں صرف اپوزیشن کے ارکان آتے ہیں اور قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی زیادہ تعداد اپوزیشن کے ارکان کی ہی ہوتی ہے جب کہ سرکاری ممبران تو ویسے بھی ایوان میں نہیں آتے وہ اکثر اپنے ذاتی کاموں میں مصروف ہوتے ہیں اور وزیر سے ملنے کے لیے دور دراز سے آنے والوں کو بتایا جاتا ہے کہ اندر وزیر موصوف اہم اجلاس میں مصروف ہیں۔
اس لیے ملاقات نہیں ہو سکتی اور چائے پینے یا گپ لگانے کے بعد وزیر موصوف ان ارکان اسمبلی کے ساتھ مخصوص گیٹ سے نکل کر کہیں ظہرانے کے لیے نکل جاتے ہیں اور منتظر افراد کو بتایا جاتا ہے کہ وزیر موصوف کسی اور اہم اجلاس میں شرکت کے لیے دفتر سے نکل گئے ہیں اور لوگ سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔
پاکستان کی پارلیمنٹ وہ جگہ ہے جس کو وزیر اعظم اہمیت دیتے ہیں نہ ان کے وزرا، تو ارکان کو کیا پڑی کہ وہ ایوان میں جا کر وقت ضایع کریں اسی لیے وہ پارلیمنٹ آ کر اپنی حاضری لگا کر الاؤنسز کھرے کر لیتے ہیں اور ایوان میں کورم کے لیے گھنٹیاں بجائی جاتی رہتی ہیں کیونکہ ایوان میں خالی نشستیں ان ارکان کی منتظر رہتی ہیں اور اکثر اسمبلیوں میں کورم پورا نہیں ہوتا اور حکومت کو بغیر کورم قانون سازی کرانا پڑتی ہے بس اسپیکر یا چیئرمین اپنا ہونا چاہیے کیونکہ اسپیکر اور چیئرمین ہی کورم کے بغیر اجلاس جاری رکھتا ہے کیونکہ یہ اسی کا اختیار ہے۔
سینیٹ اور قومی اسمبلی ہی نہیں صوبائی اسمبلیوں کا بھی یہی حال ہے وہاں کبھی وقت پر ارکان نہیں آتے۔ کورم کے لیے گھنٹیاں بجتی رہتی ہیں اور ارکان خصوصاً حکومتی ارکان کہیں مصروف رہتے ہیں اور وہاں بھی اکثر کورم کا مسئلہ رہتا ہے۔ارکان پارلیمنٹ کو سرکاری طور پر بیرون ممالک جانے کا بھی موقعہ ملتا ہے جس میں اپوزیشن برائے نام شامل ہوتی ہے اور حکومتی ارکان کی اکثریت غیر ممالک کے دوروں میں شامل ہوتی ہے۔
جس دن 15 ممبران قومی اسمبلی نے تیز ترین قانون سازی کی ان آخری دنوں میں 25 ممبران ڈپٹی اسپیکر کی سربراہی میں ایک ہفتے کے غیر ملکی دوروں پر تھے جن پر کروڑوں روپے خرچ ہوئے جس پر سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے تنقید کی مگر وہ بھول گئے کہ ان کی حکومت میں بھی یہی ہوا کرتا تھا ان کے دور میں بھی جلدی میں بل منظور کرا لیے جاتے تھے۔ پارلیمنٹ میں کورم کے بغیر قانون سازی ہوا کرتی تھی۔
ان کا وزیر اعظم بھی پارلیمنٹ کو اہمیت نہیں دیتا تھا اور مہینوں اپنے ہی ارکان کو ملاقات کا وقت نہیں دیتا تھا۔ہر حکومت میں پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کا یہی حال رہا ہے۔ کورم نہ ہونا معمول رہتا ہے۔ ارکان پارلیمنٹ اسی صورت میں ایوان میں آتے ہیں جب انھیں کہیں سے کہہ کر بھجوایا جاتا ہے وہ اپنی مرضی نہیں کسی کی ہدایت پر ایوان میں آتے ہیں۔
سابق وزیر اعظم کے بقول قانون سازی اور بجٹ منظور کرانے کے لیے بھی پارلیمنٹ کے ارکان پر دباؤ ڈلوایا جاتا تھا تو مجبوری میں وہ ایوان میں آتے تھے۔ ارکان پارلیمنٹ اکثر ایوان سے غیر حاضر رہیں، کورم پورا نہ ہوتا ہو، ارکان کو اپنے اصل کام قانون سازی کے لیے ایوان میں آنے کی فرصت ہی نہ ہو تو پھر ایسی پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کی ضرورت ہی کیا ہے۔ پارلیمنٹ میں آنے کے خواہش مند اور اسمبلیوں کی ضرورت ہی کیا ہے۔
پارلیمنٹ میں آنے کے خواہش مند اور اسمبلیوں کے ارکان کروڑوں روپے خرچ کرکے منتخب ہوتے ہوں اور رکنیت کا حلف اٹھا کر غائب ہو جاتے ہوں۔ ان کے انتخاب پر حکومت کے بھی اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں ملک میں سیاسی انتشار بڑھتا ہے۔
الیکشن کے دنوں میں حکومتی امور متاثر ہوتے ہوں تو پھر ایسی اسمبلیوں کی ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے۔ دوسرے ملکوں میں تو ایسا نہیں ہوتا۔ وہاں الیکشن کے دنوں میں کوئی سرکاری چھٹی نہیں ہوتی اور ایسے اسمبلی الیکشن پاکستان میں ہی ہوتے ہیں۔ ہر اسمبلی الیکشن میں بڑی سیاسی جماعتوں کے علاوہ چھوٹی نامقبول جماعتوں کے ارکان اور آزاد امیدوار تھوک کے حساب سے الیکشن لڑتے ہیں۔
جن میں اکثر کو سیکڑوں ووٹ بھی نہیں ملتے جس کی وجہ سے بیلٹ پیپر پر انتخابی نشانات کی بھرمار ہو جاتی ہے اور ہارنے والے ٹکٹ ہولڈر بن جاتے ہیں کہ انھوں نے بھی اسمبلی الیکشن لڑا ہے تو پھر ایسی اسمبلیوں کا وجود مذاق ہی کہلاتا ہے اور ایسی اسمبلیوں کو عوام اہمیت کیوں دیں؟ یہ اسمبلیاں حکومت کی ضرورت ہیں جن سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔بشکریہ ایکسپریس نیوز
نوٹ:ادارے کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں