(تحریر: عبدالباری عطوان)
مقبوضہ فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی جانب سے غاصب صیہونیوں کے خلاف جہادی کاروائیوں میں مسلسل تیزی آتی جا رہی ہے۔ اسی ہفتے مغربی کنارے کے اردگرد کئی جہادی کاروائیاں انجام پائی ہیں جن میں سے ہفتہ 19 اگست کے روز "حوارہ” کے علاقے میں انجام پانے والی کاروائی اہم قرار دی جا رہی ہے۔ اس کاروائی میں فلسطینی مجاہد نے کار واش میں گھس کر فائرنگ کی اور دو صیہونیوں کو شدید زخمی کر دیا جو بعد میں ہلاک ہو گئے۔ یہ فلسطینی مجاہد وہاں سے فرار ہونے میں بھی کامیاب ہو گیا۔ اس کے بعد پیر 21 اگست کے دن بھی صیہونی ذرائع ابلاغ نے مغربی کنارے کے شہر الخلیل میں فائرنگ کی خبر دی جس میں ایک صیہونی ہلاک اور ایک زخمی ہو گیا۔ غاصب صیہونی رژیم کے صدر اسحاق ہرتزوگ نے جہادی کاروائیوں کی حالیہ لہر کا اعتراف کرتے ہوئے کہا: "اسرائیلیوں کو عنقریب سخت اور دردناک دنوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔”
غاصب صیہونی رژیم کے اندر انتشار کی شدت میں اضافے کے بعد اس کی دفاعی توانائیاں مکمل طور پر نابود ہوتی جا رہی ہیں اور اس وقت ہم مقبوضہ فلسطین کے شمالی محاذ اور لبنان کی سرحد پر صیہونی رژیم کی تحقیر کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ یہ ایسی جگہ ہے جہاں حزب اللہ لبنان کے مجاہدین اور میزائل موجود ہیں۔ دوسری طرف صیہونی ٹھکانوں پر غزہ کی پٹی سے بدستور میزائل اور ڈرون طیاروں کا خطرہ منڈلا رہا ہے جبکہ مقبوضہ فلسطینی سرزمین کے اندر بھی اسلامی مزاحمتی کاروائیوں میں شدت آتی جا رہی ہے۔ مغربی کنارے کے شہروں جنین اور نابلس میں غاصب صیہونی رژیم کو ذلت آمیز شکست سے روبرو کرنے کے بعد اب مغربی کنارے کے ایک اور شہر الخلیل میں بھی جہادی کاروائیاں انجام پانا شروع ہو گئی ہیں۔ الخلیل کی جہادی کاروائی نابلس کے جنوب میں حوارہ علاقے میں جہادی کاروائی کے بعد انجام پائی ہے۔
حوارہ کا خطہ بہت تیزی سے ایک "نیا جنین” بنتا جا رہا ہے۔ اس علاقے میں انجام پانے والی جہادی کاروائی کے نتیجے میں دو صیہونی ہلاک اور چھ دیگر زخمی ہو گئے تھے۔ گذشتہ کچھ عرصے سے مقبوضہ فلسطین میں انجام پانے والی جہادی کاروائیوں میں ایک مشترکہ قدر پائی جاتی ہے اور وہ آتشین اسلحہ کا استعمال اور مجاہدین کا کاروائی کے بعد کامیابی سے فرار ہو جانا ہے۔ غاصب صیہونی رژیم کی فوج کا شمار دنیا کی چار بڑی فوجوں میں ہوتا ہے اور اس کا دعوی ہے کہ وہ ناقابل شکست ہے۔ لیکن وہ ابھی تک گذشتہ ہفتے کے دوران جہادی کاروائیاں انجام دینے والی فلسطینی مجاہدین کو گرفتار نہیں کر سکی اور ابھی تک ان کی تلاش جاری ہے۔ اسرائیل اس وقت ایسی جنون آمیز کیفیت اور خوف و وحشت کا شکار ہو چکا ہے جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔
خوف اور وحشت کی یہ فضا زیادہ تر مغربی کنارے اور مقبوضہ بیت المقدس پر حکمفرما ہے۔ غاصب صیہونیوں کی اس جنون آمیز کیفیت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اب ان کیلئے مقبوضہ فلسطین میں تل ابیب سمیت کوئی محفوظ جگہ باقی نہیں بچی۔ جبکہ صیہونی حکمرانوں کا دعوی تھا کہ تل ابیب نہ صرف مقبوضہ فلسطین بلکہ پوری دنیا میں محفوظ ترین شہر ہے۔ لیکن اب کوئی ایسا ہفتہ نہیں گزرتا جس میں فلسطینی مجاہدین تل ابیب کے مرکز میں جہادی کاروائی انجام نہ دیں۔ خود غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے شائع کردہ سرکاری اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس سال کے آغاز سے لے کر اب تک 34 صیہونی فلسطینی مجاہدین کی جہادی کاروائیوں میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ جبکہ گذشتہ ایک سال کے دوران 33 صیہونی جہادی کاروائیوں میں ہلاک ہوئے تھے۔
اگر مقبوضہ فلسطین میں جہادی کاروائیوں کی شرح اسی طرح باقی رہتی ہے تو ایک اندازے کے مطابق سال کے آخر تک ہلاک ہونے والے صیہونیوں کی تعداد دو یا تین گنا تک بڑھ سکتی ہے۔ موجودہ معلومات کی روشنی میں اس کا امکان بہت قوی ہے۔ پیر 21 اگست کی صبح الخلیل شہر کے قریب ہائی وے پر صیہونی آبادکاروں کی گاڑی پر فلسطینی مجاہدین کی فائرنگ نے صیہونیوں کو شدید دھچکہ پہنچایا ہے۔ یہ جہادی کاروائی ظاہر کرتی ہے کہ الخلیل کے بہادر فلسطینی بھی صیہونی دشمن کے خلاف میدان میں اتر آئے ہیں۔ الخلیل کی جہادی کاروائی اس علاقے میں چند ماہ تک امن و امان کے بعد انجام پائی ہے۔ اس علاقے میں جہادی کاروائی اس لحاظ سے بہت اہم قرار دی جا رہی ہے کیونکہ الخلیل شہر کے اندر ایک بڑی صیہونی بستی موجود ہے جس میں 500 صیہونی آبادکار مقیم ہیں۔
یہ بات دور از امکان نہیں کہ عنقریب صیہونی آبادکار اس "سرگردانی” کا شکار ہو جائیں گے جس کا وہ گذشتہ کئی صدیوں سے شکار رہ چکے ہیں۔ غاصب صیہونی رژیم کا سابق وزیر جنگ اویگڈور لیبرمین بھی موجودہ کابینہ کے فاشسٹ وزیروں ایتمار بن گویر اور بزالل اسموتریچ کے ساتھ مل کر مغربی کنارے کو جعلی اسرائیل سے ملحق کرنے کی دھمکی دے رہا ہے۔ ہم انہیں کہتے ہیں کہ آو اگر موقع پا سکتے ہو تو ایسا کر کے دکھاو۔ میں ذاتی طور پر صیہونی حکمرانوں کو مشورہ دوں گا کہ وہ جتنا ممکن ہے یہودی بستیوں کو پھیلائیں کیونکہ بہت جلد ایسا وقت آنے والا ہے جب خدا کرے گا اور مجھ جیسے فلسطینی جلاوطن اپنے وطن واپس لوٹیں گے اور انہیں رہائش کیلئے جگہ درکار ہو گی۔بشکریہ اسلام ٹائمز
نوٹ:ادارے کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔