عائشہ عالم (فرضی نام) میٹرک میں نمبر کم آنے پر پریشان تھیں۔ وہ ڈر رہی تھیں کہ ان کا شہر کے کسی کالج میں داخلہ نہیں ہو سکے گا۔ وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہو گئیں اور جب وہ اپنے والد جاوید عالم (فرضی نام) کے ساتھ کالج میں داخلے کے لیے فارم اور ڈومیسائل لینے گئیں تو موت کا درندہ ان پر حاوی آ چکا تھا۔ شاعرِ بے بدل ثروت حسینؔ نے ایسے ہی تو نہیں کہا تھا: موت کے درندے میں اک کشش تو ہے ثروتؔ لوگ کچھ بھی کہتے ہوں خودکشی کے بارے میں گھر واپسی پر کچھ ایسا ہوا جو کسی نے نہ سوچا تھا۔ باپ اور اُن کی ناز و نعم سے پلی گڑیا جب دریا کے پل پر سے گزرے تو عائشہ اچانک دریا میں گر گئیں۔ یہ حادثاتی طور پر ہوا یا عائشہ نے جان بوجھ کر اپنے ہاتھوں سے اپنی جان لی؟
اس بارے میں شاید کبھی کچھ معلوم نہیں ہو سکے گا۔ریسکیو کے غوطہ خور گذشتہ چار دنوں سے دریا میں عائشہ کی لاش کو تلاش کر رہے ہیں مگر اب تک کامیاب نہیں ہو سکے۔ جاوید عالم کی ہمت اگرچہ جواب دے چکی ہے مگر ان کی امید نہیں ٹوٹی اور وہ نم آلود آنکھوں سے دریا کی جانب دیکھتے ہیں اور اپنی ننھی پری کی لاش ملنے کی دعا کرتے ہیں۔ جاوید عالم نے پولیس میں بھی یہی بیان ریکارڈ کروایا ہے مگر مقامی لوگوں کے مطابق طالبہ میٹرک کے نتائج کے بعد مایوس رہنے لگی تھی۔ وہ فکرمند تھی کہ وہ کبھی کالج میں داخلہ حاصل نہیں کر سکے گی۔
پولیس کے مطابق، وہ طالبہ کی مبینہ خودکشی کے واقعہ کی تفتیش کررہے ہیں جس کے لیے والد سمیت عینی شاہدین کے بیانات قلمبند کر لیے گئے ہیں ۔ لوئر چترال کے علاقے لٹکوہ میں بھی مبینہ خودکشی کا ایسا ہی ایک پریشان کن واقعہ پیش آیا جب ایک طالبہ نے نرسنگ کالج کے لیے دیے گئے ٹیسٹ میں کم نمبر آنے پر زندگی کا خاتمہ کر لیا۔ اعداد و شمار کے مطابق، چترال میں گزشتہ 6 دنوں کے دوران مبینہ خودکشی کے 8 واقعات پیش آ چکے ہیں جن میں سے 5 رپورٹ ہوئے ہیں اور خودکشی کرنے والوں کی زیادہ تعداد خواتین پر مشتمل ہے۔ خودکشی کے ان واقعات میں اَپر چترال کے علاقے تورکہو میں مبینہ خودکشی کا ایک واقعہ پیش آیا جبکہ ایک اور واقعہ میں اپر چترال میں ہی دو بچوں کی ماں نے موت کو گلے لگا لیا۔
اسی طرح لوئر چترال میں خاتون اپنے شوہر کی موت کا صدمے نہ سہہ سکی اور اس نے مبینہ طور پر دریا میں کود کر جان گنوا دی جبکہ اسی روز اسیاک گاوں کے دریا سے ایک نوجوان کی لاش بھی ملی۔ دو روز قبل کجو بالا کے علاقے میں ماں اور شیر خوار بچہ بھی دریا میں گر کر ڈوب گئے تھے مگر لواحقین کی جانب سے اسے حادثہ قرار دیا گیا۔ ماں کی لاش اگرچہ نکال لی گئی تھی مگر بچہ تاحال لاپتہ ہے۔ محکمہ ریسکیو چترال کے ترجمان کے مطابق رواں ہفتے دریا سے 3 لاشیں نکالی گئی ہیں جن میں دو خواتین اور ایک مرد کی ہے تاہم دو لاپتہ لاشوں کی تلاش جاری ہے۔ انہوں نے رابطہ کرنے پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’دریا میں پانی کا بہائو غیرمعمولی طور پر زیادہ ہے جس کے باعث لاشوں کی تلاش میں مشکل پیش آ رہی ہے۔‘
بچے نے خودکشی سے پہلے خط میں کیا لکھا؟
لوئر چترال کے علاقے گرم چشمہ میں یکم جون کو 12 سالہ بچے نے مبینہ طور پر خودکشی کر لی۔ لڑکے نے خودکشی کرنے سے پہلے اپنے کمرے میں ایک خط چھوڑا جس میں اس نے لکھا تھا کہ وہ اپنی والدہ کے رویے سے دلبرداشتہ ہو چکا ہے۔
اسی طرح ایک اور واقعہ میں نوجوان نے موٹرسائیکل خریدنے کا مطالبہ پورا نہ ہونے پر مبینہ طور پر خودکشی کی جس کا ذکر اس نے خودکشی کرنے سے قبل اپنے خط میں بھی کیا تھا۔
خودکشی کے واقعات رپورٹ کیوں نہیں ہوتے؟
ایس پی انوسٹی گیشن لوئر چترال ستار خان کے مطابق خودکشی کے زیادہ تر واقعات میں لواحقین مقدمہ درج کروانے سے گریزاں رہتے ہیں۔ پولیس نے البتہ کچھ مقدمات میں شواہد کی بنیاد پر مقدمہ ضرور درج کیا ہے۔
انہوں نے کہا، دو ماہ قبل ایک کم عمر بچے نے پھندے سے لٹک کو خودکشی کی تھی۔ پولیس تفتیش میں یہ انکشاف ہوا کہ اس بچے کی غیر اخلاقی ویڈیو بنا کر اسے بلیک میل کیا جا رہا تھا جس کے باعث اس نے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔
ایس پی انوسٹی گیشن کے مطابق اس مقدمے میں ملوث ایک ملزم کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
رپورٹ ہونے والے خودکشی کے واقعات کی تعداد کتنی ہے؟
چترال پولیس کی رپورٹ کے مطابق 2013 سے 2022 تک خود کشی کے مجموعی طور پر 102 واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں 36 مرد اور 64 خواتین شامل ہیں جبکہ خودکشی کی نمایاں وجوہات میں گھریلو جھگڑے، امتحانات میں ناکامی اور ذہنی امراض شامل ہیں۔
پولیس کے اپنے اعداد و شمار سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ’2018 میں جون اور جولائی کے مہینوں میں 10 طالب علموں نے خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھایا تھا جن میں سے صرف ایک نوجوان ہی زندہ بچ سکا۔‘
خودکشی کرنے کی وجوہات کیا ہیں؟
چترال کے سماجی ورکر پیر مختار نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’خودکشی کرنے والے زیادہ تر افراد ذہنی دبائو کا شکار ہوتے ہیں جس کی کوئی بھی وجہ ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’کچھ واقعات میں ہراسانی اور بلیک میلنگ کا پہلو بھی شامل ہے جس کی وجہ سے بچہ یا بچی خودکشی کر لیتے ہیں۔‘
سماجی ورکر پیر مختار کے مطابق پولیس کے ساتھ وومن اینڈ چائلڈ پروٹیکشن بیورو جیسے اداروں کو فعال کرنا ہوگا تاکہ اس نوعیت کے واقعات کا تدارک کیا جا سکے۔
ماہر نفسیات کیا کہتے ہیں؟
ماہر نفسیات ڈاکٹر خالد مفتی کے مطابق چترال کے نوجوانوں میں ڈپریشن تشویشناک حد تک بڑھ چکا ہے جس سے خواتین کی زیادہ تعداد متاثر ہو رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’چترال ماحولیاتی تبدیلیوں سے بھی غیرمعمولی طور پر متاثر ہو رہا ہے اور تقریباً ہر سال ہی سیلاب کی وجہ سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلتی ہے جس کے باعث نوجوان خوف اور پریشانی کا شکار ہو جاتے ہیں۔‘
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’دریا خودکشی کرنے کے لیے ایک آسان انتخاب ہے۔ تاہم اس نوعیت کے تمام کیسز پر ایک جامع تحقیق کرنے کی اشد ضرورت ہے۔‘
متذکرہ بالا صورتِ حال کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ چترال کے ہسپتالوں میں ماہر نفسیات کی سہولت موجود نہیں، جس کے باعث ڈپریشن اور مختلف نفسیاتی عارضوں کا شکار نوجوان اپنی ذات کے خول سے باہر نہیں نکل پاتے اور ایک دن اپنی جان لے لیتے ہیں۔