(محمد حنیف)
تاریخ خود کو دوہرا نہیں رہی، دائرے میں گھوم رہی ہے اور ہر ٹوٹے ہوئے کلاک کی طرح دن میں دو مرتبہ صحیح وقت بتاتی ہے۔ نواز شریف آج سے 16 سال پہلے بھی فوجی حکمران مشرف کو کمزور بھانپتے ہوئے صحافیوں اور حامیوں کی بارات سے جہاز بھر کے اسلام آباد پہنچے تھے۔ جو اُس وقت بچے تھے وہ اس وقت یونیورسٹیوں میں پڑھ رہے ہیں یا یہ سوچ رہے ہیں کہ آدھا لیٹر پیٹرول میں موٹرسائیکل دفتر تک پہنچے گی یا نہیں۔
اس سے بہت پہلے انھوں نے ٹی وی پر قوم سے تاریخی خطاب کیا تھا کہ میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا۔ جو اس وقت بچے تھے وہ اب خود بچوں والے ہو گئے ہیں اور اب انھیں یہ بھی یاد نہیں ہو گا کہ نواز شریف کسی سے ڈکٹیشن نہیں لے رہے تھے اور اس کے کتنے گھنٹوں بعد اپنی وزارت عظمیٰ سے فارغ ہو گئے تھے۔
جب میاں صاحب کی بارات تیار ہو رہی تھی تو راقم بھی لندن میں صحافت نما کام کرتا تھا۔ سب کو فون آ رہے تھے کہ آپ میاں صاحب کے ساتھ جہاز میں چلیں گے اور بتا دیں کہ ٹکٹ کہاں بھیجنا ہے۔
میرے ادارے میں ٹکٹ لینے کی اجازت نہیں تھی، ادارے نے کہا تاریخی موقع ہے آپ جائیں۔ میں صرف تماشہ دیکھنے جا رہا تھا، کوریج کے لیے ساتھ ایک مستند رپورٹر بھی تھا۔
میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ دیکھنے ہم بھی گئے پر تماشہ نہ ہوا، کیونکہ تماشہ ہوا اور پرزے اڑتے ہوئے بھی اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ اور آخری کیفیت یہ ہوئی کہ کوئی یہاں گرا، کوئی وہاں گرا۔
صحافی اسلام آباد کے پرانے باتھ روموں میں بند، کیمرے غائب، میاں صاحب کے ساتھ آنے والے ان کے سنگی ساتھی فرش پر، اور جب میاں صاحب کو ڈنڈا ڈولی کر کے جہاز میں واپس سعودی عرب روانہ کیا گیا تو اس وقوعہ کی کوئی تصویر، کوئی فوٹیج نہیں بنی، اگر بنی تو میری نظروں سے نہیں گزری لیکن منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔
لندن سے جہاز کے ٹیک آف سے پہلے ہی اسلام آباد میں ماحول گرم تھا۔ شاید ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ کسی دوست ملک کے انٹیلیجنس اہلکار نے پریس کانفرنس کر کے وہ معاہدہ لہرایا جس میں نواز شریف 10 سال تک نہ لوٹنے کا وعدہ کر کے گئے تھے۔
میاں صاحب نے ایک نہ مانی اور واپسی کے سفر پر مصر رہے۔ اتنا کیا کہ ایئرپورٹ پر پہنچ کر شہباز شریف کو حکم دیا کہ آپ لندن ہی رہو۔ سب صحافیوں نے سوچا کہ میاں صاحب عقلمند ہیں۔ اگر خود پکڑے جائیں گے تو ان کے لیے آواز اٹھانے کے لیے ایک بھائی تو آزاد ہو گا۔
جہاز میں واقعی کچھ بارات کا سا ماحول تھا۔ نعرے، گانے، جہاز اسلام آباد کے پاس پہنچا تو ایک نوجوان نے رونگٹے کھڑے کر دینے والے لہجے میں نظم گائی کہ سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے۔
بازوئے قاتل کا مقابلہ کرنے کے لیے میاں صاحب کے پاکستان کی سپریم کورٹ تھی جس سے امید تھی کہ شاید وہ جنرل مشرف کی حکومت کے مقابلے میں ان کا ساتھ دے گی۔
میاں صاحب کا جہاز لینڈ کرنے والا تھا اور سپریم کورٹ نے کوئی ریلیف نہیں دیا۔ میاں صاحب کی آخری لائن آف ڈیفنس دو برطانوی شہری تھے۔ لارڈ نذیر احمد کو سب جانتے تھے لیکن ایک دیو ہیکل نوجوان بھی تھا جو کہتا تو اپنے آپ کو ن لیگ کا کارکن تھا لیکن پتا چلا کہ برمنگھم کے کسی کلب میں باؤنسر تھا۔ باؤنسر وہ لوگ ہوتے ہیں جو نشے میں دھت نوجوانوں کو ڈرانے دھمکانے یا کبھی کبھی کلب سے اٹھا کر باہر پھینکنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
منصوبہ یہ تھا کہ ان دو برطانوی شہریوں کی موجودگی میں پاکستانی اہلکار میاں صاحب کے ساتھ جو بھی کریں لیکن کم از کم ’گھسن مکا‘ نہیں کریں گے۔ جہاز رن وے پر رکا تو لارڈ نذیر احمد نے کمانڈ سنبھالی، باہر ایک وردی والوں کا دستہ موجود تھا، مطالبہ ہوا کہ ہم جہاز سے اس وقت تک نہیں اتریں گے جب تک یہ وردی والا دستہ نہیں ہٹایا جائے گا۔
حکام نے دوسرا وردی والا دستہ بھیج دیا، اسی دستے کے انچارج نے جہاز میں آ کر میاں صاحب کو سلیوٹ کیا، بڑی عزت کے ساتھ جہاز سے اتار کر لاؤنج میں بٹھایا اور پھر وہاں سے کام ان لوگوں نے سنبھال لیا جنھوں نے کوئی وردی نہیں پہنی ہوئی تھی۔
گھنٹوں تک چلنے والی کارروائی بڑے صبر کے ساتھ کی گئی، صحافیوں کو آہستہ آہستہ کونوں میں لے جا کر، سر پاسپورٹ دیں آپ کی امیگریشن ہم کرواتے ہیں، سر پلیز ایک طرف ہو جائیں، کسی سے پیار کی بات، کسی کے کندھے پر ہاتھ، کسی کو دھکا۔ اس پوری کارروائی میں برمنگھم کا باؤنسر سائے کی طرح میاں صاحب کے ساتھ رہا۔
مجھے اس پرانی فلم کا ڈراپ سین یاد ہے کہ میاں صاحب کا باؤنسر زمین پر پڑا تھا، لارڈ نذیر پتا نہیں کہاں تھے، لیکن بغیر وردی والوں کا ایک دستہ میاں صاحب کو لے کر ایک جہاز کی طرف جا رہا تھا جو پہلے ہی رن وے پر انتظار کر رہا تھا۔
ہماری تاریخ دائرے میں چلتی ہے لیکن کچھ کرداروں کو بھول جاتی ہے۔ مجھے پتہ نہیں برمنگھم کا باؤنسر کہاں ہے۔ لارڈ نذیر احمد برطانیہ کی جیل میں ہیں، جنسی جرائم کی سزا میں۔
نواز شریف نے پھر رخت سفر باندھا ہے۔۔۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ ڈکٹیشن دینے جا رہے ہیں یا لینے۔ یا بازوئے قاتل سے زور آزمائی کرنے۔بشکریہ بی بی سی
نوٹ:ادارے کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔