ملکی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستوں پر براہ راست سماعت نشر کی گئی ، کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ نے کی۔ وفاقی حکومت نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف اٹاری جنرل کے ذریعے تحریری جواب عدالت میں جمع کرایا ، جس میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستیں مسترد کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔ عدالت نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف اپیلوں پر فل کورٹ بنانے کی درخواستیں منظور کر لیں۔ چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے پوچھا کہ 9 درخواستیں ہیں، وکلا کون کون ہیں؟ خواجہ طارق رحیم صاحب آپ دلائل کا آغاز کریں۔
چیف جسٹس نے کہا دلائل دوبارہ سے شروع ہوں گے کیونکہ نیا بینچ تشکیل دیا گیا ہے، فل کورٹ بنانے کی 3 درخواستیں تھیں جن کو منظور کر رہے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فل کورٹ اجلاس میں فل کورٹ سماعت کرنے کی منظوری دی گئی، عوام ہم سے 57 ہزار کیسز کا فیصلہ چاہتے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز کا کہنا تھا خواجہ صاحب آئینی شقوں کو صرف پڑھیں، تشریح نہ کریں جبکہ جسٹس اطہرمن اللہ نے پوچھا کہ خواجہ صاحب آپ کیا کہہ رہے ہیں یہ قانون بنانا پارلیمان کا دائرہ کار نہیں تھا یا اختیار نہیں تھا؟ جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 184/3 جوڈیشل پاور ہے، عدالت کو اپنے اختیارات استعمال کرنے سے روکنے کی کوشش کی گئی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ میری نظر میں ایکٹ میں سپریم کورٹ کے کسی اختیار کو نہیں چھیڑا گیا، ایکٹ میں صرف چیف جسٹس کے اختیار کو کم کیا گیا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اختیارات اور طاقت کا ذکر قانون میں نہیں جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا سپریم کورٹ کا اپنا اختیار ہے کہ وہ اپنے اختیارات کو استعمال کرے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ خواجہ صاحب آپ کی بحث کیا ہے؟ مجھے آپ کی یہ بات سمجھ آئی ہے کہ اگر یہ سب فل کورٹ کرے تو درست ، پارلیمنٹ یہ کام کرے تو غلط ہے، میں یہ سمجھا ہوں آپ کی بات سے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ ہمارے پاس فوجی آمر کا ایک قانون تھا، کیا فوجی آمر کا قانون درست ہے یا پارلیمنٹ کی گئی قانون سازی درست ہے؟۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پہلے صرف یہ بتا دیں پریکٹس اینڈ پروسیجر آئینی ہے یا غیر آئینی؟ خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ اپیل کا حق دینے کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت ہے اور پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون غیر آئینی ہے۔ بعدازاں کیس کی سماعت 3اکتوبر تک ملتوی کردی گئی۔
قبل ازیں 15 رکنی فل کورٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی سماعت براہ راست نشر کرنے پر اتفاق کیا ۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ اجلاس ہوا جس میں تمام ججز شریک ہوئے۔ اجلاس کے دوران پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت کا براہ راست کوریج کا معاملہ زیر غور آیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کیس کی سماعت براہ راست دکھانے کے حوالے سے ججوں میں اتفاق رائے پایا گیا، جس کے بعد سماعت براہ راست نشر کرنے کی اجازت دیدی گئی ۔ ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی کارروائی دکھانے کے لیے 5 کیمرے کمرہ عدالت نمبر ایک ، چار کیمرے وزیٹرز گیلری اور ایک کیمرا ججز ڈائس کے سامنے وکلا کے روسٹرم کے لیے نصب کیا گیا۔